کووڈ 19 کی ابتدا ’ممکنہ طور پر چینی حکومت کے زیر کنٹرول لیب سے ہوئی‘: ایف بی آئی سربراہ
امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا ہے کہ ایجنسی کا ماننا ہے کہ کووڈ 19 کی ابتدا ’ممکنہ طور پر چینی حکومت کے زیر کنٹرول لیب سے ہوئی۔‘
انھوں نے فاکس نیوز کو بتایا کہ ’ایف بی آئی کافی عرصے سے اندازہ لگا رہی تھی اور اب اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وبائی مرض کی ابتدا ممکنہ طور پر لیب میں رونما ہونے والے واقعے کا نتیجہ ہے۔‘
یہ ایف بی آئی کے کلائسیفائیڈ فیصلے کی عوامی سطح پر پہلی تصدیق ہے کہ وبائی وائرس کیسے ابھرا۔
چین اس الزام کو ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے ووہان کے لیب میں لیک ہونے کی تردید کر چکا ہے۔
کرسٹوفر رے کا تبصرہ چین میں امریکی سفیر کی طرف سے آنے والے بیان کے ایک دن بعد آيا، جس میں امریکی سفیر نے چین سے کووڈ کی ابتدا کے بارے میں ’زیادہ ایماندار‘ ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
کرسٹوفر رے نے منگل کے روز انٹرویو میں کہا کہ چین عالمی وبائی مرض کے ماخذ کی نشاندہی کرنے کی کوششوں کو ’ناکام اور مبہم‘ کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ سب کے لیے بدقسمتی کی بات ہے۔‘
کچھ مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ کورونا وائرس کی چین کے شہر ووہان میں جانوروں سے انسانوں میں منتقلی ہوئی اور اس کا آغاز ممکنہ طور پر شہر میں موجود سمندری غذا اور جنگلی حیات کی منڈی سے ہوا۔
یہ مارکیٹ دنیا کی معروف وائرس لیبارٹری ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی سے صرف 40 منٹ کی مسافت پر ہے اور یہاں کورونا وائرس پر تحقیق ہو رہی تھی۔
امریکہ کی دیگر حکومتی ایجنسیوں نے ایف بی آئی کے تجزیے سے متعلق مختلف نتائج اخذ کیے ہیں اور ان کے نتائج میں رپورٹ پر اعتماد کی مختلف سطحیں ہیں۔
چینی حکومت نے ابھی تک کرسٹوفر رے کے تبصروں کا جواب نہیں دیا تاہم سوموار کے روز اس نے اس قسم کی میڈیا رپورٹس کو مسترد کر دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی محکمہ توانائی نے ’کم اعتماد‘ کے ساتھ اندازہ لگایا کہ کورونا وائرس لیب سے لیک ہوا۔ ایجنسی نے پہلے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں کوئی فیصلہ کن نتیجہ اخذ نہیں کر سکے کہ وائرس کیسے شروع ہوا۔
بیجنگ نے سنہ 2021 میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے آنے والی تحقیقات کی جانب بھی اشارہ کیا جس میں ’لیب لیک تھیوری‘ کو انتہائی ’غیر متوقع‘ کہا گیا تھا۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ ’بعض فریقین کو ’لیب سے لیک‘ ہونے والے بیانیے کو دوبارہ پیش کرنا بند کر دینا چاہیے، چین کو بدنام کرنا بند کرنا چاہیے اور اصل کا پتا لگانے کی سیاست کو بند کرنا چاہیے۔‘
اس بارے میں عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تحقیقات پر شدید تنقید کی گئی ہے اور اس کے ڈائریکٹر جنرل نے اس کے بعد سے ایک نئی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تمام مفروضے سامنے ہیں اور (اس ضمن میں) مزید مطالعے کی ضرورت ہے۔‘
سوموار کو وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اس بات کا پتا چلانے کے لیے ’حکومت کی پوری کوششوں‘ کی حمایت کرتے ہیں کہ کووِڈ کیسے شروع ہوا۔
لیکن انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ میں ابھی بھی واضح اتفاق رائے نہیں کہ کیا ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم ابھی تک وہاں نہیں پہنچے۔ اگر ہمارے پاس امریکی عوام اور کانگریس کو بتانے کے لیے کچھ ہے تو ہم وہ بتائيں گے۔‘
’سازشی تھیوری‘
اکتوبر سنہ 2021 میں امریکہ میں ایک اعلیٰ اہلکار کی جانب سے جاری کردہ ایک غیر کلائسیفائیڈ رپورٹ میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ چار امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے ’کم اعتماد‘ کے ساتھ اندازہ لگایا تھا کہ اس کی ابتدا کسی متاثرہ جانور یا اس سے متعلقہ وائرس سے ہوئی۔
چین میں اس کے متعلق ایک ’سازشی تھیوری‘ کو بھی ہوا دی گئی، جس میں کہا گیا کہ کورونا وائرس واشنگٹن ڈی سی کے شمال میں تقریباً 80 کلومیٹر (50 میل) شمال میں فریڈرک، میری لینڈ میں واقع فورٹ ڈیٹرک میں بنایا اور لیک کیا گیا۔
یہ پہلے امریکی حیاتیاتی ہتھیاروں کے پروگرام کا مرکز تھا لیکن اب فورٹ ڈیٹرک میں ایبولا اور چیچک وائرس سمیت دوسرے وائرس پر تحقیق کرنے والی بائیو میڈیکل لیبز ہیں۔