ڈینیئل پرل قتل کیس سپریم کورٹ کا احمد عمر شیخ سمیت زیر حراست افراد کو سرکاری ریسٹ ہاؤس منتقل کرنے اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں زیرِ حراست افراد کو فوری طور پر ڈیتھ سیل (سزائے موت کے قید خانے) سے نکال کر جیل کی عام بیرک میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ان زیرِ حراست افراد کو اگلے دو روز میں جیل کی عام بیرک سے کسی سرکاری ریسٹ ہاؤس میں رکھا جائے جہاں پر ان کے اہلخانہ بھی ان کے ہمراہ صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک رہ سکیں گے۔ زیر حراست افراد ان دنوں کراچی کی جیل میں قید ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے کے مطابق جس سرکاری ریسٹ ہاؤس میں زیر حراست افراد کو رکھا جائے گا وہاں پر سکیورٹی سخت کی جائے اور زیر حراست افراد کو ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیں فراہم نہ کی جائیں۔
منگل کے روز یہ حکم جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے دیا ہے۔
ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ملزمان کو سندھ ہائی کورٹ نے ’ناکافی شواہد پر‘ رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن سندھ حکومت نے انھیں ’نقصِ امن‘ کی بنا پر حراست میں رکھا ہوا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے حکومت سندھ کے اس اقدام کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان افراد کو رہا کرنے کے احکامات جاری کیے جن کے خلاف سندھ حکومت اور وفاق نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔
ان اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں کہا ہے کہ اس مقدمے میں زیر حراست افراد کے اہلخانہ کی رہائش اور ان کو لانے اور لے جانے کے اخراجات بھی سرکاری خزانے سے ادا کیے جائیں گے۔
امریکی صحافی ڈینیئل پرل سنہ 2002 میں کراچی میں اغوا کے بعد قتل کر دیے گئے تھے اور اُسی برس انسداد دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کو سزائے موت سنائی تھی۔ لیکن اس کے 18 برس بعد دو اپریل 2020 کو سندھ ہائی کورٹ نے ان کی سزائے موت ختم کرتے ہوئے انھیں اغوا کے جرم میں سات برس قید کی سزا سے بدل دیا تھا جبکہ دیگر تین ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔
28 جنوری 2021 کو سپریم کورٹ نے ملزمان کی رہائی کے فیصلے میں کہا تھا کہ اگر زیر حراست افراد کسی اور مقدمے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلوب نہیں ہیں تو انھیں فوری رہا کیا جائے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے صوبائی حکومت کے ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں بری ہونے والے افراد کو زیر حراست رکھنے کے اقدام کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سندھ حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احمد عمر شیخ ’کوئی معمولی مجرم نہیں بلکہ وہ ڈینیئل پرل کے سارے واقعے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ڈینیئل پرل کے قتل کے ملزمان نے ’پورے پاکستان کو دہشت زدہ کیا۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اور سندھ حکومت کو ایسے دہشت گردوں کی رہائی پر تشویش ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2014 میں ہونے والے آرمی پبلک سکول کے واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایسے دہشت گردوں سے پورے ملک کے عوام کو خطرہ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’مچھ جیسے واقعات بھی دنیا میں کہیں بھی رونما نہیں ہوتے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ احمد عمر سعید شیخ کے شدت پسندوں کے ساتھ تعلقات ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’احمد عمر شیخ کا دہشتگردوں کے ساتھ تعلق ثابت کریں۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’جن واقعات کا وہ حوالہ دے رہے ہیں ان کا ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں زیر حراست افراد کا کیا تعلق ہے کیونکہ وہ تو گذشتہ 18 سال سے جیل میں ہیں۔‘
بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا احمد عمر سعید شیخ کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کی کارروائی ہوئی کیونکہ ڈینیئل پرل کے مقدمے میں تو انھیں اغوا کے مقدمے میں سزا سنائی گئی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’ریاست سمجھتی تھی احمد عمر کے خلاف ڈینیئل پرل قتل مضبوط کیس ہے۔‘
بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کل تک آپ کا اعتراض تھا کہ ہائیکورٹ نے وفاق کو نہیں سنا اور آج آپ کے دلائل سے لگ رہا ہے نوٹس نہ کرنے والا اعتراض ختم ہو چکا ہے‘ جس پر خالد جاوید نے جواب دیا کہ ان کا ’اصل اعتراض نوٹس والا ہی ہے۔‘
عدالت کے استفسار پر سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہائیکورٹ میں وفاقی حکومت کی نمائندگی نہیں تھی۔
جسٹس منیب اختر نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ ’کیا سندھ حکومت نے ہائی کورٹ میں وفاق کو نوٹس نہ ہونے پر اعتراض کیا تھا؟‘ جس پر ایڈووکیٹ سندھ کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ میں وفاق کی نمائندگی نہ ہونے کا اعتراض نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت وفاقی حکومت کو اس کے اختیار سے محروم نہیں کر سکتی جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کسی اختیار کو استعمال کرنے کے لیے مواد بھی ہونا چاہیے۔
اُنھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے پاس ملزمان کو حراست میں رکھنے کا جواز نہیں تھا۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاق کے پاس مواد ہو سکتا ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وفاق نے وہ مواد صوبے کو فراہم کیوں نہ کیا۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ’وفاق دکھا دے ان لوگوں کے خلاف اس کے پاس کیا مواد ہے؟‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہر مقدمے کی ایک تاریخ ہوتی ہے اور اس مقدمے کی تاریخ کا ہمیں نہیں معلوم۔
اُنھوں نے کہا کہ کسی کو حراست میں رکھنے کا مطلب ہے ’نو ٹرائل۔‘
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ لگتا ہے اٹارنی جنرل نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلہ کی وجوہات نہیں پڑھیں۔ اُنھوں نے کہا کہ بدنیتی یہ تھی کہ بار بار حراست میں رکھنے کے احکامات جاری ہوئے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بظاہر ان ملزمان کو حراست میں رکھنے کا معاملہ صوبائی ہے اور اٹارنی جنرل کو اس لیے نوٹس نہیں کیا گیا ہو گا کیونکہ درحواست گزاروں نے اس میں وفاق کو فریق نہیں بنایا ہو گا۔
سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل نے سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اس بارے میں کوئی حکم امتناع چاہتے ہیں تو اس پر دلائل دیں لیکن ایڈووکیٹ جنرل نے ایسا نہیں کیا۔
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمے میں سندھ پولیس سے بھی ریکارڈ حاصل کر رہے ہیں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ایف ائی آ ر کے علاوہ پولیس سے کیا ملے گا۔
اعلیٰ عدالت نے ان اپیلوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی ہیں۔