کارونجھر سندھ کے ’مقدس‘ پہاڑی سلسلے

کارونجھر سندھ کے ’مقدس‘ پہاڑی سلسلے

کارونجھر سندھ کے ’مقدس‘ پہاڑی سلسلے سے قیمتی پتھر نکالنے کے معاملے پر کیا تنازع ہے؟

پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے صحرائی ضلع تھر میں کارونجھر کے پہاڑی سلسلے سے سرخ گرینائیٹ پتھر نکالنے کی نیلامی کا عمل منسوخ کر دیا ہے۔

صوبائی وزیر اطاعات شرجیل انعام میمن نے پیر کو سندھ اسمبلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گرینائیٹ کی نیلامی منسوخ کی گئی ہے کیونکہ جو منصوبے عوام کی امنگوں کے خلاف ہوں گے یا جن سے عوام متاثر ہوں گے، ان کی حمایت نہیں کی جائے گی۔

صوبائی وزیر معدنیات میر شبیر بجارانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے قائم وزارتی کمیٹی کو اس ضمن میں سفارشات پیش کی گئی تھیں جن کو جلد ہی صوبائی کابینہ میں پیش کیا جائے گا، جس کے بعد کابینہ ہی کوئی فیصلہ کرے گی۔

واضح رہے کہ گذشتہ اتوار کو متعدد اخبارات میں ضلع تھرپارکر کے علاقے ننگرپارکر میں 2700 ایکڑ پر محیط پہاڑی علاقے سے سرخ گرینائیٹ پتھر نکالنے کی نیلامی کے اشتہارات شائع ہوئے تھے، جس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔

ننگر پارکر، کراچی سے تقریباً پونے پانچ سو کلومیٹر دور واقع قدیمی شہر ہے اور کارونجھر کے پہاڑی سلسلے نے اس شہر کو جیسے گود میں لے رکھا ہے۔

عدالتی فیصلے کے باوجود نیلامی کا اشتہار

تصویر
اس علاقے میں کئی مذہبی مقامات بھی موجود ہیں

کارونجھر کے پہاڑی سلسلے سے گرینائیٹ کا حصول کئی سال سے جاری ہے، جس کے خلاف دسمبر 2021 میں عدالت فیصلہ دے چکی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے نیلامی کا اعلان کیا گیا۔

عدالت نے اپنے گذشتہ فیصلے میں ایک نجی کمپنی اور فوج کے ذیلی ادارے ’ایف ڈبلیو او‘ کے اس علاقے سے گرینائیٹ نکالنے پر پابندی عائد کی تھی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’اس تباہ کن فعل پر آنکھیں بند کر کے ننگرپارکر کے مکینوں کو خاموش اور بنیادی حقوق سے محروم کر کے ظالموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’یہ صرف پہاڑ نہیں۔ یہ پہاڑی سلسلہ ایک ہی وقت میں سیاحت، ثقافت، ورثے، مذہبی لگاؤ، آبپاشی، زراعت، دفاع، معاش، تحفظِ جنگلی زندگی، ہریالی سے بھرا جنگل اور بہت کچھ ہے۔ پہاڑ کو کاٹنے کا مطلب ننگرپارکر کے لوگوں کی زندگی کے تمام ذرائع کو ختم کرنا ہے۔‘

مقامی افراد کا مطالبہ ہے کہ کارونجھر پہاڑوں سے پتھروں کی کٹائی بند کی جائے اور حکومت اس حوالے سے تمام لیز منسوخ کر دے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے عدالت کے واضح احکامات موجود ہیں کہ ان پہاڑوں کی کٹائی روک دی جائے مگر اس حکم کے باوجود وہاں کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔

ڈپٹی کمشنر تھرپارکر نے بھی گرینائیٹ کی نیلامی کی مخالفت کی اور ڈی جی معدنیات کو خط لکھ کر بتایا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں محکمہ جنگلی حیات نے درخواست دائر کی تھی کہ گرینائیٹ، چائنا کلے، ریتی بجری کی لیز وائلڈ لائف سے بھرپور علاقے میں غیر قانونی طور پر جاری ہیں یہ اقدام سندھ وائلڈ لائف ایکٹ کی سیکشن 9-13 کی خلاف ورزی ہے۔

ڈی سی تھر نے ڈپٹی کنزرویٹر کو ہدایت کی کہ عوامی مفاد میں وہ محکمہ معدنیات کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ درج کرائیں۔

ڈی سی نے اپنے خط میں کارونجھر کی اہمیت بتاتے ہوئے تحریر کیا کہ جین مت کے بھگوان مہاویر کے مندر کی باقیات بھی صرف یہاں ہی پائی جاتی ہیں، اگر محکمہ معدنیات یہاں سے گرنائیٹ نکالنے کی اجازت دیتا ہے تو اس کو مقامی ثقافت پر کاری ضرب سمجھا جائے گا۔

حکومت میں اختلاف

کارونجھر
ننگر پارکر، کراچی سے تقریباً پونے پانچ سو کلومیٹر دور واقع قدیمی شہر ہے اور کارونجھر کے پہاڑی سلسلے نے اس شہر کو جیسے گود میں لے رکھا ہے

گرینائیٹ کی نیلامی میں صوبائی حکومت کے اندر بھی اختلاف رائے نظر آیا۔ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی سریندر ولاسائی نے وزیر معدنیات کو خط لکھ کر اس اشتہار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کارونجھر سے نباتات اور حیوانات کے ساتھ روحانی رشتہ ہے۔ ’سیاسی ورکر، سوشل ورکر اور عام لوگ مشترکہ طور پر اس نیلامی کے خلاف ہیں اور وہ بھی اس کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

تھر سے ہی وزیر اعلیٰ کے ایک اور معاون خصوصی ارباب لطف اللہ نے بھی صوبائی وزیر کو خط لکھ کر یاد دہانی کروائی کہ کارونجھر صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ تاریخ ہے، جس کی جغرافیائی حیثیت اور اہمیت ہے۔ یہ نہ سیاحوں کے لیے قابل کشش ہے بلکہ یہاں کئی عقیدے کے لوگوں کے مقدس مقامات بھی موجود ہیں لہذا اس کی روحانی اہمیت بھی ہے۔

ان کے مطابق اس کی خوبصورتی اور ورثے کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

کارونجھر کی تاریخی اہمیت

کارونجھر اور اس کے آس پاس کے علاقے کو ’جنگلی حیات کی جنت‘ قرار دیا جاتا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ اراضی لگ بھگ 8300 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ اس میں سمندر اور زمینی رقبہ شامل ہیں۔

اس علاقے میں کئی قدرتی جھیلیں اور تالاب ہیں جہاں نایاب پرندے آتے ہیں۔ بین الاقوامی کنوینشن رامسر کے تحت بھی اس علاقے کو تحفظ حاصل ہے۔

ڈپٹی کمشنر کے مطابق کارونجھر رینج کو سنہ 1833 سے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

اس پہاڑی سلسلے میں ہندو مذہب کے کئی آستھان یعنی مقدس مقامات بھی موجود ہیں۔ اس پہاڑی سلسلے کے درمیان میں واقع مقام کو ’سادہڑو گام‘ کہا جاتا ہے، جہاں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مرنے والوں کی باقیات جلاتے ہیں۔

یہاں ہر سال میلہ بھی لگتا ہے۔ انڈین گجرات کی سرحد کے قریب اس سرخ پہاڑ میں چامونڈکا ماتا کا ایک مندر اس طرف پاکستان اور دوسرا مندر انڈیا میں ہے۔

ننگرپارکر پہاڑ سے شہد اور جڑی بوٹیوں سمیت لکڑیاں بھی حاصل کی جاتیں ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ ’کارونجھر روزانہ سوا سیر سونا پیدا کرتا ہے۔‘

ننگرپارکر شہر اور اس کے آس پاس میں جین دھرم کے قدیم مندر بھی واقع ہیں جو بارہویں صدی میں قائم کیے گئے تھے اور اب ان مندروں کی مرمت کر کے بحال کیا گیا ہے۔

یہاں بھوڈیسر تالاب کے قریب ایک قدیم مسجد بھی واقع ہے۔ مختلف روایات کے مطابق یہ مسجد گجرات میں مسلم حکمران نے تعمیر کی اور بعض مؤرخین اس کو دلی کے حکمرانوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔

کارونجھر ایک دیو مالائی کردار رکھتا ہے۔ یہاں روپلو کولھی، جس نے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی، کا کردار موجود ہے تو اپنے شوہر سے محبت میں ستی ہو جانے والی رانی بھٹیانی کی کہانی بھی موجود ہے۔ ھوتھل پری کی خوبصورتی کی داستان بھی یہاں ملتی ہے۔

منگھام رام کی کتاب پرانو پارکر سمیت بعض روایات کے مطابق مہا بھارت میں جب کوروں نے پانڈوں کو 13 سال کے لیے جلاوطن کیا تھا تو پانچ پانڈے اس پہاڑ پر آ کر بس گئے تھے ان کے نام سے پانی کے تالاب موجود ہیں۔

کارونجھر

’سیو کارونجھر‘ کا ٹرینڈ

گرینائیٹ نکالنے کی نیلامی کے اشتہار کے ساتھ ہی اتوار سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر اور فیس بک پر کارونجھر زیر بحث رہا اور ایک بار پھر ’سیو کارونجھر‘ (کارونجھر کو بچاؤ) کے نام سے ٹرینڈ چلا، جس میں سندھ کے نوجوانوں کے علاوہ موسیقار، ادیبوں، شاعروں اور سیاسی کارکنوں نے بھی شرکت کی۔

نوجوان گلوکار سیف سمیجو نے لکھا کہ کارونجھر پہاڑ کو تحفظ دینے کے لیے اس کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جائے تاکہ اس کی ثقافت، ماحولیاتی نظام اور طرز زندگی کو محفوظ رکھا جا سکے۔

ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے وفاقی وزیر شیری رحمان اور پاکستان پیپلز پارٹی کو مخاطب کر کے کہا کہ ’پاکستان میں جس سب سے خوبصورت جگہ کا انھوں نے کبھی دورہ کیا، وہ کارونجھر ہے۔‘

’اسے کسی دکان یا جائیداد کے ٹکڑے کی طرح نیلام کرنا جرم ہے۔ کیا یہ وہی سبز نیا پاکستان ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا؟ کارونجھر کو بچائیں۔‘

علی رند لکھتے ہیں کہ کیا بلاول بھٹو نہیں جانتے کہ کارونجھر سے گرینائٹ نکالنا اور کھدائی پورے تھر کو تباہ کر دے گی اور آنے والی نسلوں پر اس کا اثر بہت زیادہ ہو گا۔

دادلو سائیں لکھتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدانوں کا دہرا معیار دیکھنا شرمناک ہے۔ ’وہ عالمی پلیٹ فارمز پر ماحولیات کے انصاف کی وکالت کرتے ہیں اور کرہ ارض کو بچانے کی بات کرتے ہیں لیکن گھر میں وہ ماحولیاتی تباہی سے آنکھیں چراتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *