پاکستان کے خطے میں ’برادر اسلامی ممالک‘ سے تلخ ہوتے تعلقات

پاکستان کے خطے میں ’برادر اسلامی ممالک‘ سے تلخ ہوتے تعلقات

پاکستان کے خطے میں ’برادر اسلامی ممالک‘ سے تلخ ہوتے تعلقات: کیا پاکستان علاقائی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے؟

پاکستان گذشتہ کئی برسوں سے مختلف اندرونی مسائل کا شکار ہے اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت، سیاسی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے واقعات نے پاکستان کو متعدد محاذوں پر مصروف رکھا ہے۔

ایسے میں ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی جہاں پاکستان کے لیے ایک پریشان کُن پیشرفت ہے وہیں اسے دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات میں ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے اپنے مشرقی اور مغربی پڑوسی ممالک انڈیا اور افغانستان کے ساتھ تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں اور ایسے میں ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو خطے میں سفارتی اور جغرافیائی اعتبار سے بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ ایران کی جانب سے 16 جنوری کی رات پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے ’سبز کوہ‘ میں شدت پسند تنظیم ’جیش العدل‘ کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملہ کیا گیا تھا جس میں پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق دو بچے ہلاک جبکہ تین بچیاں زخمی ہوئی تھیں۔

ایرانی حملے کا ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان نے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس میں ایرانی حکام کی جانب سے نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

اگر پاکستان کے اندورنی حالات پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان میں عام انتخابات ہونے میں صرف 20 دن باقی ہیں جبکہ ملک کو معاشی بدحالی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دوست ممالک سے لیے گئے قرض واپس کرنے کی معیاد بڑھانے کی درخواست کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔

ایسے میں پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پہلے سے اندورنی مسائل سے دوچار پاکستان اب اپنے تین ہمسایہ ممالک انڈیا، افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی محاذ آرائی میں الجھ گیا ہے۔

پاکستانی فوج پہلے ہی ملک کے اندر بہت سے شدت پسند اور باغی گروہوں سے لڑ رہی ہے اور اس صورتحال میں ایران کی جانب سے حملے نے پاکستان کے سکیورٹی سسٹم پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے۔

اس صورتحال میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ پاکستان کی تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کی وجوہات کیا ہے؟ کیا ایسا پاکستان کی جغرافیائی، سکیورٹی صورتحال یا بین الاقوامی طاقتوں کے کردار کے باعث ہو رہا ہے؟ کیا پاکستان علاقائی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے؟

علامتی تصویر

ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کی وجوہات کیا؟

پاکستان کی اپنے تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کی وجوہات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کی چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کو جغرافیائی سیاست کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ خطہ گذشتہ تین، چار دہائیوں سے ہلا ہوا ہے، یہاں پہلے روس اور افغانستان کی جنگ ہوئی، پھر امریکہ نے افغانستان میں کارروائیاں کی اور اب شدت پسندی نے اس علاقے کو متاثر کیا ہے۔ ایسے میں پاکستان اس خطے میں واحد جوہری قوت کا حامل ملک ہے اور وہ اس تمام صورتحال سے متاثر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں تو اس میں چین، ایران اور افغانستان سے ہمیشہ تاریخی اور دیرینہ تعلقات رہے ہیں مگر انڈیا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا سبب یہ ہے کہ وہ خطے اور خصوصاً کشمیر میں بالادستی چاہتا ہے جبکہ پاکستان کشمیر کے تنازع کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت سیاسی حل چاہتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور گذشتہ سات دہائیوں میں اس میں سردی اور گرمی رہی ہے۔

پاکستان اس عرصے میں اپنے روایتی حریف ملک کے ساتھ دو جنگوں اور کارگل کے محاذ پر آمنے سامنے رہا ہے۔

بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال کوئی نئی نہیں ہے۔ اس بارے میں پاکستان متعدد بار کہتا رہا ہے کہ اس کے ہمسایہ ممالک کی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے چاہے وہ انڈیا ہو، افغانستان ہو یا ایران ہو۔

وہ کہتی ہیں کہ اس میں انڈیا کے کردار کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ، اُن کے مطابق، انڈیا نے ’نو کنٹیکٹ وار‘ کی حکمت عملی اپنائی ہے اور جارحیت کو مشرقی سرحد سے دیگر ممالک میں منتقل کیا ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان اس مسئلے کو افغانستان کے ساتھ تواتر کے ساتھ اجاگر کرتے رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایران کے ساتھ حالیہ کشیدہ صورتحال نئی نہیں ہے بلکہ یہ معاملات ستّر کی دہائی کے بعد سے چلے آ رہے ہیں اور پاکستان کا ایران کے ساتھ ایک مشترکہ طریقہ کار بھی طے کیا گیا تھا جس کے تحت ہم نے سنہ 2012 میں جیش العدل کے لوگوں کو پکڑ کر ایران کے حوالے کیا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان سرحدی مسائل کے علاوہ کچھ مسائل مذہبی فرقوں کے باعث بھی رہے ہیں لیکن پاکستان اور ایران نے ہمیشہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے انھیں حل کرنے کی کوشش کی ہے۔

ہما بقائی کے مطابق ’ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجوہات ایران کے اندر بھی ٹریس ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب چاہ بہار میں پاکستانی وفد موجود تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان اور ایران دونوں کے ساتھ پاکستان نے ہمیشہ سٹرٹیجک برداشت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان نے ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو کبھی ایک حد سے زیادہ گرنے نہیں دیا۔‘

ہما بقائی کہتی ہیں کہ ’یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پڑوسی ملک انڈیا میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ جب انڈیا میں الیکشن ہو تو وہ پاکستان کی سرحد پر کوئی جارحیت کرنے کی کوشش کرتا ہے لہذا پاکستان کی جانب سے ایران پر جوابی حملہ صرف ایران کو ہی نہیں بلکہ انڈیا کو بھی ایک پیغام تھا کہ وہ کیس مس انڈوینچر کے بارے میں نہ سوچے۔‘

ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی پر گہری نگاہ رکھنے والے پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا تینوں ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کا تاثر غلط ہے اور تہران کے ساتھ جاری تناؤ میں بھی کمی آ رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایران کے ساتھ پاکستان کے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں۔ کچھ بارڈر منیجمنٹ کے مسائل تھے جو ابھی بڑھے ہیں، جو ایران نے کیا غلط تھا، ایران کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘

اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ ایران کی وزارت خارجہ کی جانب سے کل جاری کردہ بیان سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ معاملات کو سلجھاؤ کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔

علامتی تصویر

’افغانستان میں امریکہ کا پھیلایا گیا گند صاف کرنے میں وقت لگے گا‘

سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ جہاں تک افغانستان کے ساتھ تعلقات ہیں تو یہ جیوپولیٹکل مسئلے کی باقیات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ امریکہ کا پھیلایا ہوا گند ہے جسے صاف کرنے میں وقت لگے گا۔’

ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں تقریبًا آٹھ سے دس ہزار ایسے کرائے کے دہشتگرد موجود ہیں جو پاکستان، چین، روس، ایران سمیت دیگر ممالک کے خلاف سرگرمیاں کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع صرف سکیورٹی سے متعلق ہے اور پاکستان نے متعدد بار افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کے متعلق آواز اٹھائی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تاریخی، تجارت اور سفارتی تعلقات رہے ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم رہے ہیں تاہم 2000 کی دہائی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ اس وقت آیا جب امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے حال ہی میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے اعلان کے بعد بھی دونوں حکومتوں میں تلخی پیدا ہوئی ہے۔

سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک افغانستان کی بات ہے پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے خواہ وہ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دینے کی بات ہو یا مالی معاونت ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ بھی بارڈر منیجمنٹ کے مسائل ہیں اور اس بارے میں ہم انھیں مسلسل کہہ رہ ہیں۔

’افغانستان سے پاکستان کے تجارتی، ثقافتی، تاریخی تعلقات ہیں اور وہ قائم رہے گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’البتہ انڈیا کے ساتھ تعلقات میں مسئلہ یہ ہے کہ وہ بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع نہیں جانے دیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ افغانستان میں موجود عسکریت پسندوں کی مبینہ فنڈنگ کر کے پاکستان میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے اور ماضی میں کلبھوشن یادیو کے واقعے نے یہ ثابت کیا کہ انڈیا نے ایران کے راستے بھی ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی۔‘

ایران کے ساتھ تعلقات اور حالیہ کشیدگی پر بات کرتے ہوئے مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ پاکستان کا کوئی بنیادی تنازع نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایران انڈیا نہیں ہے اور اس کے ساتھ خاموش سفارتکاری‘ کے ذریعے ہمارے رابطے شروع ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ ہم بہتری کی طرف قدم اٹھائے گے۔‘

وہ کہتےہیں گذشتہ روز پاکستان کے ایران میں جوابی حملے کے بعد ایرانی حکومت نے خود اس بات کو تسلیم کیا کہ اس میں غیر ایرانی باشندے مارے گئے ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے دونوں اسلامی ہمسایہ ممالک میں چند ایسے عناصر موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کے لیے کارروائی ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں متعدد بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گذشتہ کئی دہائیوں سے متحرک ہیں اور ان تنظیموں نے ماضی میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز، پولیس اور اہم تنصیبات پر کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

پاکستانی حکام کی جانب سے گذشتہ کئی برسوں سے یہ دعوی کیا جاتا رہا تھا کہ ان علیحدگی پسند تنظیموں سے جُڑے عسکریت پسند ایران میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

مشاہد حسین سید کا کہنا ہےکہ یہ معاملہ صرف ایران اور پاکستان کا نہیں ہے بلکہ ماضی میں سی پیک راہدری منصوبے پر حملے کے تانے بانے بھی ہمسایہ ممالک کی سرزمین سے جا ملتے ہیں۔

’چاہے وہ افغانستان ہو یا ایران اور اس کی ایک واضح مثال انڈین نیوی کے کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے جو نہ صرف جاسوسی بلکہ ملک میں دہشگردی کی کارروائیاں بھی کر رہے تھے۔‘

یاد رہے سنہ 2016 میں پاکستان نے انڈین نیوی کے ایک افسر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ ان کے متعلق یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ وہ ایران کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

ڈاکٹر ہما بقائی بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے رابطوں کا آغاز ہو گیا ہے اور جلد ہی اس تناؤ میں کمی آ جائے گی۔

علامتی تصویر

کیا پاکستان علاقائی تنہائی کا شکار ہے؟

سینیٹر مشاہد حسین سید اس بارے میں رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے کہ پاکستان علاقائی تنہائی کا شکار ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے اس وقت بھی چین، ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات ہیں۔‘

’پاکستان خطے کا ایک جوہری ملک ہونے کے باعث بھی اہمیت کا حامل ہے۔‘

مستقبل کی حکمت عملی سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک ’ریجنل ری سیٹ‘ کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے چار ہمسائے چین، انڈیا، ایران اور افغانستان ہیں، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اچھے ہیں جبکہ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ خصوصاً ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں عدم اعتماد کی فضا ختم ہو اور بہتر تعلقات استوار ہوں جو پاکستان، افغانستان اور ایران کے ساتھ ساتھ خطے کے لیے بھی بہتر ہیں۔

مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین، روس، ترکی، قطر اور سعودی عرب سے بات کرے کیونکہ یہ ممالک ایران اور افغانستان کے بھی قریب ہیں اور ان کے ذریعے ایک علاقائی سفارتکاری کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ خطے میں پائیدار امن اور ترقی ہو۔

اعزاز احمد چوہدری بھی خطے میں پاکستان کے تنہا ہونے کے تاثر کو زائل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ان کے مطابق ایسا تاثر غلط ہے کہ پاکستان علاقائی تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ مستقبل کی حکمت عملی کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایران اور افغانستان کے ساتھ اپنے بارڈر منیجمنٹ کے نظام کو مربوط کرتے ہوئے اپنے مسائل حل کریں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات میں بہتری لائیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایران کے ساتھ سرحد پرامن رکھیں اور افغانستان کے ساتھ بھی بارڈر پر امن رکھنے کی کوشش کریں۔’

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ انڈیا کے ساتھ بارڈر پُرامن ہے لیکن اس کے ساتھ تعلقات میں بہت سرد مہری ہے اور اس کی وجہ خود انڈیا ہی ہے۔

اس بارے میں ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ آنے والے وقت میں ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں چین کے کردار کی اہمیت بہت بڑھ جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چین نے پاکستان اور ایران دونوں ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور وہ نہیں چاہے گا کہ خطے میں عدم استحکام ہو اسی لیے اس نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *