کچھ لڑاکا طیاروں میں ہنگامی فضائی اخراج

کچھ لڑاکا طیاروں میں ہنگامی فضائی اخراج

کچھ لڑاکا طیاروں میں ہنگامی فضائی اخراج کا راستہ نچلی طرف کیوں ہوتا ہے؟

یکم مئی 1957 کو لاک ہیڈ کمپنی کے ٹیسٹ پائلٹ جیک ’سوٹ کیس‘ سمپسن نے کیلیفورنیا کے پالم ڈیل ہوائی اڈے سے اڑان بھری تو یہ ایک نئے طیارے کی معمول کی پرواز تھی۔

لیکن کچھ ہی دیر بعد اس پرواز نے ایک خوفناک رخ اختیار کر لیا۔

سمپسن لاک ہیڈ کمپنی کے نئے ایف-104 سٹار فائٹر لڑاکا طیارے کو اڑا رہے تھے جو آواز سے دوگنا رفتار سے اڑنے والا پہلا امریکی لڑاکا طیارہ تھا۔ اس وقت اس کا ڈیزائن حتمی شکل تک نہیں پہنچا تھا۔

جب طیارہ 30 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو اس کے پروں کے اس حصے میں خرابی پیدا ہو گئی جن کی مدد سے طیارہ رخ موڑتا ہے۔ سمپسن کا جہاز نیچے کی جانب جھکا اور فضا میں ہچکولے کھانے لگا۔

سمپسن جانتے تھے کہ ان کو جلد ہی طیارے سے نکلنا ہو گا اور انھوں نے 27 ہزار فٹ کی بلندی پر ایجیکٹر سیٹ کا ہینڈل کھینچ دیا۔

سمپسن نے 1988 میں ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ’مجھے اب بھی یاد ہے کہ ہوا کے ایک طاقت ور جھونکے نے کس طرح مجھے سیٹ کے ساتھ ہی چپکا دیا۔ جیسے آپ کسی رولر کوسٹر میں تیز رفتاری سے نیچے کی جانب جا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ ہوا کا دھماکہ اچانک ہوا جو مجھ سے تقریبا 450 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرایا۔‘

سمپسن کا پیرا شوٹ بحفاظت کھل گیا اور چند معمولی چوٹوں کے علاوہ اس حادثے میں ان کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن اس واقعے کی سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ وہ طیارے کے کاکپٹ سے اوپر کی جانب نہیں، بلکہ نچلے حصے سے باہر نکلے تھے۔

ان کا شمار ان گنے چنے افراد میں کیا جاتا ہے جو فضا میں خرابی کا شکار ہونے والے طیارے سے نیچے کے حصے سے باہر نکلے۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران جب فضائی انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی تھی، لڑاکا طیاروں کی تیز رفتاری کی وجہ سے ایک نیا ڈرامائی مسئلہ پیدا ہوا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ کسی خرابی کی صورت میں بچ نکلنا زیادہ مشکل ہو گیا تھا۔

پرانے اور سست رفتار طیاروں سے پیرا شوٹ کی مدد سے چھلانگ لگانا نسبتا آسان تھا لیکن 450 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے والا طیارہ اتنا تیز رفتار تھا کہ پائلٹ کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ نکلتے وقت طیارے کی دم سے بچ سکے۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی اس مسئلے کا حل پائلٹ ایجیکشن سیٹ کی شکل میں نکالا گیا جس کا سہرا بھی لاک ہیڈ کے سر ہی جاتا ہے جنھوں نے پی-38 لڑاکا طیارے میں پہلی بار اس کا تجربہ کیا۔

یہ ایک غیر معمولی ڈیزائن کا حامل طیارہ تھا جس کے دو انجن طیارے کی دم تک لمبائی میں پہنچتے تھے جن کے درمیان موجود خلا میں پائلٹ اور اسلحے کے لیے جگہ رکھی گئی تھی۔ لیکن اس ڈیزائن کی وجہ سے اس طیارے سے باہر نکلنا بہت مشکل تھا۔

پائلٹس کے لیے بنائے جانے والے کتابچے میں خرابی کی صورت میں باہر چھلانگ لگانے کے لیے ہدایات تو دیں گئیں لیکن اس اہم نکتے کو نظر انداز کر دیا گیا کہ پائلٹ کو اس وقت گولیوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔

الیکس سپنسر واشنگٹن کے نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم میں کیورویٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پی-38 سے باہر نکلنے کی ہدایات مضحکہ خیز تھیں۔ جیسے کہ باہر نکلیں، پر کے اوپر چڑھ جائیں، نیچے پھسلیں اور یقینی بنائیں کہ آپ طیارے سے دور ہیں۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب طیارہ فضا میں ہے اور آپ نہیں جانتے کہ باہر نکلنے کے بعد کیا ہو گا۔‘

جیسے جیسے لڑاکا طیاروں میں جدت آتی گئی، یہ سوال اہمیت اختیار کرتا گیا کہ آواز کی رفتار سے تیز طیاروں سے نکلنے کا محفوظ طریقہ کیا ہے۔

ایف-104 سٹار فائٹر لڑاکا طیارہ
ایف-104 سٹار فائٹر لڑاکا طیارہ

پہلی ایجیکٹر سیٹ کے اصول سادہ سے تھے جس میں طیارے کی کنوپی دھماکہ خیز مواد سے اڑ جاتی اور راکٹ کی مدد سے پائلٹ کی سیٹ تیزی سے طیارے سے باہر نکل جاتی۔

ایک روایتی طیارے میں تو یہ ماڈل کام کر جاتا تھا لیکن جیٹ طیاروں کے آغاز میں بہت سے تجربات ہوئے جن میں طیارے کی دم میں تبدیلیاں لائی گئیں۔ برطانیہ کی فضائیہ کا گلوسٹر میٹیور ایسا پہلا طیارہ تھا جس میں ایجیکٹر سیٹ کا تجربہ کیا گیا لیکن اس کی رفتار اتنی زیادہ نہیں تھی کہ طیارے کی دم کوئی مسئلہ پیدا کرتی۔

سپنسر کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ایسے طیارے پر نظر ڈالیں جس میں نیچے کی جانب سے نکلنے کے لیے ایجیکشن سیٹ بنائی گئی تو انجینیئر کے پاس عملے کو باہر نکالنے کے لیے زیادہ راستے نہیں ہوتے۔ یہ کوئی بہترین حل نہیں لیکن ایمرجسنی میں عملے کو بچانے کا واحد راستہ ہے۔‘

1950 میں ایف-104 اور امریکی بی-47 بمبار طیارے کے ڈیزائن کی وجہ سے روایتی ایجیکشن سیٹ سے ہٹ کر سوچنا مجبوری بن چکا تھا۔ بی-47 میں تین لوگوں کا عملہ جہاز میں موجود دو پوڈز میں ہوتا تھا۔ پائلٹ اور کو پائلٹ تو روایتی طریقے سے طیارے سے اخراج کر سکتے تھے لیکن نیوی گیٹر، جو دم کے قریب موجود ہوتا، کو نچلے حصے سے اخراج کرنا پڑتا تھا۔

ان سیٹوں کا تجربہ کرنے کے لیے عملے کی ضرورت تھی۔ نچلے حصے کی ایجیکشن سیٹ کا پہلا تجربہ کرنے والے امریکی فضائیہ کے کرنل آرتھر ہینڈرسن تھے جنھوں نے اکتوبر 1953 میں اس کا تجربہ کیا۔ 1955 میں پاپولر مکینکس میگزین میں اس تاریخی چھلانگ کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ’طیارے کے نیچے سے ایجیکشن کو بیان کرنے کا آسان ترین طریقہ یہ آواز ہے۔۔۔ سوئش۔‘

’کوئی جھٹکا نہیں لگتا، نا ہی ایسا کوئی بیمار کرنے والا احساس ہوتا ہے جیسے تیزی سے نیچے جاتی لفٹ میں ہوتا ہے۔ آپ وہاں آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اچانک آپ سیٹ فائر کرتے ہیں۔ رنگوں کی ایک سیربین آپ کی آنکھوں کے سامنے آتی ہے۔ آپ بےہوش نہیں ہوتے لیکن صرف چند لمحوں تک ذہن افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔ جب تک آپ اپنا سر گھما کر بیلٹ کو دیکھنے کی پوزیشن میں آتے ہیں، سیٹ جا چکی ہوتی ہے اور آپ ایک خلا میں گر رہے ہوتے ہیں۔‘

طیارے کے ٹیک آف سے پہلے ہینڈرسن کو سیٹ بیلٹ اور کاندھوں کی ہارنس لگائی گَئی تھی۔ انھوں نے لکھا کہ ’30 منٹ تک میں کھلی ہوئی ہیچ پر بیٹھا تھا، خدا اور میری سوچ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔‘

ایجیکشن سیٹ

ہینڈرسن کی پہلی ایجیکشن بہترین رہی جس کے بعد وہ فلوریڈا میں چوچاٹاچی بے کے پانیوں میں اترے۔ اس کے بعد ہونے والے سات تجربات میں معلوم ہوا کہ اگر عملہ 440 میل فی گھنٹہ کی رفتار پر ایجیکشن سیٹ فائر کرنے کے لیے ڈی رنگ کو تھامے رکھیں تو ہوا کی رفتار ان کے بازو کو ادھر ادھر جھٹکے دیتی تھی۔ دو افراد کے بازو کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں۔

سٹار فائٹر کا ڈیزائن زیادہ پیچیدہ تھا کیوں کہ انتہائی رفتار کو حاصل کرنے تک یہ لڑاکا طیارہ جہاز سے زیادہ ایک راکٹ سے مشابہت رکھتا تھا۔ ہوا کی رگڑ کم رکھنے کے لیے اس کے چھوٹے چھوٹے پروں اور دم کے کنارے اتنے تیز تھے کہ کاغذ کاٹ سکتے تھے۔ ان پر کام کرتے ہوئے زمینی عملے کو بھی حفاظتی ٹوپیاں پہننی پڑتی تھیں تاکہ زخمی ہونے سے بچ سکیں۔ لاک ہیڈ کمپنی نے طے کیا کہ نچلے حصے سے اخراج کا راستہ نکالنا ضروری تھا۔

بی-47 اور ایف-104 میں بنائی جانے والی ایسی سیٹوں میں ایک بڑا مسئلہ تھا۔ ایک جانب جہاں ان سے نکلنے والا عملہ دم سے ٹکرانے سے بچ جاتا تھا، ان کو طیارے کے نیچے کم از کم 500 فٹ کی بلندی درکار ہوتی تھی۔ طیارے کے عملے کو علم تھا کہ ٹیک آف اور لینڈنگ کے لیے یہ سیٹ بہترین نہیں تھی کیوں کہ یہی وہ دو وقت ہوتے ہیں جب زیادہ تر حادثات ہوتے ہیں۔

ایف-104 کے معاملے میں اوپر کی جانب نکلنے والی ایجیکشن سیٹ اس وقت ناگزیر ہو گئی جب 1960 سے نیٹو ممالک کی فضائیہ نے اس طیارے کو کم بلندی پر استعمال کرنا شروع کر دیا جس میں کئی طیارے صرف 100 فٹ کی بلندی پر بھی اڑتے تھے۔

