قائد اعظم یونیورسٹی پرچم کشائی تقریب

قائد اعظم یونیورسٹی پرچم کشائی تقریب

قائد اعظم یونیورسٹی پرچم کشائی تقریب کے دوران وائس چانسلر قاتلانہ حملے سے کیسے بچے؟

’یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے مجھے کہا کہ پیچھے ہٹ جاؤ ورنہ میں گولی مار دوں گا۔ اس نے جیسے ہی گولی کی بات کی تو میں فوراً اس پر جھپٹا اور مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھام کر رخ آسمان کی طرف کر دیا اور پھر فائر کی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ میں نے مزید مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھام لیا، جس کے بعد میرے دیگر ساتھیوں نے اس کو پیچھے سے دبوچ لیا۔‘

یہ کہانی قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق علی نے بی بی سی اردو کو سنائی جنھوں نے پاکستان کے یوم آزادی کی صبح ملک کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پرچم کشائی کی تقریب میں شریک یونیورسٹی کے وائس چانسلر پر قاتلانہ حملہ ناکام بنایا۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار راجا قیصر کے مطابق یہ واقعہ سینٹرل لائبریری میں پرچم کشائی کی تقریب کے بعد پیش آیا، جب ایک شخص نے وائس چانسلر پر پستول تان کر تین فائر کیے۔

وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ نے بی بی سی کو اپنے اوپر ہونے والے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ آج اپنے ساتھی کی حاضر دماغی کی وجہ سے بچ گئے۔

ان کے مطابق ’ملزم 2016 سے یونیورسٹی میں کنٹریکٹ پر ملازمت کر رہا ہے مگر اس کا میرے ساتھ کبھی براہ راست واسطہ نہیں پڑا۔‘

پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے اس واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ملزم نے اپنے ابتدائی بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ وہ سات آٹھ سال سے بہت کم تنخواہ پر ملازمت کر رہا ہے مگر اسے مستقل ملازمت نہیں دی جا رہی۔

ڈاکٹر اشتیاق علی کے مطابق ’ملزم نے وائس چانسلر کی کنپٹی پر جیسے ہی پستول رکھی تو میں اس وقت دو اور ساتھیوں کے ساتھ تقریباً ایک میٹر کے فاصلے پر آگے کھڑا تھا۔ میں نے فوراً چلا کر کہا یہ تم کیا کر رہے ہو، بس اس کی زبان سے جیسے ہی گولی کے الفاظ نکلے تو پھر یکدم بغیر سوچے میں اس پر لپکا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔‘

ڈاکٹر اشتیاق علی
ڈاکٹر اشتیاق علی

’وائس چانسلر بالکل گھبرائے نہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ سب دو تین سیکنڈ کے اندر کیا اور اس میں کامیابی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وائس چانسلر بالکل گھبرائے نہیں اور انتہائی اطمینان کے ساتھ کھڑے رہے، جس سے ملزم اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

ڈاکٹر اشتیاق کے مطابق جب انھوں نے ملزم کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا تو وہ کوشش کر رہا تھا کہ کسی طریقے سے اپنا ہاتھ چھڑوا کر وائس چانسلر پر فائر کر دے۔

ان کے مطابق اس کوشش میں ملزم نے تین فائر کیے مگر خوش قسمتی سے وائس چانسلر سمیت وہاں پر موجود سب لوگ معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔

یونیورسٹی کے رجسٹرار راجا قیصر جو کہ خود بھی اس تقریب میں موجود تھے نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ملزم یونیورسٹی کا ملازم نہیں بلکہ ایک ڈیپارٹمنٹ میں انٹرن تھا۔

یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل یوسف، جو اس واقعے کے وقت وائس چانسلر کے ساتھ تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ریکارڈ پر ملزم کی کوئی ایسی درخواست نہیں ہے جس میں انھوں نے مستقل ملازمت کی بات کی ہو۔‘

قائد اعظم یونیورسٹی میں پرچم کشائی تقریب
قائد اعظم یونیورسٹی میں پرچم کشائی تقریب

‘حملے سے متلعق چند ماہ قبل بھی انٹیلیجنس رپورٹ موصول ہوئی تھی‘

ڈاکٹر سہیل یوسف کے مطابق ’وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شاہ چار برس سے یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کے عرصے میں سب سے زیادہ ملازمین کو ترقیاں دی گئیں۔‘

ان کے مطابق ’کچھ مہینے میں پہلے انٹیلیجنس سے یہ رپورٹ آئی تھی کہ وائس چانسلر پر حملہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس رپورٹ کی روشنی میں سکیورٹی سے متعلق ہم نے کچھ ضروری اقدامات اٹھائے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’وہ خطرہ کافی حد تک کم ہو گیا تھا، تاہم جو یوم آزادی کی صبح ہوا یہ بہت ہی غیر متوقع تھا۔‘

ڈاکٹر سہیل کے مطابق یہ واقعہ صبح دس بج کر آٹھ منٹ پر پیش آیا۔ ان کے مطابق سی سی ٹی وی کیمروں سے یہ پتا چلا ہے کہ ملزم دس منٹ تک وائس چانسلر کی گاڑی کی طرف ان کی آمد کا انتطار کرتا رہا۔

تاہم غیرمتوقع طور پر وائس چانسلر ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف ہو گئے۔

ان کے مطابق ملزم اس تقریب میں ویسٹ کوٹ پہنے خود شریک رہا اور تصاویر بھی بنوائیں۔ ان کے مطابق اس تقریب کے بعد ’جیسے ہی ہم آگے بڑھ رہے تھے تو ملزم پہلے ہی لائبریری کے دروازے کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔‘

ڈاکٹر سہیل یوسف کے مطابق وہ ڈاکٹر اشتیاق اور ایک سکیورٹی گارڈ کے ساتھ کچھ فاصلے پر وائس چانسلر سے آگے تھے کہ ملزم نے ڈاکٹر محمد علی شاہ کی کنپٹی پر اچانک پستول تان لیا اور کہا کہ ’میں اتنے عرصے سے یہاں پر ہوں، میری کوئی بات ہی نہیں سنی جاتی۔‘

ان کے مطابق وائس چانسلر پُرسکون رہے اور ڈاکٹر اشتیاق علی نے اس ملزم سے مکالمہ کیا اور پھر اس کا بازو پکڑ لیا۔ ان کے مطابق ’جب فائر ہوا تو اس کے بعد میں نے آگے بڑھ کر ملزم کو دبوچ لیا مگر اس عرصے میں بھی دو مزید فائر ہوئے۔‘

سیالکوٹ

ڈاکٹر سہیل کے مطابق ملزم سے امریکی ساختہ پستول بھی قبضے میں لے کر پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔ ’اب یہ پولیس کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ اتنی کم تنخواہ پر ملزم نے پستول کیسے حاصل کیا اور اس پلان میں اور کون کون شریک ہے۔‘

یونیورسٹی کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ وہ یہ بھی تفتیش کریں کہ کہیں اس پلان میں فرقہ واریت کا پہلو شامل ہے کہ نہیں۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر فیاض اکبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملزم ڈپریشن کا مریض ہے اور وہ گذشتہ سات آٹھ برس سے یونیورسٹی کا کنٹکریٹ ملازم ہے اور دس ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام کر رہا تھا۔‘

ان کے مطابق ملزم نے پولیس کو بتایا کہ مبینہ طور پر ’یونیورسٹی انتطامیہ اسے مستقل ملازمت نہیں دے رہی تھی۔‘

تاہم ان کے مطابق ابھی تفتیش جاری ہے اور پیر کی صبح ملزم کو اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *