ڈیرک چاؤن کیس جارج فلائیڈ کی نئی ویڈیو جس میں وہ پولیس افسران سے التجا کر رہے ہیں
امریکی ریاست مینسوٹا کے شہر میناپولس کی عدالت میں سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کی ایک نئی باڈی کیم ویڈیو دکھائی گئی ہے جس میں جارج اپنی گرفتاری کے موقع پر پولیس سے التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘میں برا آدمی نہیں ہوں۔’
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس افسر ڈیرک چاؤن نے 46 سالہ سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی گردن پر نو منٹ سے زیادہ دیر تک اپنا گھٹنا رکھا اور جارج فلائیڈ ان سے التجا کرتے ہیں کہ انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔
چاؤن کی عمر 45 برس ہے اور اس واقعے کے بعد انھیں پولیس فورس سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم انھوں نے منصوبہ بندی کے تحت قتل کے الزامات سے انکار کیا ہے۔
سنہ 2020 میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد پولیس کے طریقہ کار اور نسل پرستی کے خلاف عالمی سطح پر مظاہروں کا آغاز ہوا تھا۔
اس مقدمے میں وکیل صفائی نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ 46 سالہ جارج کی موت کے حوالے سے یہ دلائل دیں گے کہ ان کی موت زیادہ نشہ کرنے اور خراب صحت کی وجہ سے ہوئی اور ان پر طاقت کا استعمال درست تھا۔
مقدمے کی سماعت کے تیسرے روز مبصرین نے کہا کہ استغاثہ کی جانب سے گرفتاری سے قبل اور اس دوران جارج کی حرکات و سکنات کی ویڈیو دکھانے کا مقصد یہ کوشش ہو سکتی ہے کہ منشیات کے استعمال نے ان کی موت میں ایک کردار ادا کیا۔
باڈی کیم فلم میں کیا دیکھا جا سکتا ہے؟
عدالت کو ان باڈی کیمروں سے بنی ویڈیو دکھائی گئی ہے جو پولیس افسران تھومس لین، جے الیگزینڈر کوئنگ اور تو تھاؤ کے لباس پر لگے ہوئے تھے۔
چاؤن کا کیمرہ جارج کی گرفتاری کے دوران زمین پر گر گیا تھا اس لیے اس میں واقعے کی ویڈیو فوٹیج کی ریکارڈنگ نہیں ہوئی۔
تھومس لین کے کیمرے سے موصول ہونے والی ویڈیو میں فلائیڈ کو پولیس کے کیمرے کے سامنے دیکھا گیا، وہ ان سے التجا کرتے ہیں ‘پلیز مجھے گولی مت مارو۔۔۔ میں نے ابھی اپنی ماں کو کھویا ہے۔’
فلائیڈ کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہے اور وہ پولیس افسران لین اور کوئنگ سے منت سماجت جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ان کے سامنے مزاحمت نہیں کر رہے اور ‘آپ جو کچھ بھی مجھے کرنے کو کہیں گے میں کروں گا۔’
ان کے درمیان ہاتھا پائی اس وقت ہوئی جب پولیس فلائیڈ کو گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور پھر جارج رونا شروع کر دیتے ہیں اور مزاحمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’کلاسٹرو فوبک ہوں ( ایسا شخص جسے بند جگہوں میں گھٹن ہونے لگے) اور مجھے بے چینی ہوتی ہے‘۔
گرفتاری کے عمل کے دوران پولیس اہلکار چاؤن اور ان کے ساتھی تھاؤ بھی آتے ہیں اور جیسے ہی پولیس افسران انھیں گاڑی سے باہر گھسیٹ کر زمین پر لیٹاتے ہیں اس وقت جارج فلائیڈ کو سنا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی والدہ کو پکار رہے ہیں اور اپنے خاندان کے لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں۔
اردگرد کھڑے لوگوں کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ جارج فلائیلا کی نبض چیک کیجیے اور ان کی گردن دبانا چھوڑ دیں۔
بدھ کو گواہوں نے کیا کہا؟
کرسٹوفر مارٹن کی عمر 19 برس ہے اور وہ ایک دکان میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اپنی گرفتاری سے کچھ ہی دیر پہلے جارج نے بطور گاہک ان سے ’کپ فوڈز‘ نامی سٹور میں تھوڑی سے بات کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جارج نشے میں لگ رہے تھے‘ کیونکہ انھیں ایک سادہ سے سوال کا جواب دینے میں مشکل پیش آ رہی تھی، مگر وہ سمجھ بوجھ رکھتے تھے اور اس قابل تھے کہ بات چیت کر سکیں۔
کرسٹوفر مارٹن نے جارج کے حوالے سے کہا کہ وہ ‘دوستانہ اور خوش مزاج’ تھے۔
دکان کی نگرانی کے لیے لگے کیمروں کی ویڈیو میں فلائیڈ کو ہنستے ہوئے، لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے اور ادھر ادھر چلتے پھرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
مارٹن نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے جارج کو سگریٹ کا پیکٹ بیچا تھا اور پھر بل کی ادائیگی کے لیے انھیں ایک جعلی نوٹ دیا گیا۔
مارٹن نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ نوٹ اپنی ساخت اور رنگ کے باعث انھیں نقلی نوٹ لگا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ بظاہر لگتا تھا کہ ’فلائیڈ کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جعلی نوٹ تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے سوچا کہ جارج فلائیڈ کے ساتھ بحث کے بجائے سگریٹ کے پیکٹ کا معاوضہ وہ دکان میں اپنی اجرت میں سے کٹوا لیں گے۔ لیکن پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ منیجر کو بتائیں۔ وہاں کام کرنے والا ایک دوسرا شخص پولیس کو فون کرنے چلا گیا۔
مارٹن نے جارج کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ انھیں ’بے یقینی اور احساس جرم ‘ ہے کیونکہ ’اگر میں بِل نہ لیتا تو اس سب سے بچا جا سکتا تھا۔’
چارلس میکمیلن کا کہنا ہے کہ انھیں یاد ہے کہ یہ منظر دیکھتے ہوئے وہ خود کو ‘بے یاردو مددگار’ محسوس کر رہے تھے۔
ویڈیو میں ان کی آواز سنائی دیتی ہے جب وہ چاؤن کو کہتے ہیں ‘تمھارا گھٹنا اس کی گردن پر ہے، یہ غلط ہے۔’
جیسے ہی عدالت میں گرفتاری کی فوٹیج دکھائی گئی۔ میکمیلن نے سسکی لی اور ججز نے تھوڑی دیر کے لیے وقفہ لینے کو کہا۔
اب تک مقدمے میں اور کیا ہوا ہے؟
پیر کو اپنے ابتدائی بیان میں پراسیکیوٹر جیری بلیک ویل نے ججز کو بتایا کہ چاؤن نے جارج فلائیڈ کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ کر اور اس کی گرفتاری کے لیے ‘بہت زیادہ اور بلاجواز طاقت کا’ استعمال کر کے فرض شناسی میں کوتاہی برتی ہے۔
چاؤن کے وکیل ایرن نیلسن نے اس موقع پر کہا کہ یہ کیس شواہد سے متعلق ہے نہ کہ ‘سیاسی اور سماجی مقصد’ کے بارے میں۔
ان کا کہنا تھا کہ فلائیڈ نے اپنی گرفتاری کے وقت پولیس سے چھپانے کی کوشش میں منشیات نگل لی تھیں اور اس عمل نے ان کی موت میں کردار ادا کیا تھا۔
منگل کو چار گواہ عدالت میں پش ہوئے ان میں وہ نوجوان لڑکی ڈارنیلا بھی تھیں جن کی جارج کی ہلاکت کے دوران بنائی جانے والی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد عالمی سطح پر اس واقعے کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکنے پر معافی مانگتی ہیں۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے اپنے فون پر ویڈیو بنانی شروع کر دی کیونکہ انھوں نے ‘ایک خوفزدہ انسان دیکھا، جو زندگی کی بھیک مانگ رہا ہے۔’
انھوں نے کہا ‘وہ ٹھیک نہیں تھا- وہ تکلیف میں تھا۔’
ایک عینی شاہد ڈونلڈ ولیمز ٹو کو جو کہ مکسڈ مارشل آرٹس کی تربیت حاصل کر چکے ہیں، پیر اور منگل کو ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک استغاثہ اور دفاع کے وکلا کی جانب سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ چاؤن نے ایک خطرناک تکنیک کا استعمال کیا جسے ’بلڈ چوک’ کہتے ہیں اور وہ اپنے گھٹنے کو جارج کی پشت اور گردن پر آگے پیچھے کر کے دباؤ ڈال رہے تھے۔
انھوں نے وکیل صفائی کی تجاویز کو مسترد کیا کہ ان کی اور قریب کھڑے دیگر لوگوں کی پولیس سے بات چیت وہاں موجود افسران کے لیے خطرے کا باعث تھی۔
جارج کی گرفتاری کے وقت میناپولس میں آگ بجھانے اور ایمرجنسی کی صورت میں ٹیکنیشن کے فرائص سرانجام دینے والی جینیویو ہانسن ڈیوٹی سے چھٹی کر چکی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ جارج فلائیڈ کی مدد کے لیے بیتاب تھیں لیکن افسران نے انھیں ایسا نہیں کرنے دیا۔
ڈیرک چاؤن باقی وقت خاموش رہے لیکن وہ سماعت کے دوران شواہد کو سنتے ہوئے پیلے رنگ کے رائٹنگ پیڈ پر مسلسل نوٹس لیتے رہے۔
یہ کیس اتنا اہم کیوں ہے؟
گذشتہ مئی سامنے آنے والی اس ویڈیو کو جس میں ڈیرک چاؤن گھٹنوں کے بل بیٹھے ہیں اور جارج کی گردن کو دبا رہے ہیں،دنیا بھر میں دیکھا گیا تھا۔
بہت سے لوگوں کے لیے جارج کی پولیس کی حراست میں ہونے والی موت پولیس کی جانب سے کی جانے والی بربریت کی علامت بن گئی، خاص طور پر کسی کے رنگ کی بنیاد پر اور اس نے نسلی سطح پر انصاف کے لیے بڑی تعداد میں مظاہروں کو جنم دیا۔
لیکن عوامی سطح پر مظاہروں کے باوجود یہ کوئی آسان کیس نہیں ہے۔ کیونکہ اگر امریکی پولیس پر دوران ڈیوٹی کسی زیر حراست شخص کی موت کے حوالے سے کوئی الزام عائد ہو بھی تو ایسے میں کم ہی کسی پر فرد جرم عائد کی جاتی ہے۔
اس کیس کے فیصلے کو بڑے پیمانے پر بطور مثال دیکھا جائے گا کہ کس طرح امریکہ کا قانونی نظام پولیس کی حراست میں ہونے والی اموات کو دیکھتا ہے