زیادہ تر نچلے حصے کی سیٹوں کو بدل دیا گیا ہے لیکن ایک طیارہ اب بھی ایسا ہے جس میں یہ اب تک موجود ہے۔ یہ امریکی فضائیہ کا بی-52 بوئنگ سٹریٹو فورٹریس بمبار طیارہ ہے جو 1950 میں سروس میں داخل ہوا تھا۔ اس طیارے میں نیوی گیٹر اور ریڈار نیوی گیٹر کے لیے اخراجی سیٹ نچلے حصے سے نکلتی ہے۔ طیارے کی دم یا رفتار کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملے کے یہ دونوں افراد باقی عملے کی نسبت طیارے کی نچلی سطح پر موجود ہوتے ہیں۔

سویت یونین میں سپر سونک ٹپولوو ٹو-22 بلائنڈر بمبار طیارے کا بھی ایسا ہی ڈیزائن تھا جس میں اخراجی ایجیکشن سیٹ کو نچلے راستے سے نکالنا ضروری تھا۔ اس کی وجہ اس طیارے کے دو بھاری بھرکم انجن تھے جو طیارے کی دم پر نصب تھے۔

اس سوویت طیارے کی ایجیکشن سیٹ ایک ہزار فٹ سے کم بلندی پر استعمال نہیں ہو سکتی تھی۔ حالانکہ یہ بمبار طیارہ لینڈنگ کے وقت تیز رفتاری کی وجہ سے حادثات کا سامنا کر سکتا تھا۔ اس طیارے کے اتنے حادثات ہوئے کہ اس کا نام ’مین ایٹر‘ یا ’انسان کھانے والا‘ رکھ دیا گیا۔ اس نام کی ایک وجہ اس کی غیر روایتی ایجیکشن سیٹ بھی ہو سکتی ہے۔

جیسے جیسے ایجیکٹر سیٹ کی ٹیکنالوجی بہتر ہوتی گئی، مارٹن بیکر جیسے لوگوں کی بنائی گئی سیٹیں طاقت ور ہوتی گئیں جو باآسانی اور بروقت طیارے سے بحفاظت نکل سکتی تھیں۔ اب نچلے حصے سے اخراج کی ضرورت باقی نہیں رہی۔

بی-52 بوئنگ سٹریٹو فورٹریس بمبار طیارہ
بی-52 بوئنگ سٹریٹو فورٹریس بمبار طیارہ

لیکن پھر بھِی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں روایتی ایجیکشن سیٹ ناکام ہو گئی۔ ان میں سے ایک واقعہ 1994 میں پیش آیا جب امریکی بحریہ کی پہلی خاتون جنگی پائلٹ کارا ہلٹ گرین کے ایف-14 ٹوم کیٹ طیارے میں اس وقت خرابی پیدا ہو گئی جب وہ طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس ابراہام لنکن پر لینڈ کرنے والی تھیں۔ جیسے ہی انھوں نے طیارے سے ایجیکٹ کیا، طیارہ الٹ گیا اور ان کی سیٹ سیدھی پانی میں جا گری اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئیں۔

اس حادثے سے صرف چند ہی سال پہلے دنیا کو ایسے واقعات سے بچنے کا ایک حل دکھایا جا چکا تھا۔ 1989 میں سوویت ٹیسٹ پائلٹ انٹولی کیوچور نے دنیا کو پیرس ایئر شو میں نئے مگ-29 لڑاکا طیارے کا چہرہ دکھایا تھا جو اس وقت تک مغرب کے لیے ایک راز تھا۔

ان کی پرواز کے آخر میں طیارے کے ایک انجن سے ایک پرندہ ٹکرایا جس کے بعد طیارہ زمین کی جانب لپکا۔ پائلٹ زمین پر موجود ہجوم کو بچانے تک طیارے میں ہی رہے اور زمین سے ٹکرانے سے صرف تین سیکنڈ قبل انٹولی کیوچور نے ایجیکٹ کیا۔

حیران کن چیز یہ تھی کہ اس وقت طیارے کے کاکپٹ کا رخ زمین کی جانب تھا۔ جلتے ہوئے مگ طیارے کے ملبے سے 100 فٹ سے کم فاصلے پر لینڈ کرنے کے باوجود انٹولی کیوچور کو آکسیجن ماسک سے لگنے والے ایک زخم کے علاوہ کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔

یہ واقعہ ٹی وی کیمروں کے سامنے پیش آیا جو آج بھی ایک معجزہ لگتا ہے۔ ان کا غیر معمولی طور پر زندہ بچ جانا ایک خصوصی ایجیکشن سیٹ کے مرہون منت تھا جو سوویت یونین نے نئے لڑاکا طیاروں کے لیے تیار کی تھی۔ زویڈا کے-36 نامی سیٹ میں ایک ایسا راکٹ سسٹم نصب تھا جو سیٹ کو زمین سے دور پھینکتا تھا چاہے طیارے کا رخ کسی بھی جانب ہو۔

سپنسر کہتے ہیں کہ جب یہ واقعہ ہوا تو سب نے اس سیٹ کا آٹو سسٹم دیکھا جس کی وجہ سے پائلٹ زندہ بچ گیا۔ لیکن اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ سوویت یونین کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔

سپر سونک ٹپولوو ٹو-22 بلائنڈر بمبار طیارہ جسے ’مین ایٹر‘ یا ’انسان کھانے والا‘ کا لقب ملا
سپر سونک ٹپولوو ٹو-22 بلائنڈر بمبار طیارہ جسے ’مین ایٹر‘ یا ’انسان کھانے والا‘ کا لقب ملا

’اس وقت سب حیران ہو گئے تھے۔ جس رخ پر پائلٹ جہاز سے نکلا، اس وقت کی روایتی ایجیکشن سیٹ تو اسے سیدھا زمین پر پھینک دیتی۔ پھر سب نے دیکھا کہ سیٹ باہر نکلی تو راکٹ نے اس کا رخ تبدیل کر دیا۔ اس نے بہت کچھ بدل دیا۔ مغربی انجینیئرز کو معلوم ہی نہیں تھا کہ سوویت یونین کے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے اور پھر انھوں نے ایسی سیٹ تیار کرنے کے لیے کام کرنا شروع کر دیا۔‘

مارٹن بیکر کی اب کی سیٹوں میں بھی ایسی ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے اور اب لڑاکا پائلٹس کو یہ پریشانی نہیں کہ نچلے حصے میں موجود سیٹ کے پاس کافی بلندی ہے یا نہیں۔

لیکن یہاں ہیلی کاپٹر کے پائلٹس کے لیے سوچنے کا وقت نکالیں۔ کیوں کہ ایک جانب جہاں فضائی ڈیزائنرز ہیلی کاپٹر سے بچ نکلنے کا ایسا ہی راستہ ڈھونڈ رہے ہیں، اب تک صرف دو ہی ایسے ہیلی کاپٹر ہیں جن میں اخراجی سیٹ موجود ہے۔ اور یہ دونوں ہی سوویت یونین کے ہیں۔

کے اے-50 اور باون لڑاکا ہیلی کاپٹرز میں ایسی دھماکہ خیز بیلٹس نصب ہیں جو سیٹ کے اخراج سے قبل ہی ہیلی کاپٹر کے بلیڈ الگ کر دیتی ہیں اور یوں ہیلی کاپٹر سے چھلانگ لگانے والے پائلٹ اور بلیڈز کے درمیان ٹکراؤ کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

سمتھسونین نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم کے کیوریٹر راجر کونر نے بی بی سی فیوچر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ہیلی کاپٹر اس کی کاپی مشکل سے ہی کر سکیں گے۔

’لڑاکا ہیلی کاپٹر اتنی کم بلندی پر پرواز کر رہے ہوتے ہیں کہ جب تک آپ ایجیکٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور کوئی قدم اٹھانے لگتے ہیں، آپ شاید مر چکے ہوتے ہیں، تو پھر کیوں ایک ایسے نظام کے لیے زیادہ وزن، پیچیدگی اور خرچہ شامل کیا جائے جو عین ممکن ہے کبھی استعمال ہی نہیں ہو سکے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *