کراچی ٹیسٹ 1994 جب ہیلی نے سٹمپ کرنے کا موقع چھوڑا اور پاکستان ایک وکٹ سے میچ جیت گیا
دو اکتوبر 1994 کو پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ کے آخری دن نیشنل سٹیڈیم کراچی میں اس وقت مکمل سکوت طاری ہوگیا جب 314 رنز کے ہدف تک پہنچنے کے لیے پاکستان کو اب بھی 56 رنز درکار تھے لیکن اس کے ہاتھ صرف آخری وکٹ بچی تھی۔
عام شائقین ہی نہیں بلکہ پاکستانی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں بھی ایک عجیب سی خاموشی طاری تھی اور ہر کوئی یہی سوچ رہا تھا کہ نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ناقابل شکست رہنے کا طویل سلسلہ آج ختم ہونے والا ہے۔
بیٹسمین تم ہو یا میں؟
وقاریونس آؤٹ ہوکر پویلین لوٹے تو ان کی جگہ کریز پر جانے والے آخری بیٹسمین لیگ سپنر مشتاق احمد تھے۔
دوسرے اینڈ پر انضمام الحق تھے لیکن ٹیم کی حالت دیکھ کر وہ بھی پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھا رہے تھے کیونکہ ان کے سامنے شین وارن جیسے ورلڈ کلاس لیگ سپنر موجود تھا جو میچ میں آٹھ وکٹیں لے چکے تھا اور ان کی نظریں آخری وکٹ پر تھی جسے حاصل کر کے وہ آسٹریلیا کو یادگار فتح دلانے کے لیے بے تاب تھا۔
مشتاق احمد بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ستائیس سال پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں۔
‘ظاہر ہے اب صرف ایک گیند کی کہانی تھی۔ آخری وکٹ کسی بھی وقت گرتی اور ہم ہار جاتے۔ آخری دن شین وارن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ میں جب کریز پر گیا تو مجھےاندازہ تھا کہ میچ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ میں نےانضمام الحق پر سے دباؤ کم کرنے کی کوشش کے طور پر مذاقاً ان سے کہا ʹانضی ، شین وارن بہت اچھی بولنگ کررہا ہے لہذا مجھے اس کی بولنگ کھیلنے دو اور تم دوسرے بولرز کو کھیلو۔ʹ میری یہ بات سن کر انضمام نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ʹمستند بیٹسمین میں ہوں یا تم؟ʹ
مشتاق احمد کا کہنا ہے ʹخیر یہ مذاق اپنی جگہ ہماری پارٹنرشپ آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہی۔ ابتدا میں انضمام الحق نے مجھے بولنگ سے دور رکھا لیکن جب میں نے شین وارن کو دو چوکے مارے تو انہیں مجھ پر اعتماد آگیا۔ʹ
مشتاق احمد کہتے ہیں ʹشین وارن بہت ذہین بولر تھے۔ آخر میں انہوں نے فیلڈنگ آن سائیڈ سے ہٹا کر آف سائیڈ پر کردی اور انضمام الحق کو یہ تاثر دینے کی کوشش کہ آن سائیڈ خالی ہے لہٰذا آپ اس جانب کھیل سکتے ہیں۔ اس وقت میں اور انضمام الحق جذباتی ہوگئے تھے۔ ہم جیت کے لیے درکار تین رنز جلد سے جلد بنا کر میچ ختم کرنا چاہتے تھے۔ شین وارن کی وہ آخری گیند لیگ بریک تھی جس پر انضمام الحق نے دیکھا کہ لیگ سائیڈ پر کھلا ایریا ہے لہذا وہ سوچنے لگے کہ اگر میں آرام سے فلک کروں گا تو دو تین رنز بن جائیں گے اور چوکا بھی ہوسکتا ہے لیکن ُاس گیند پر انضمام الحق بیٹ ہوگئے۔ قسمت اچھی تھی کہ گیند ای این ہیلی کے گلوز میں بھی نہیں آئی اور بائی کے چوکے نے ہمیں ڈرامائی جیت سے ہمکنار کردیا۔ʹ
مشتاق احمد بتاتے ہیں ʹمیں نے اس اننگز میں 20 رنز بنائے تھے اور جب ہم اگلے روز دوسرے ٹیسٹ کے لیے راولپنڈی جارہے تھے تو میں نے بڑے فخر سے سعید انور اور انضمام الحق سے کہا کہ اب آپ اگلے میچوں میں میری بیٹنگ دیکھنا۔ مجھ میں بہت اعتماد آگیا ہے لیکن میں پنڈی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوگیا جس پر سعید انور اور انضمام الحق نے مجھ سے کہا کہ کہاں گیا تمہارا کانفیڈنس؟ میں نے سیدھا سا جواب دیا یہ کانفیڈنس نہیں بلکہ اوور کانفیڈنس تھا۔ʹ
کرکٹرز نےآخری گیند کے بارے میں کیا کہا؟
آسٹریلوی وکٹ کیپر ای این ہیلی کا کہنا ہے ʹشین وارن کی راؤنڈ دی وکٹ وہ خوبصورت گیند تھی جو انضمام الحق کے بیٹ اور پیڈ کے درمیان سے نکل گئی تھی میرے گلوز گیند کے ساتھ حرکت نہیں کرسکے اور جب وہ گیند آف سٹمپ پر ِمس ہوئی تو وہ میرے پیروں کے درمیان میں سے نکل گئی۔ʹ
راشد لطیف کہتے ہیںʹ گیند وکٹ کیپر کے بلائنڈ ایریا میں تھی اور نیچے رہ گئی تھی جس کی وجہ سے ای این ہیلی کے لیے سٹمپڈ کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ʹ
راشد لطیف کو اچھی طرح یاد ہے کہ آخری دو دن وکٹ ٹرن ہو رہی تھی اور شین وارن اور ٹم مے خطرناک ثابت ہو رہے تھے لیکن ہمارے لیے سب سے اہم لمحہ وہ تھا جب کپتان مارک ٹیلر نے نئی گیند لے لی جس کے بعد میں نے سٹیو وا اور جو اینجل کو چوکے لگائے تھے۔ʹ
واضح رہے کہ راشد لطیف نے بخار کی حالت میں بیٹنگ کرتے ہوئے اس اننگز میں قیمتی 35 رنز بنائے تھے اور آٹھویں وکٹ کے لیے انضمام الحق کے ساتھ 52 رنز کا اضافہ کیا تھا۔
راشد لطیف کا کہنا ہے ʹانضمام الحق نے شین وارن کو بڑے اعتماد سے ہینڈل کیا تھا۔ وہ زیادہ بات نہیں کر رہے تھے اور کھیل پر ان کی مکمل توجہ تھی۔ʹ
ناقابل شکست 58 رنز بنا کر پاکستان کو جیت دلانے والے انضمام الحق کہتے ہیں ʹ314 رنز کا ہدف آسان نہ تھا۔ ہمیں چند چھوٹی چھوٹی پارٹنرشپ کی ضرورت تھی لیکن یہ ہمارے لیے مشکل ہورہا تھا۔ شین وارن نے پورے میچ میں بڑی عمدہ بولنگ کی تھی خاص کر آخری دن جب گلین مک گرا اور ٹم مے فٹ نہیں تھے اور بولنگ کا سارا زور وارن نے اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے آخری گیند سے پہلے مڈ وکٹ ہٹا کر مجھے لالچ دیا کہ میں اس طرف کھیلنے کی کوشش کروں۔ میں نے باہر نکل کر وہی کھیلنا چاہا لیکن مس کرگیا۔ʹ
انگلینڈ کے شہرۂ آفاق امپائر ڈکی برڈ نے اس میچ میں پاکستان کے خضر حیات کے ساتھ امپائرنگ کی تھی۔ ڈکی برڈ کا کہنا ہے کہ یہ ان کے کریئر کا سب سے بہترین ٹیسٹ میچ تھا۔
یادگار جیت مشکوک کیوں بن گئی؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر کوئی اس ٹیسٹ کو دلچسپ اور یادگار کہتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اسے مشکوک نظروں سے بھی دیکھا جانے لگا؟
کراچی ٹیسٹ کے چوتھے دن کھیل ختم ہوا تو پاکستان نے تین وکٹوں پر 155 رنز بنائے تھے۔اسی شام ایک واقعہ بیان ہوا جس نے اس ٹیسٹ پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
شین وارن نے اپنی سوانح میں لکھا ہے ʹپاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سلیم ملک نے انہیں فون کرکے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت دی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد کہنے لگے آپ کو معلوم ہے کہ ہم یہ ٹیسٹ میچ نہیں ہار سکتے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے پیشکش کی کہ میں اور ٹم مے آخری دن خراب بولنگ کریں تو وہ آدھے گھنٹے میں ہم دونوں کے لیے دو لاکھ ڈالرز کا انتظام کرسکتے ہیں۔ʹ
شین وارن کہتے ہیں ʹمیں اس پیشکش پر ہکا بکا رہ گیا اور اس کا ذکر ٹم مے سے بھی کیا وہ بھی اس بات پر غصے میں آگئے تھے۔ بدقسمتی سے ہم وہ ٹیسٹ میچ ہارگئے تھے۔ میں مین آدی میچ رہا تھا۔ جب میں اپنا ایوارڈ وصول کرنے جا رہا تھا تو سلیم ملک نے مجھ سے کہا کہ مجھے یہ رقم لے لینی چاہیے تھی۔ʹ
آسٹریلوی کرکٹرز نے سلیم ملک کی جانب سے مبینہ پیشکش کی بات چھ ماہ تک دنیا سے چھپا رکھی یا اگر انہوں نے اپنے کرکٹ بورڈ کو یہ بتایا تھا تو آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے بھی اسے دنیا پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس بارے میں اکتوبر1995 میں جسٹس فخرالدین جی ابراہیم پر مشتمل انکوائری کمیٹی قائم کی جس نے آسٹریلوی کرکٹرز کے اس کے سامنے پیش نہ ہونے اور تمام واقعات اور حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد سلیم ملک کو تمام الزامات سے بری کردیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیف ایگزیکٹیو عارف علی خان عباسی کی کتاب ʹناٹ اے جنٹلمینز گیمʹ میں اس بارے میں تفصیل سے ذکر موجود ہے کہ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ کئی ماہ تک اس بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ سے کوئی بھی بات باضابطہ طور پر کرنے سے گریز کرتا رہا یہان تک کہ اس نے اپنے کرکٹرز کو کمیٹی کے سامنے پیش کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔
ایک اور اہم بات یہ کہ آسٹریلوی کرکٹرز نے سلیم ملک کی جانب سے مبینہ پیشکش کے بارے میں اپنے منیجر اور کرکٹ بورڈ کو بھی بروقت رپورٹ نہیں کی تھی اور نہ ہی آئی سی سی کے میچ ریفری کو اس بارے میں اعتماد میں لیا تھا۔
اس صورتحال کا اہم موڑ اس وقت آیا جب حکومت پاکستان نے 1998 میں جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل عدالتی کمیشن تشکیل دیا جس نے سلیم ملک پر میچ فکسنگ کی پاداش میں تاحیات پابندی کی تجویز پیش کردی۔
شین وارن اور مارک وا اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھے جاتے ہیں کہ ایک بک میکر جان کو کھیل سے متعلق معلومات کی فراہمی کی پاداش میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے ان پر معمولی نوعیت کے جرمانے عائد کرکے جان چھڑالی تھی۔