پناہ گزین کو واشنگ مشین دینے کا منصوبہ جسے اب دیگر ممالک میں پھیلایا جا رہا ہے
ایک انجینئر جنھوں نے پناہ گزین کے کیمپوں اور دنیا کے غریب ترین خطوں میں رہنے والے لوگوں کے لیے واشنگ مشین تیار کی، وہ اب اپنے منصوبے کو وسعت دینے کے لیے تیار ہیں۔
نوجوت سوہنی نے ایسے لوگوں کے لیے ہاتھ سے چلنے والی واشنگ مشین ایجاد کی تھی جنھیں عموماً ہاتھوں سے ہی کپڑے دھونے پڑتے ہیں۔
واشنگ مشین پروجیکٹ کو 2018 میں قائم کیا گیا تھا۔ عراق میں پناہ گزین کے کیمپ میں اس کا پائلٹ پروجیکٹ چلانے کے بعد اب اس میں توسیع کے لیے مالی امداد بھی مل چکی ہے۔
سوہنی کا کہنا تھا کہ ’میں کچھ جدید بنانا چاہتا تھا کیونکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔‘
یونیورسٹی آف باتھ کے اس سابقہ 30 سالہ طالب علم کو جنوبی انڈیا میں چھٹیوں کے دوران اس وقت واشنگ مشین بنانے کا خیال آیا جب انھوں نے عورتوں اور بچوں کو کئی گھنٹوں تک ’ہاتھ سے کپڑے دھوتے ہوئے‘ دیکھا۔
انھوں نے کہا ’میں رضاکارانہ طور پر انڈیا جا کر وہاں کے لوگوں کی روزمرہ کی جدوجہد میں مدد کرنا چاہتا تھا۔ میرے دورے نے مجھ پر اثر ڈالا اور گھر واپس آکر میں نے واشنگ مشین پروجیکٹ شروع کیا۔‘
یہ مشین جسے ’دیویہ‘ کہا جاتا ہے، پہلے ہی عراق کے ایک پناہ گزین کے کیمپ میں استعمال ہو رہی ہے اور سوہنی کم از کم 7500 مشینیں پسماندہ خاندانوں کے لیے فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اندازوں کے مطابق اس سے اگلے دو برسوں میں قریب ایک لاکھ افراد کی مدد ہو گی۔
اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے الیکٹرو کمپونٹس نامی کمپنی کے ساتھ فنڈ ریزنگ کا معاہدہ کر لیا ہے جس کی مدد سے وہ اس مشین کو زیادہ سے زیادہ ممالک میں بھیجیں گے اور کام کے لیے کل وقتی عملہ بھرتی کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک نچلی سطح پر چلایا جانے والا پروجیکٹ تھا اور عراق میں اس مشین کو ٹیسٹ کرنے کے لیے ہمیں آکسفم سے کچھ فنڈ ملا تھا۔‘
’تب کمپنی کا کہنا تھا کہ ہمیں آپ کی مشن پسند آئی ہے اور ہم اسے فنڈنگ سے اسے اگلے مرحلے تک لے جانے کی اجازت دیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا ’مجھے اس سب سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ میں نے تو صرف مشین بنانے کا سوچا تھا۔‘
دیویا کو چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت نہیں ہے اور اسے کپڑے دھونے اور خشک کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
یہ استعمال کرنے میں آسان اور ہاتھوں سے کپڑے دھوتے ہوئے لگنے والے وقت کو کم کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔
اس سال اردن اور وانواتو میں اس مشین کے مزید منصوبے شروع کیے جارہے ہیں اور سوہنی کی کئی دوسرے ممالک سے بات چیت بھی ہوئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں یونان سے فون آئے ہیں، نائیجیریا کی حکومت نے رابطہ کیا ہے اور ہم یوگنڈا میں منصوبہ شروع کرنے کے لیے سیو دی چلڈرن نامی تنظیم سے گفتگو کر رہے ہیں۔‘