پاکستان میں فٹبال تنازع اور خواتین فٹبالرز کی مایوسی فیفا

پاکستان میں فٹبال تنازع اور خواتین فٹبالرز کی مایوسی فیفا

پاکستان میں فٹبال تنازع اور خواتین فٹبالرز کی مایوسی فیفا کی ڈیڈلائن ختم، اب کیا ہو گا؟

فٹبال کے بین الاقوامی نگراں ادارے فیفا کی جانب سے ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد پاکستان کی رکنیت معطل کیے جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

یاد رہے کہ فیفا نے پاکستانی فٹبال میں گذشتہ دنوں پیدا ہونے والے تنازع کے بعد پاکستان فٹبال ہیڈ کوارٹر پر ’قبضہ‘ ختم کرنے کے لیے 31 مارچ کو آٹھ بجے شب کی ڈیڈلائن دی تھی اور یہ واضح کر دیا تھا کہ اگر اسے خالی کر کے فیفا کی مقرر کردہ نارملائزیشن کمیٹی کے حوالے نہ کیا گیا تو پھر فیفا کے قواعد و ضوابط کے تحت اس معاملے کو دیکھا جائے گا جس میں رکنیت کی معطلی قابل ذکر ہے۔

معطلی کا خطرہ بڑھنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان فٹبال ہیڈکوارٹر کا کنٹرول سنبھالنے والے گروپ نے اسے خالی کرنے اور قومی فٹبال کے معاملات نارملائزیشن کمیٹی کے سپرد نہ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔

پاکستان کی فٹبال پچھلے دنوں اس وقت نئے تنازع سے دوچار ہوئی جب پاکستان فٹبال فیڈریشن سے وابستہ ایک گروپ نے، جس کے سربراہ اشفاق حسین شاہ ہیں، لاہور میں پاکستان فٹبال ہاؤس کا کنٹرول حاصل کر کے فیفا کی مقرر کردہ نارملائزیشن کمیٹی کے سربراہ ہارون ملک کو وہاں سے باہر کر دیا اور فٹبال کے معاملات خود سنبھال لیے۔

فیفا نے اس اقدام کو اپنے اصولوں کی خلاف ورزی گردانتے ہوئے یہ واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں اس وقت فیفا کی نمائندہ حیثیت ہارون ملک کی سربراہی میں قائم نارملائزیشن کمیٹی کو حاصل ہے۔

اب کیا ہو گا؟

فٹبال
انٹرنیشنل فٹبالر اور قومی ٹیم کی کپتان حاجرہ خان

تازہ ترین صورتحال کے بعد یہ معاملہ فیفا کی بیورو آف کونسل کے سامنے جائے گا جو تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد پاکستان فٹبال کے بارے میں کسی فیصلے پر پہنچے گا۔ عام طور پر اس طرح کے معاملات کے لیے بیورو آف کونسل کے اجلاس بلائے جاتے ہیں لیکن کووڈ کی صورتحال کی وجہ سے اب یہ اجلاس آن لائن بھی ہوتے ہیں۔

ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ فیفا کی جانب سے کسی رکن ملک کی رکنیت معطلی کیے جانے کے فیصلے کو جمعہ کے روز سامنے آئے ہیں لہذا اس بار بھی اگر بیورو آف کونسل کسی فیصلے پر پہنچتی ہے تو اس کا اعلان جمعہ کو متوقع ہے۔

خواتین فٹبالرز بہت زیادہ مایوس

فٹبال
خدیجہ کاظمی (انتہائی بائیں جانب)

پاکستانی خواتین فٹبالرز ہاجرہ خان اور خدیجہ کاظمی کے لیے وہ انتہائی خوشی کا لمحہ تھا جب وہ اپنی ٹیم پاکستان آرمی کے ساتھ قومی ویمنز فٹبال چیمپئن شپ کھیلنے میدان میں اتری تھیں۔

انھیں سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ اس چیمپئن شپ کے بعد انھیں کئی دوسری کھلاڑیوں کی طرح ایک طویل عرصے بعد بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کا موقع ملے گا لیکن اب ان کے چہروں پر جوش و خروش کے بجائے اداسی چھائی ہوئی ہے اور لہجے میں مایوسی جھلک رہی ہے۔

انٹرنیشنل فٹبالر ہاجرہ خان کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ موجودہ صورتحال کے سبب خواتین فٹبالرز کے آگے بڑھنے کا عمل رک گیا ہے اور بے پناہ ٹیلنٹ ضائع ہو جائے گا۔

ہاجرہ خان بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’پاکستانی خواتین کو آخری بار 2014 میں اسلام آباد میں منعقدہ ساؤتھ ایشین فیڈریشن چیمپئن شپ میں کھیلنے کا موقع ملا تھا جس کے بعد جو حالات رہے اس کے نتیجے میں ہم بین الاقوامی فٹبال سے دور رہی تھیں۔ اب ہمیں یہ موقع ملنے والا تھا کہ ہم اس سال ستمبر میں پہلی مرتبہ اے ایف سی کوالیفائر میں حصہ لیتے۔ ہمارے کیمپس کا اعلان بھی ہو چکا تھا اور لڑکیاں بہت خوش تھیں لیکن اب کوئی سمت نظر نہیں آ رہی ہے کیونکہ قومی چیمپئن شپ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی۔‘

ہاجرہ خان کہتی ہیں کہ ‘ماضی میں بھی ہم نے اپنا بہترین ٹیلنٹ گنوایا ہے کیونکہ جس طرح کی صورتحال رہی اس میں کئی لڑکیوں نے اپنا کریئر تبدیل کر لیا، کئی باہر چلی گئیں اس بار ہم پہلے سے زیادہ ٹیلنٹ گنوا دیں گے کیونکہ فیفا کی پابندی کی صورت میں کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے محروم ہو جائیں گی۔

خدیجہ کاظمی فیفا ماسٹر گریجویٹ ہیں وہ بھی موجودہ صورتحال کو باصلاحیت کھلاڑیوں کے لیے بہت بڑا دھچکہ سمجھتی ہیں۔

سال میں خواتین فٹبالرز کے لیے صرف ایک چیمپئن شپ ہوتی ہے اور یہ چیمپئن شپ بہت اچھے انداز میں کھیلی جا رہی تھی اور لڑکیاں پاکستانی ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے بہت ُپرجوش تھیں اب یہ راستہ بھی بند ہو جائے گا۔

خدیجہ کاظمی خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں ’کھیل میں عمرکی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور فٹبالر کے لیے ایک سال بہت زیادہ ہوتا ہے اگر وہ نہیں کھیل رہا ہوتا ہے تو وہ پیچھے چلا جاتا ہے۔ میرا تو زیادہ تجربہ اسی طرح کی صورتحال میں گزرا ہے کہ فٹبال کی سرگرمی ہی نہیں ہو رہی ۔میرا اپنا کریئر اب زیادہ نہیں رہا لیکن مجھے ان باصلاحیت بچیوں کے لیے زیادہ دکھ ہے جو قومی چیمپئن شپ میں منظرعام پر آئی ہیں، انھیں آگے بڑھنا ہے لیکن فیفا کی پابندی کی صورت میں انھیں یہ مواقع نہیں ملیں گے ۔موجودہ صورتحال دراصل ان باصلاحیت کھلاڑیوں کی زندگیاں ضائع کرنے کے مترادف ہے۔‘

پیسے کی بھرمار

فٹبال
پاکستانی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان عیسی خان

اگر حالیہ برسوں کے دوران پاکستان فٹبال فیڈریشن کے معاملات پر نظرڈالی جائے تو الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرنا، متوازی فیڈریشن کا قیام، عدالتی فیصلے اور فیفا کا حرکت میں آنا معمول کے واقعات دکھائی دیتے ہیں۔

سابق انٹرنیشنل فٹبال ریفری احمد جان سے جب بی بی سی نے یہ سوال کیا کہ پاکستان کی فٹبال میں اس طرح کی غیریقینی صورتحال بار بار کیوں پیدا ہوتی ہے؟ تو ان کا جواب کچھ اس طرح تھا ’جہاں پیسے کی بھرمار ہو، فیفا پیسہ دیتا جائے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو تو پھر اسی طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔‘

احمد جان کا کہنا ہے کہ فیفا نے کراچی میں گول پراجیکٹ کے لیے بڑی رقم دی لیکن آج وہاں جا کر دیکھیں یہ پورا پراجیکٹ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔

یہ کرسی کی جنگ ہے

پاکستانی فٹبال ٹیم کے سابق کپتان عیسیٰ خان بھی موجودہ صورتحال کو پیسے کی چمک دمک کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ فیفا سے پاکستان فٹبال فیڈریشن کو ہر سال ڈیولپمنٹ پروگرام کی مد میں بارہ لاکھ پچاس ہزار ڈالرز ملتے ہیں۔

عیسیٰ خان کا کہنا ہے ’جو بھی آتا ہے اس کی نظریں فیفا سے ملنے والے فنڈز پر ہوتی ہے۔ یہ لوگ صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ انھیں اگرفٹبال سے سچی محبت ہوتی تو وہ کبھی بھی ملک کو بدنامی سے دوچار نہ کرتے اور مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکال سکتے تھے لیکن یہ درحقیقت اختیارات اور کرسی کی جنگ ہے جو ہم پچھلے پانچ چھ سال سے دیکھ رہے ہیں۔‘

عیسی کہتے ہیں اختیارات کی اس جنگ میں سب سے بڑا نقصان کھلاڑیوں اور میچ آفیشلز کا ہوا ہے اور دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔

عیسیٰ خان نارملائزیشن کمیٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں ’فیفا نے اس کمیٹی کو اگر الیکشن کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی تو اس نے اب تک یہ کیوں نہیں کیا؟ یہ کمیٹی ابھی تک ڈسٹرکٹ سطح پر کلبوں کی سکروٹنی بھی مکمل نہیں کر سکی ہے۔فیفا اس کمیٹی کو اس سال جون تک انتخابات کرانے کے لیے کہہ چکی ہے لیکن اس کے برعکس کمیٹی نے اگلے سال مارچ تک کا فٹبال کلینڈر پیش کر دیا ہے جو اس کا مینڈیٹ نہیں ہے۔‘

عیسی خان فیفا کی کارکردگی سے بھی مطمئن نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ‘فیفا کو اپنے عہدیداروں سے بھی پوچھنا چاہیے کہ انھوں نے پاکستان میں نارملائزیشن کمیٹی میں ایسے افراد کا تقرر کیوں کیا جو اس کا مینڈیٹ وقت پر پورا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔’

نارملائزیشن کمیٹی کیا ہے؟

فٹبال
پاکستان کے انٹرنیشنل فٹبالر کلیم اللہ

فیفا نے ستمبر 2019 میں پاکستانی فٹبال کے معاملات چلانے کے لیے پانچ رکنی نارملائزیشن کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا سربراہ سابق فٹبالر حمزہ خان کو مقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ پاکستانی فٹبال کے روز مرہ کے معاملات چلائے گی۔ کلبوں کی سکروٹنی اور رجسٹریشن کرنے کے بعد پاکستان فٹبال فیڈریشن کے انتخابات کرائے گی۔

اس نارملائزیشن کمیٹی کے عہدیداران کے انتخاب کے لیے فیفا اور ایشین فٹبال کنفیڈریشن کے دو رکنی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور متعلقہ افراد سے انٹرویوز کیے تھے۔

فیفا نے گذشتہ سال نارملائزیشن کمیٹی کی مدت میں جون 2021 تک توسیع کر دی تھی اور حمزہ خان کے استعفے کے بعد ہارون ملک کو کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ہارون ملک کا پاکستان کی فٹبال سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے اور وہ کینیڈا میں مقیم بزنس مین ہیں۔

فیفا کو نارملائزیشن کمیٹی بنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی تھی کہ سنہ 2015 میں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے انتخابات متنازع بن گئے تھے اور اکتوبر 2017 میں فیفا نے پاکستان فٹبال فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دی تھی جو مارچ 2018 میں بحال کی گئی تھی۔

2015 میں ہونے والے پاکستان فٹبال فیڈریشن کے انتخابات میں فیصل صالح حیات صدر منتخب ہوئے تھے لیکن انھیں بے ضابطگیوں کے الزامات پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا تاہم لاہور ہائی کورٹ نے انھیں 2017 میں ان کے عہدے پر بحال کر دیا تھا۔

دسمبر 2018 میں سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ہونے والے فیڈریشن کے انتخابات میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے اشفاق حسین شاہ صدر منتخب ہوگئے تھے لیکن فیفا اور ایشین فٹبال کنفیڈریشن نے ان انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

اس تمام عرصے میں پاکستان فٹبال کے معاملات عدالتی فیصلوں کے ذریعے نمٹائے جاتے رہے اور انھی فیصلوں کی روشنی میں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے معاملات چلانے کے لیے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر بھی ہوا تھا لیکن اس ضمن میں فیفا کا چارٹر بالکل واضح رہا ہے کہ وہ حکومتی مداخلت اور عدالتی فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی۔

‘قبضے کے بجائے انتظار کر لیتے’

پاکستان کے انٹرنیشنل فٹبالر کلیم اللہ کہتے ہیں اگر ایک گروپ فیفا کو ماننے کے لیے تیار نہیں تو پھر اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ فیفا کی طرف سے فنڈز ملنا بند ہو جائیں گے اور یہ گروپ پھر مقامی سطح پر میچز کراتا رہے اور حکومت کی گرانٹ کا منتظر رہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس کتنا پیسہ ہے جو اسے گرانٹ دے سکے؟ قومی کھیل ہاکی کی حالت ہمارے سامنے موجود ہے۔

کلیم اللہ کا کہنا ہے ’پاکستان کی فٹبال کو متنازع بنانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس کھیل کے اصل سٹیک ہولڈرز کھلاڑی ہیں جن میں سے کسی نے تعلیم چھوڑ کر فٹبال میں کریئر بنانا چاہا تو کسی نے اپنے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اس کھیل کو اپنایا، کسی نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ فٹبال ہاؤس پر قبضہ کرنے والے اگر انہی فٹبالرز کے بارے میں کچھ سوچ لیتے؟‘

کلیم اللہ کہتے ہیں فیفا کی طرف سے پاکستان پر پابندی کی صورت میں فٹبالرز معاشی طور پر تباہ ہو جائیں گے کیونکہ ان میں اکثریت پڑھی لکھی نہیں ہے کہ انھیں تعلیم کی بنیاد پر ملازمت مل جائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *