ڈالر کی اڑان سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کیا پاکستان کے معاشی بحران کو سیاسی استحکام کی ضرروت ہے؟
جمعرات کے دن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں مزید اضافے کے بعد جب سٹاک مارکیٹ میں بھی شدید مندی کا رجحان نظر آیا تو ایک جانب جہاں سیاسی غیر یقینی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا وہیں دوسری جانب سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کیا سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ معاشی تنزلی کی رفتار کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کو معیشت کے ایک اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں معیشت کے ہر شعبے پر پڑتے ہیں۔
گذشتہ چند برسوں میں روپے کی قدر میں بتدریج کمی کے بعد پی ڈی ایم حکومت کے آخری چند ہفتوں میں آئی ایم ایف سے معاہدے کے نتیجے میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ قدرے مستحکم رہا تاہم نگران حکومت کے آنے کے بعد سے ڈالر کے ریٹ میں اچانک کافی اضافہ ہوا ہے۔
ایسے میں صحافی طلعت حسین نے جمعرات کے دن ڈالر کے ریٹ میں ردوبدل اور سٹاک مارکیٹ میں مندی کی جانب توجہ دلائی تو سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر نجم علی صارف نے جواب میں لکھا کہ ’اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے، مستقبل کی غیر یقینی اور سرمایہ کاروں میں اعتماد کی کمی۔‘
نجم علی نے لکھا کہ ’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گورننس کا نظام پھٹ رہا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر جہاں تحریک انصاف کے حامی حالیہ معاشی تنزلی کو پی ڈی ایم کی کارکردگی اور الیکشن نہ کروانے کی وجہ بیان کرتے رہے وہیں ایک طبقہ ایسا بھی تھا جس کی رائے تھی کہ اس وقت کسی پر الزام لگانے سے زیادہ ضروری ان مسائل کا فوری حل ہے۔
اس طبقے کی نمائندگی صارف ریحان شفیق نے ان الفاظ میں کی کہ ’سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، پچھلی حکومت پر ڈالنا ہے یا عمران خان پر یا ایوب خان پر۔۔۔ جس پر بھی ڈالنا ہے خدا کے واسطے ہمیں اس سے بچائیں۔‘
اس بحث سے ہٹ کر یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ آیا روپے کی قدر میں کمی کے تسلسل سمیت دگرگوں معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے بی بی سی اردو نے چند تجزیہ کاروں سے بات کی لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ نگران حکومت کے دور میں سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کے ریٹ پر کیا فرق پڑا اور کیا اس کی ذمہ داری نگران حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے؟
نگران حکومت میں سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی کیا صورتحال رہی؟
کرنسی مارکیٹ میں پی ڈی ایم حکومت کے آخری کاروباری روز میں انٹر بینک ڈالر کی قیمت 288.49 کی سطح پر بند ہوئی تھی جس میں نگران حکومت کے قیام کے بعد سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور جمعرات کے روز اس کی قیمت 305.54 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔
نگران حکومت کے دور میں انٹر بنک میں ڈالر کی قیمت 17.05 روپے تک بڑھ چکی ہے۔
اسی طرح اوپن مارکیٹ میں پی ڈی ایم حکومت کے آخری کاروباری روز ایک ڈالر کی قیمت 297.50 روپے کی سطح پر بند ہوئی تھی جس میں نگران سیٹ اپ میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور جمعرات کے روز اس کی قیمت 325 روپے کی سطح پر اوپر چلی گئی۔ اس طرح اس کی قیمت میں اب تک 17 روپے سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
پاکستان سٹاک مارکیٹ پی ڈی ایم حکومت کی رخصتی سے پہلے آخری کاروباری روز پر 48424 پوائنٹس کی سطح پر بند ہوئی تھی۔
اگست 2023 کو انوار الحق کاکڑ نے نگران وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تو اس کے بعد 15 اگست کو پہلے کاروباری روز مارکیٹ میں تھوڑی سی تیزی نظر آئی تاہم اس کے بعد سٹاک مارکیٹ کے انڈیکس میں کمی کا رجحان نظر آنا شروع ہوا اور اگست کے آخری ہفتے میں سٹاک مارکیٹ بہت زیادہ منفی رجحان کا شکار نظر آئی۔
سٹاک مارکیٹ انڈیکس کے پہلے کاروباری روز 200 پوائنٹس تک گرا تو منگل کے روز سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں 708پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
بدھ کے روز انڈیکس میں مزید کمی ریکارڈ کی گئی اور جمعرات کے روز مارکیٹ میں شدید مندی کا رجحان رہا اور مارکیٹ کے انڈیکس میں کاروبار کے اختتام پر 1242 پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی جس کے بعد انڈیکس 45002 پوائنٹس کی سطح تک نیچے آ گیا۔
نگران دور حکومت میں ڈالر کی قیمت میں اضافے اور سٹاک مارکیٹ میں مندی کی کیا وجہ ہے؟
ملک میں نگران حکومت کے قیام کے بعد ڈالر کی قیمت میں ایک جانب بہت زیادہ اضافہ ہوا تو دوسری جانب سٹاک مارکیٹ شدید مندی کا شکار رہی۔
نگران حکومت میں ان دونوں معاشی اشاریوں میں آنے والی گراوٹ کے بارے میں معاشی امور کی تجزیہ کار ثناء توفیق کا کہنا ہے کہ دونوں معاشی اشاریوں میں ہونے والی تنزلی کی وجہ ملک کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال میں بے یقینی کا بڑھنا ہے۔
انھوں نے کہا ’سب سے سب پہلے یہ واضح رہے کہ نگران سیٹ اپ کے آنے کے بعد انتخابات کی تاریخ دینے میں تاخیر سیاسی بے یقینی کو بڑھا رہی ہے اور اس کی وجہ سے مارکیٹ میں بہت زیادہ منفی رجحان پیدا ہوا ہے کیونکہ سرمایہ کاروں کے اندر یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ سیاسی بے یقینی کا سب سے بڑا منفی اثر اقتصادی صورتحال پر پڑے گا۔‘
انھوں نے کہا ’اسی طرح بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد جو ردعمل آیا اور آئی ایم ایف پروگرام کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تو اس خدشے نے بھی جنم لیا کہ کیا ایسی صورتحال میں کہیں پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام کھٹائی میں نہ پڑ جائے کیونکہ بجلی کے نرخوں میں اضافے پر سخت ردعمل کے بعد آئی ایم ایف شرائط کے تحت کیا گیس ٹیرف بھی بڑھ پائیں گے یا نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نگران حکومت نے بھی اس پر کوئی واضح موقف نہیں دیا ہے۔ ثنا نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں یہی نظر آ رہا ہے کہ اقتصادی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں جس کا منفی اثر سٹاک مارکیٹ اور ڈالر پر مزید آئے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’اگرچہ آئی ایم ایف کی جانب سے نومبر میں اگلی قسط جاری ہونی ہے تاہم ابھی اس میں دو مہینے کا وقت ہے اور اس دوران سوال یہ ہے کہ کیا نگران حکومت مزید مشکل فیصلے کر پائے گی جس کے تحت آئی ایم ایف شرائط کو پورا کیا جا سکے کیونکہ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے بعد آنے والے سخت رد عمل نے مزید شرائط پر عملدرآمد کو مشکل بنا دیا ہے۔‘
کیا معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے؟
تجزیہ کار فرح ضیا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ معیشت کے معاملات نگران حکومت کے آنے کے بعد ہی خراب ہوئے کیوںکہ معاشی حالات کے تسلسل کو دیکھیں تو یہ چیزیں عمران خان کی حکومت کے دوران ہی شروع ہو چکی تھیں کہ معیشت ٹھیک نہیں چل رہی اور ان کی حکومت جانے میں ایک کردار اس مسئلے کا بھی تھا۔‘
تاہم فرح ضیا کا کہنا تھا کہ ’آخری حکومت، پی ڈی ایم، نے جو فیصلے آخری ڈیڑھ ماہ کے دوران کیے، اب ہمیں ان کے اثرات نظر آ رہے ہیں، نگران حکومت تو ان کا سامنا کر رہی ہے۔‘
’نگران وزیر خزانہ کے بیان سے بھی یہی لگ رہا ہے کہ وہ پچھلی حکومت کے فیصلوں کو بھگت رہے ہیں۔‘
لیکن کیا تحریک انصاف کا یہ موقف درست ہے کہ معاشی ابتری کی وجہ الیکشن کا نہ ہونا ہے؟
فرح ضیا کا کہنا تھا کہ ’یہ کہنا بھی غلط ہو گا کہ اس معاشی ابتری کی وجہ الیکشن کا التوا ہے۔‘
لیکن کیا معاشی حالات سیاسی استحکام سے نہیں جڑے ہوئے اور الیکشن کی واضح تاریخ سامنے آ جانے سے کسی حد تک استحکام ممکن ہے؟
اس سوال کے جواب میں فرح ضیا کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم یہ مان لیں کہ استحکام الیکشن سے ہی آئے گا تو سیاسی استحکام تو یقینا وقت پر الیکشن ہونے سے ہی آئے گا۔‘
’لیکن ہماری سیاست جس طریقے سے چل رہی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ الیکشن ایسے میں کسی معاملے کا حل ہو گا کیوںکہ ایک سیاسی جماعت کے خلاف کیسز بنائے جا رہے ہیں، ان کے لوگ جیلوں میں ہیں، تو وہ انتخابات کی مہم اس طرح نہیں کر سکیں گے۔ دوسری طرف ایک پارٹی الیکشن کی بات ہی نہیں کر رہی اور وہ انتخابی مہم کے موڈ میں ہی نہیں ہے۔‘
فرح ضیا کا موقف تھا کہ ’ایسے میں اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی ضرورت ہے کہ بیٹھ کر بنیادی باتوں پر بات چیت کی جائے کہ پاکستان کو کیسے چلانا ہے، معیشت کو کیسے چلنا ہے، سیاست کو کیسے چلنا ہے، اسٹیبلشمنٹ کا کیا کردار ہو گا، سیاسی جماعتوں کا کیا کردار ہو گا۔‘
’اگر یہ ڈائیلاگ نہیں ہوتا تو موجودہ حالات میں آئین کی رو سے الیکشن ہونا لازمی ہیں اور میرے خِیال میں کسی نہ کسی شکل میں کچھ استحکام تو اس سے آئے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کو اکھٹے ہونا چاہیے کیوںکہ کسی قسم کے چارٹر آف اکانومی میں اسٹیبلشمنٹ کردار شاید ادا نہیں کرے گی کیوں کہ وہ سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔‘
فرح ضیا کی رائے تھی کہ ’اتنا تجربہ میرے نزدیک سب کو ہو چکا ہے کہ یہ ایک دائرہ ہے جو چلتا جا رہا ہے۔ یہ چاہے بیک ڈور ہو، لیکن سب کو یہ بات چیت کرنی چاہیے اور سیاسی جماعتیں بعد میں چاہے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو شامل کر لیں۔‘
’لیکن الیکشن سے پہلے یہ ہونا ضروری ہے ورنہ الیکشن کسی معاملے کا حل نہیں ہوں گے کیوں کہ کوئی ایک سیاسی جماعت اکیلے ملک کو نہیں چلا سکتی۔‘