علامہ اقبال کا مجسمہ ’مجسمہ بناتے ہوئے ہاتھوں

علامہ اقبال کا مجسمہ ’مجسمہ بناتے ہوئے ہاتھوں

علامہ اقبال کا مجسمہ ’مجسمہ بناتے ہوئے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے، اب اپنے ہاتھوں سے اسے توڑیں گے‘

’یہ مجسمہ ہم نے بڑی محنت سے بنایا تھا۔ ہمارے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے تھے۔ اب یہی مجسمہ ہمیں اپنے ہاتھوں سے توڑنا ہے۔ ہم مالیوں کو اس کا بہت زیادہ دُکھ ہے۔ یقین مانیے ہمارا دل رو رہا ہے۔‘

یہ کہنا ہے کہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے ’گلشنِ اقبال پارک‘ میں علامہ اقبال کا مجسمہ بنانے والے ایک مالی کا جو اس پارک کے ان 15 مالیوں میں شامل تھے جنھوں نے یہ مجسمہ بنایا تھا۔

پاکستان میں ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کا مجسمہ اس وقت زیر بحث آیا جب ایک صارف نے اس مجسمے سے متعلق اپنا تبصرہ پیش آیا کہ ’اس مجسمے میں کوئی برائی نہیں سوائے اس کے کہ یہ بالکل اقبال جیسا نہیں دکھتا۔‘

بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ نصب کیا گیا یہ مجسمہ کسی طرف سے بھی علامہ محمد اقبال کی ان تصاویر سے مشابہت نہیں رکھتا جو وہ بچپن سے دیکھتے آئے ہیں جبکہ بعض صارفین نے تو اس مجسمے سے ملتے جلتے چہروں کو ڈھونڈنا شروع کر دیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ مجسمہ آخر ہے کس کا۔

س مجسمے کو بنانے والے مالیوں میں سے ایک نے بی بی سی کو نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا ہے گلشن اقبال پارک میں علامہ اقبال کے مجسمے کو بنانے میں تقریباً 15 مالی شامل تھے۔

انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب زیر بحث آیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس مجسمے کو آٹھ، نو ماہ قبل کنکریٹ، بجری، سیمنٹ، ریت اور سریے سے ’دن، رات ایک کر کے بڑی محنت سے بنایا گیا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایک اعلیٰ افسر نے مالیوں سے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ پارک کا نام ’گلشن اقبال‘ ہے تو ادھر علامہ اقبال کا ایک مجسمہ ضرور ہونا چاہیے۔ ’افسر کی اسی بات کے بعد ہم نے خود سے اس کی تیاری شروع کی تھی۔‘

’وہ افسر ہمیں علامہ اقبال کی تصویر دکھاتا تھا اور ہم مجسمہ بناتے جاتے تھے۔۔۔ اس کام کے دوران یا بعد میں بھی کبھی کسی شخص نے بھی ہمیں نہیں کہا کہ یہ علامہ اقبال جیسا نہیں دکھتا۔‘

انھوں نے کہا کہ میڈیا پر ہنگامہ برپا ہونے کے بعد آج مالیوں کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ رات کو پارک ہی میں رکیں اور اس مجسمے کو ہٹا دیں۔ ’فی الحال ہمیں اس مجسمے کے گرد لگی باڑ کو توڑنے اور مجسمے کو کپڑے سے ڈھانپنے کا کہا گیا ہے۔‘ تاہم پی ایچ اے کی جانب سے فی الحال مجسمے کو ہٹانے یا گرانے کی بابت کوئی باقاعدہ اعلان ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔

اپنی محنت کو رائیگاں جاتے دیکھ کر انھوں نے افسوس سے کہا کہ ’میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ منگل کی صبح حکام نے مالیوں کو حکم دیا کہ اس کے گرد جنگلا توڑ دیا جائے اور میڈیا کے آنے پر اس پر کپڑے ڈھانپ دیئے جائیں۔‘

یہ مجسمہ کس کا ہے

جب لیلیٰ طارق نامی صارف نے یہ لکھا کہ ’یہ ہے گلشن اقبال لاہور میں اقبال کا مجسمہ۔ اس مجسمے میں کوئی برائی نہیں سوائے اس کے کہ یہ بالکل اقبال جیسا نہیں دکھتا‘ تو اس ٹویٹ کے جواب میں سینکڑوں افراد نے ردعمل دیتے ہوئے ان کی رائے سے اتفاق کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *