پاکستان کا 75واں یومِ آزادی پاکستان کا قومی

پاکستان کا 75واں یومِ آزادی پاکستان کا قومی

پاکستان کا 75واں یومِ آزادی پاکستان کا قومی ترانہ دوبارہ کیوں ریکارڈ کیا گیا؟

پاکستان کے 75ویں یوم آزادی کے موقعے پر دوبارہ ریکارڈ کیا گیا قومی ترانہ ریلیز کر دیا گیا ہے۔

یہ ترانہ 13 ماہ کے طویل عرصے میں ریکارڈ کیا گیا اور اس مرتبہ اسے 155 گلوکاروں نے گایا ہے۔

پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ 13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا، جس کے بول حفیظ جالندھری نے لکھے تھے جبکہ دُھن احمد غلام علی چھاگلہ نے تیار کی تھی۔

اب سنہ 2022 میں دوبارہ ریکارڈ کیے گئے ترانے کی خاص بات یہ ہے کہ 68 برس قبل پہلی مرتبہ ریکارڈ کی گئی دھن اور ترانے کے بول تبدیل نہیں کیے گئے، نہ ہی موسیقی کے آلات تبدیل ہوئے ہیں، البتہ اس میں اب پاکستان میں موجود تمام کمیوینیٹیز اور موسیقی کے تمام انداز کے گانے والوں کو جگہ دی گئی ہے اور لسانی، ثقافتی، مذہبی اور صنفی تنوع کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اسے ریکارڈ کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔

اس دھن کو دوبارہ ریکارڈ کرنے کے لیے جون سنہ 2021 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی جانب سے ایک سٹیئرنگ کمیٹی بنائی گئی تھی جس کے چیئرمین سابق سینیٹر جاوید جبار تھے۔

اس کمیٹی کے اراکین میں معروف موسیقار روحیل حیات، ارشد محمود، استاد نفیس احمد، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر پروڈکشن بریگیڈیئر عمران نقوی، فلم سیکٹر لیڈر ستیش آنند شامل تھے۔

بی بی سی نے قومی ترانے کی دھن اور بول دوبارہ ریکارڈ کروانے والے اس پراجیکٹ سے جڑے افراد، موسیقاروں و گلوکاروں سے بات کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ قومی ترانہ دوبارہ ریکارڈ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، یہ پرانے ترانے سے کس طرح مختلف ہے اور ان کے اس پراجیکٹ پر کام کرنے کے تجربات کیسے رہے۔ اس کے علاوہ ہم نے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے پرانے قومی ترانے کی دھن اور اس کے بول تیار کرنے کے مرحلے پر بھی ایک نظر ڈالی ہے۔

NationalAnthem75
اس ترانے میں شرکتی بنیادوں پر موسیقی کے تمام انداز و اقسام کے گلوکاروں کو جگہ دی گئی ہے اور لسانی، ثقافتی، مذہبی اور صنفی تنوع کا خاص خیال رکھا گیا ہے

’نیا ریکارڈ شدہ ترانہ ایک تحفہ‘

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اس سٹیئرنگ کمیٹی کے چیئرمین جاوید جبار نے کہا کہ ’اس پراجیکٹ کے جس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھا کہ اس میں شرکتی بنیادوں پر نہ صرف اس متنوع معاشرے کے تمام حصوں کی نمائندگی یقینی بنانی تھی، بلکہ موسیقی کے تمام اقسام کو مدِنظر رکھتے ہوئے بھی آوازوں کو شامل کرنا ضروری تھا۔‘

اس کے لیے کمیٹی کی جانب سے معروف اخبارات میں اشتہارات شائع کیے گئے جس کے بعد چنے گئے گلوکاروں کی تربیت کا کام شروع ہوا۔

جاوید جبار بتاتے ہیں کہ ’جب 1954 میں ترانہ ریکارڈ کیا گیا تھا تو اس وقت اسے 10 گلوکاروں نے گایا تھا تاہم پاکستان میں 68 برس میں ایک متنوع معاشرہ بن چکا ہے اور ساتھ ہی ساتھ موسیقی کو ریکارڈ کرنے کے طریقہ کار میں بھی جدت آئی ہے۔‘

خیال رہے کہ اس ترانے کی صدا بندی میں جن گلوکاروں نے حصہ لیا، ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق ان میں احمد رشدی، زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر، اختر وصی علی، نسیمہ شاہین، رشیدہ بیگم، نجم آرا، کوکب جہاں اور شمیم بانو شامل تھے۔

NationalAnthem75
جب تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو جاوید جبار نے اپنا استعفیٰ نئی آنے والی حکومت کو جمع کروایا اور تاہم نئی حکومت نے ان سے منصوبہ جاری رکھنے کی درخواست کی

جاوید جبار نے بتایا کہ اپریل میں جب تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو انھوں نے اپنا استعفیٰ نئی آنے والی حکومت کو جمع کروایا اور تاہم نئی حکومت نے ان سے منصوبہ جاری رکھنے کی درخواست کی۔

انھوں نے کہا کہ ‘کیونکہ پاکستان میں کوئی سٹینڈنگ آرکسٹرا نہیں ہے جیسے دنیا کے دیگر ممالک میں ہوتا ہے، اس لیے ہمیں پاکستانی آرمی، ایئرفورس اور نیوی کے بینڈز کی مدد حاصل کرنی پڑی۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘پاکستان کی 74ویں سالگرہ پر نیا ریکارڈ شدہ ترانہ ایک تحفہ بھی ہے اور اس اہم موقع پر جشن منانے کا بہترین ذریعہ ہے۔’

دھن کی ریکارڈنگ میں کن چیزوں کا خیال رکھا گیا؟

جاوید جبار نے اس ترانے کو دوبارہ ریکارڈ کرنے کے مراحل کے بارے میں تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈنگ سے قبل تمام 155 گلوکاروں کی ریہرسلز کروائی گئیں اور تیاری میں مدد فراہم کی گئی۔

‘اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ دھن کو ویسا ہی اور ان ہی آلات کی مدد سے بجایا جائے جیسے احمد غلام علی چھاگلہ کی جانب سے کمپوز کیا گیا تھا اور بولوں کا تلفظ بھی خاص طور پر مدِنظر رکھا گیا۔’

ترانے کو ریکارڈ کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا گیا جس سے متعدد ٹریکس کو ریکارڈ کرنے کے بعد ان کی مکسنگ میں مدد ملی۔

اس کے علاوہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس سے تیس گلوکاروں پر مبنی کائر کو بھی تربیت دی گئی اور وہ بھی اس ترانے کا حصہ بنے۔

NationalAnthem75
اس بات کا بھی خاص خیال رکھا گیا کہ دھن کو ویسا ہی اور ان ہی آلات کی مدد سے بجایا جائے جیسے احمد غلام علی چھاگلہ کی جانب سے کمپوز کیا گیا تھا اور بولوں کا تلفظ بھی خاص طور پر مدِنظر رکھا گیا

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف گلوگار عمیر جسوال بھی ان گلوکاروں میں شامل ہیں جنھوں نے مل کر نیا قومی ترانہ گایا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عمیر کا کہنا تھا کہ ملک بھر سے اتنے قابل موسیقاروں اور گلوکاروں کے متنوع گروپ کے ساتھ کام کرنے اور ترانہ ریکارڈ کروانے کا تجربہ بہت ہی شاندار رہا۔

وہ بتاتے ہیں کہ بہت سے ایسے موسیقار ہیں جن کا میں نے نام سن رکھا تھا اور انھیں بس دور دور سے ہی سنا تھا۔۔۔ مگر اس نئے ترانے کی بدولت مجھے نہ صرف ان سب سے ملنے کا موقع بھی ملا بلکہ ہم نے ملک کر اپنے ملک کے لیے ایک نئے ترانے پر کام کیا۔

عمیر کہتے ہیں کہ اس ترانے کی ریکارڈنگ کے وقت آڈیٹوریم میں جو ماحول تھا اس میں ہر گلوکار، ہر موسیقار نے ملک کے لیے اپنی محبت کو محسوس کیا ’روحیل حیات نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہم سب قومی ترانے کے لیے ایک جیسا خاص جذبہ محسوس کریں۔ شاید اسی لیے انھیں جادوئی موسیقار پکارا جاتا ہے کیونکہ بس وہی ایسا ممکن بنا سکتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ بہت سے موسیقار ایسے بھی تھے جو اس ترانے کا حصہ تو نہ تھے مگر پھر بھی وہ صرف یہ دیکھنے آتے تھے کہ یہ ترانہ کیسا بن رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ترانے کا حصہ بننا ایک ایسا دل چھو جانے والا تجربہ تھا کہ میں اسے زندگی بھر نہیں بھلا سکوں گا۔

پرانا ترانہ ٹیپ سے ڈیجیٹل پر کنورژن کے دوران ’ڈی ٹیونڈ‘ ہو گیا تھا

NationalAnthem75
عمیر جسوال بتاتے ہیں کہ انھیں ہمیشہ سے پرانے ترانے سے ایک خاص لگاؤ رہا ہے مگر ’بدقسمتی سے چونکہ اسے ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا اور بعد میں جب اسے ڈیجیٹل پر کنورٹ کیا گیا تو اس عمل کے دوران یہ ‘ڈی ٹینوڈ’ (دُھن بدل گئی) بھی ہو گیا‘

عمیر جسوال بتاتے ہیں کہ انھیں ہمیشہ سے پرانے ترانے سے ایک خاص لگاؤ رہا ہے مگر ’بدقسمتی سے چونکہ اسے ٹیپ پر ریکارڈ کیا گیا تھا اور بعد میں جب اسے ڈیجیٹل پر کنورٹ کیا گیا تو اس عمل کے دوران یہ ’ڈی ٹینوڈ‘ بھی ہو گیا (یعنی اس کی دُھن بدل گئی) اور میرے جیسے کسی بھی موسیقار کے لیے یہ ایک بہت اہم بات ہے کہ آپ کسی چیز کو سن رہے ہیں اور اگر وہ ڈی ٹیونڈ ہے تو بطور موسیقار یہ چیز آپ کو پریشان کرتی ہے کیونکہ آپ کو سمجھ آ جاتی ہے کہ اس میں کیا خرابی ہے۔‘

تاہم وہ کہتے ہیں کہ اپنے زمانے کے حساب سے یہ بہت خوبصورت ترانہ تھا اور اس نے جذبات و احساسات کی بہت بہترین عکاسی کی تھی۔ مگر ہم چاہتے تھے کہ اس کا ایک ’نیا ورژن‘ ہو۔

اور ’جب ہم نئے ورژن کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد ’ترانے کا بہتر طریقہ کار سے ریکارڈ کیا گیا ورژن ہے‘ جو آج کے زمانے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور اس زمانے کی فریکوئنسی کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے۔‘

Screen grab from nationalanthem75
عمیر جسوال کا ماننا ہے کہ جب ملک کی نئی نوجوان نسل ان نوجوان گلوکاروں کو ملک کا قومی ترانہ گاتے سنے اور دیکھے گی تو یہ ان میں ایک ایسا احساس جگائے گا کہ جیسے وہ بھی اس کا حصہ ہوں

نئے ترانے کو نئی نسل اور مستقبل کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا ہے مگر ’اس کی روح وہی رہے گی‘

عمیر جسوال اسے حکومت کی جانب سے لیا گیا ایک بہت اہم قدم قرار دیتے ہیں۔۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی نسل کے لیے اس ترانے کے ساتھ تعلق بنانے کے لیے بھی یہ بہت ضروری تھا ’میں نے جب بہت سے نوجوان گلوکاروں کو یہ نیا ترانہ گاتے سنا اور مجھے محسوس ہوا کہ جب وہ اسے گاتے ہیں تو انھیں بھی اس ملک سے ویسا ہی مضبوط تعلق محسوس ہوتا ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ’اس ترانے کو سنتے ہوئے بہت سے لوگوں کے بھی وہی جذبات ہوں گے جو ہم نے اس کمرے میں اسے ریکارڈ کرواتے ہوئے محسوس کیے۔‘

عمیر کہتے ہیں اس نئے ترانے کو سنتے ہوئے بھی آپ کو وطن کے لیے اسی محبت، جذبے اور امید کا احساسں ہو گا جو پرانے کو سنتے ہوئے آپ محسوس کرتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسے مختلف طریقے سے ریکارڈ کیا گیا ہے، موسیقی کے آلات کو اس ترانے میں مختلف انداز میں استعمال کیا گیا ہے، اور اسے جس طرح نئی نسل اور مستقبل کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا، یہ چیزیں اسے پرانے سے مختلف بناتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس نئے ترانے کو سن کر ایک تازگی کا احساس تو ہو گا، مگر اس کی روح وہی رہے گی اور کوئی اس میں تبدیلی نہیں لا سکتا۔

’میرا ماننا ہے کہ اسے دوبارہ سے ری ریکارڈ کرنے سے اس کا اعلیٰ کوالٹی کا ورژن مل گیا ہے اور سب سے اہم اور خوبصورت چیز یہ ہے کہ ملک بھر سے موسیقاروں اور گلوکاروں کے انتہائی متنوع گروپ نے مل کر اس پر کام کیا ہے۔۔۔‘

عمیر کا یہ بھی ماننا ہے 150 سے زائد موسیقاروں کے مل کر قومی ترانہ گانے سے اسے ایک نئی طرح کی ’فیل‘ ملی ہے۔۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ترانے کا مقصد بہت بڑے پیمانے پر ملک کے تمام طبقوں اور علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بنانا تھا۔۔۔ اور یہ ایک اتنا خوبصورت تصور ہے کہ اس سے ایک بہت مثبت پیغام ملتا ہے۔

’ریکارڈنگ کے وقت کچھ کی آنکھوں میں آنسو تو کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی‘

NationalAnthem75
‘ہم سے کچھ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔۔ جبکہ کچھ دل کھول کے ہنس رہے تھے۔۔۔ اس کمرے میں ہر طرح کے جذبات دکھ رہے تھے۔۔’

تاریخی طور پر اتنے اہم پراجیکٹ کا حصہ بننے کے بارے میں عمیر کا کہنا ہے میں اس احساسں کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ الفاظ میرے ان احساسات کی ترجمانی کا حق نہیں ادا کر سکتے جو میں نے نئے قومی ترانے کو اس کمرے میں سب کے ساتھ ریکارڈ کرواتے ہوئے محسوس کیے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم سے کچھ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے اور کچھ کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔۔ جبکہ کچھ دل کھول کے ہنس رہے تھے۔۔۔ اس کمرے میں ہر طرح کے جذبات دکھ رہے تھے۔۔‘

عمیر کہتے ہیں کہ ’دنیا کے باقی ملکوں کے برعکس ہمارا قومی ترانہ جذبات سے بھرپور ہے۔ یہ اتنی خوبصورت کمپوزیشن ہے کہ اس میں جذبات اور نوٹس اوپر نیچے چلتے ہیں۔۔۔ اور ’نوجوان موسیقار اور گلوکار کے طور پر ہم نے بڑے ہوتے ہوئے اپنے ملک کو بہت بحرانوں میں گھرے، تاریک ادوار کا سامنا کرتے دیکھا ہے۔۔۔ ہمیں بہت مشکل سے ملک میں آیا ہوا کوئی اچھا وقت یاد آتا ہے۔۔۔۔ لیکن یہ ایک چیز ہے جو ہمیں امید دلاتی ہے اور چاروں صوبوں کے لوگوں ایک جگہ لا کر ایک ساتھ جوڑتی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ میں نے خود کو ایک بہت سپیشل چیز کا حصہ سمجھا جس پر میں بہت شکر گزار ہوں۔۔ عمیر کو اس وقت کا انتظار رہے گا کہ جب ان بچے اور ان کے ساتھی نوجوان پیچھے مڑ کر تاریخ میں جھانکتے ہوئے اس ترانے میں ان کی آواز سن کر اسے پہچانیں گے۔

وہ کہتے ہیں اس ’اس وقت میرے چہرے پر حقیقی مسکراہٹ ہو گی۔‘

’ترانے کی دوبارہ کی گئی ریکارڈنگ آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی‘

Screen grab from nationalanthem75

اپنے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے معروف ریپر اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع سبی سے تعلق رکھنے والے آبد بروہی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی کہ میں اس تاریخی ریکارڈنگ کا حصہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ترانے کی دوبارہ کی گئی ریکارڈنگ آپ کے رونگٹے کھڑے کر دے گی۔’

آبد بروہی کا مزید کہنا تھا کہ ‘کیونکہ ہماری نوجوان نسل کو موسیقی سے محبت اور پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لیے یہ حکومتِ پاکستان کا ایک اچھا اقدام ہے۔’

’ہر آرٹسٹ کی آواز میں وہ سچائی محسوس کی جو آپ کی روح سے نکل کر آتی ہے‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی بسمہ عبداللہ کے لیے ایک چھت کے نیچے 150 سے زائد گلوکاروں کے ساتھ مل کر قومی ترانہ گانے کا تجربہ بہت غیر متوقع تو تھا ہی، مگر وہ اسے زندگی کا ایک بڑا روحانی تجربہ بھی قرار دیتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ قومی ترانہ گاتے ہوئے ’میں نے وہاں کھڑے ہر آرٹسٹ کی آواز میں وہ سچائی محسوس کی جو آپ کی روح سے نکل کر آتی ہے۔۔۔ وہ ایک رونگٹے کھڑے کر دینے والا تجربہ تھا۔‘

NationalAnthem75
بسمہ عبداللہ: ’کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اتنی خوش قسمت ہوں گی کہ آگے جا کر قومی ترانے کے دوبارہ ریکارڈ کرائے جانے کا حصہ بنوں گی۔۔۔ اس ریکارڈنگ کے دوارن بھی میرے رونگٹے ویسے ہی کھڑے ہوئے ہیں جیسے سکول کی اسمبلی میں ہوتے تھے‘

’نئی نسل کو ملک لیے دی گئی قربانیوں کی آگاہی اور احساس ہونا چاہیے‘

بسمہ کہتی ہیں کہ اپنے ملک کے قومی ترانے کی اہمیت، اس میں چھپی سچائی، اس ملک کے بنانے کے پیچھے ہوئی محنت، جو جانیں اور قربانیاں دی گئیں، ان سب چیزوں کے بارے میں نسل در نسل آگاہی اور احساس ہونا چاہیے اسی لیے ایسے پروجیکٹس میں نئی نسل کو زیادہ شامل کیے جانے کی ضرورت ہے۔

بسمہ بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹی تھی اور سکول کی اسمبلی میں قومی ترانہ سنتیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور ترانے کے بول اور کمپوزیشن انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتی تھیں۔۔۔۔ ’اس وقت کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اتنی خوش قسمت ہوں گی کہ آگے جا کر قومی ترانے کے دوبارہ ریکارڈ کرائے جانے کا حصہ بنوں گی۔۔۔ اس ترانے کی ریکارڈنگ کے دوارن بھی میرے رونگٹے ویسے ہی کھڑے ہوئے ہیں جیسے سکول کی اسمبلی میں ہوتے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پرانے اور نئے قومی ترانے کی روح وہی ہے۔

بسمہ خود کو بہت خوش قمست سمجھتی ہیں کہ ’100 سال، 200 سال بعد تک۔۔۔ جب تک کوئی اور نیا ترانہ نہیں بنتا، نہ جانے کب تک نسل در نسل لوگ میری آواز سنیں گے۔۔ اور میں اپنی آنے والی نسلوں کو بتا سکتی ہوں کہ دیکھو پاکستان کے قومی ترانے میں میری بھی آواز ہے۔۔۔ میں بھی اس جذبے اور جنون کا حصہ تھی۔‘

NationalAnthem75
آبد بروہی اور ساحر علی بگا

اسی بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے معروف گلوکار اور متعدد مشہور نغمے گانے والے ساحر علی بگا نے کہا کہ ‘یہ انتہائی پرجوش لمحات تھے جن میں پاکستان کے مایہ ناز گلوکار حب الوطنی کے ساتھ یہ جشن منا رہے تھے۔

‘میرے لیے یہ انتہائی اعزاز کی بات تھی اور مجھے یقین ہے کہ اس سے ہماری نئی نسل کو پاکستان کی تاریخ سے خود کو جوڑنے میں مدد ملے گی۔’

پاکستان کے پرانے قومی ترانے کی تاریخ: جب سورۃ فاتحہ کو قومی ترانہ بنانے کی تجویز پیش کی گئی

پاکستان، قومی ترانہ
وفاقی کابینہ کا وہ اجلاس میں پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کی منظوری دی گئی

13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ نشر ہوا جس کے بول حفیظ جالندھری نے لکھے تھے جبکہ دُھن احمد غلام علی چھاگلہ نے تیار کی تھی۔

قومی ترانے کی دھن اور اس کے بول تیار کرنے کا مرحلہ نہایت طویل تھا اور اس پر پاکستان بننے کے فوراً بعد سے ہی کام شروع ہو چکا تھا۔

مگر عام طور پر لوگ یہ نہیں جانتے کہ ایک موقع پر سورۃ فاتحہ کو بھی قومی ترانہ بنانے کی تجویز دی گئی تھی جو بعد میں رد کر دی گئی تھی۔

بہرحال دسمبر 1948 میں حکومت پاکستان نے ایس ایم اکرام کی نگرانی اور سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں ایک نو رکنی قومی ترانہ کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا۔

ترانہ کمیٹی کو 200 سے زیادہ نظمیں اور 63 کے لگ بھگ دھنیں موصول ہوئیں

پاکستان، قومی ترانہ
حفیظ جالندھری دھن کو اپنے ترانے سے ہم آہنگ کرواتے ہوئے

اس کمیٹی کے ارکان میں سردار عبدالرب نشتر، پیرزادہ عبدالستار، پروفیسر راج کمار چکر ورتی، چوہدری نذیر احمد خان، سید ذوالفقار علی بخاری، اے ڈی اظہر، کوی جسیم الدین، حفیظ جالندھری اور ایس ایم اکرام شامل تھے۔

قومی ترانہ کمیٹی کو ملک کے گوشے گوشے سے دھنیں اور ترانے موصول ہونا شروع ہو گئے تھے۔ حفیظ جالندھری نے ماہنامہ افکار کے حفیظ نمبر میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ‘قومی ترانے کا افسانہ’ میں تحریر کیا ہے کہ ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 200 سے زیادہ نظمیں اور 63 کے لگ بھگ دھنیں موصول ہوئیں۔

ان دھنوں اور ترانوں کا جائزہ لینے کے لیے چار جولائی 1949 کو وزیر مواصلات سردار عبدالرب نشتر کی صدارت میں کمیٹی کے چھ گھنٹے کے دورانیے پر مشتمل دو نشستیں منعقد ہوئیں جس کے بعد حکومت پاکستان نے ماہرین کی دو ذیلی کمیٹیاں مقرر کیں۔

اجلاس کے دوران کمیٹی کو قومی ترانے کی متعدد پاکستانی، ایرانی اور مغربی دھنوں کے ریکارڈ سنائے گئے جس کے بعد فیصلہ ہوا کہ ماہرین کی ذیلی کمیٹیاں وہ اصول طے کریں جن کی بنا پر قومی ترانہ کا آخری انتخاب عمل میں آئے گا۔

قومی ترانے سے متعلق ایک عرصے سے ماہرین اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ ایک قومی ترانے کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب پاکستانی ترانے میں بھی موجود ہوں، ان خصوصیات میں اس بات کے علاوہ کہ ترانہ اور دھن عام پسند اور قومی معیار پر پوری اترے، یہ بھی ضروری ہے کہ معیار، نغمہ، زبان، بحر، دھن اور موسیقیت میں مسلم قوم کی روایات کا بھی خیال رکھا جائے۔

شہنشاہِ ایران کا دورہِ پاکستان اور غلام علی چھاگلہ کی تیارہ کردہ دھن کی منظوری

پاکستان، قومی ترانہ
قومی ترانے کے دھن کی پہلی مشق جس میں پاک بحریہ کے بینڈ اور طلبہ و طالبات نے حصہ لیا، دائیں طرف سے دوسرے احمد جی چھاگلہ

ترانہ کمیٹی کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ چند ماہ بعد شہنشاہ ایران پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے۔ کمیٹی کا خیال تھا کہ اس موقعے پر پاکستان کے ترانے کی دھن ضرور بجنی چاہیے چنانچہ اس نے 21 اگست 1949 کو احمد غلام علی چھاگلہ کی تیار کردہ دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کی عارضی دھن کے طور پر منظور کرنے کا اعلان کر دیا۔

قومی ترانے کی اس دھن کو ریڈیو پاکستان میں بہرام سہراب رستم جی نے اپنے پیانو پر بجا کر ریکارڈ کروایا تھا۔ اس دھن کا دورانیہ 80 سیکنڈ تھا اور اسے بجانے میں 21 آلاتِ موسیقی اور 38 ساز استعمال ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ احمد غلام علی چھاگلہ نے انگلستان میں ٹرنٹی کالج آف میوزک سے بھی تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان سے پہلے اُنھوں نے بمبئی میں ایک فلم کمپنی اجنتا میں بطور موسیقار کام کیا اور پاکستان بننے کے بعد حکومت پاکستان نے اُنھیں قومی ترانے کی موسیقی تیار کرنے والی کمیٹی کا رکن مقرر کیا، مگر یہ دھن تیار کرنے کا اعزاز انھی کی قسمت میں لکھا تھا۔

دس اگست 1950 کو اس کمیٹی نے احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن کو پاکستان کے مستقل قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کر لیا جبکہ وفاقی کابینہ کی جانب سے سنہ 1954 میں اس دھن کو قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔

جب اس کمیٹی نے جب احمد غلام علی چھاگلہ کی دھن کو پاکستان کے قومی ترانے کی دھن کے طور پر منظور کر لیا تو اب اس دھن سے مناسبت رکھنے والے الفاظ کی تلاش کا کام شروع ہوا۔

ملک کے تمام مقتدر شعرائے کرام کو اس ترانے کے گرامو فون ریکارڈز بھی بھجوائے گئے اور ہر رات ایک مخصوص وقت پر ریڈیو پاکستان سے اس ترانے کے نشر کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ وہ اس کی دھن سے ہم آہنگ ترانہ تحریر کر سکیں۔

پانچ اگست 1954 کو کابینہ کا ایک اور اجلاس منعقد ہوا جس میں حفیظ جالندھری کے لکھے گئے ترانے کو بغیر کسی رد و بدل کے منظور کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس اجلاس میں کابینہ نے یہ فیصلہ بھی دیا کہ اس ترانے کی موجودگی میں اردو اور بنگالی کے دو قومی نغموں کی کوئی ضرورت باقی نہیں، اس لیے اس تجویز کو منسوخ سمجھا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *