پاکستان افغانستان میں امریکی آپریشنز کے لیے کیا مدد فراہم کر رہا ہے؟
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے ممبران سینیٹ کو تسلی دی ہے کہ امریکہ کو افغانستان کی سرزمین پر ڈرون آپریشنز کے لیے نہ تو پاکستان کی جانب سے کوئی فوجی اڈہ دیا جا رہا ہے اور نہ کوئی ایئر بیس۔
منگل کے روز فلسطین، اسرائیل تنازع پر جاری بحث کے بعد اپنے پالیسی بیان میں وزیر خارجہ نے ماضی میں امریکہ کو فراہم کیے گئے ائیربیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا سینیٹرز پر زور دیا کہ ’ماضی کو بھول جائیں۔‘
انھوں نے کہا ’یہ ایوان اور پاکستانی قوم میری گواہی یاد رکھے کہ عمران خان کی قیادت میں اس ملک میں امریکہ کے لیے کوئی فوجی اڈہ مختص نہیں ہو گا۔‘
اسی طرح گذشتہ روز پاکستانی وزارت خارجہ نے بھی پاکستان کی جانب سے امریکہ کو کوئی نیا ایئربیس دینے سے متعلق دعوؤں کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان سنہ 2001 میں ہونے والے معاہدے ’ایئر لائن آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی) کے معاہدے موجود ہیں اور دونوں ممالک ان کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
یہ وضاحت ایک ایسے وقت سامنے آئی ہے جب خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک خبر کے مطابق امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کی مدد کے لیے پاکستان نے اپنی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ نے پریس ریلیز کے ذریعے سے اپنا مؤقف بیان کر دیا ہے اور وہ اس پر مزید کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ سنہ 2001 میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ’اے ایل او سی‘ اور جی ایل او سی معاہدے کیا ہیں جس کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں؟
ان معاہدوں کے حوالے سے سابق سفارتکار ضمیر اکرم کا کہنا تھا نائن الیون کے واقعے کے بعد ان معاہدوں کی رو سے امریکہ کو پاکستان میں اپنے ائیر بیس قائم کرنے کی اجازت ملی تھی تاہم ان فضائی اڈوں کو سنہ 2011 میں ختم کر دیا گیا تھا۔
اے ایل او سی اور جی ایل او سی کیا ہیں؟
ضمیر اکرم کے مطابق نائن الیون کے بعد امریکہ کو افغانستان میں دہشت گردوں پر حملوں کے لیے فضائی اور زمینی مدد کی ضرورت تھی جس کے لیے پاکستان اور امریکہ کے درمیاں دو معاہدے ہوئے تھے۔
ان معاہدوں کے مطابق اے ایل او سی کے تحت امریکہ کو فضائی اڈے اور جی ایل او سی کے تحت زمینی راستے استعمال کرنے کی اجازت ملی تھی۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق یہ معاہدے دہشت گردی کی عالمی جنگ کے دوران ہوئے تھے اور اس دوران امریکہ بلوچستان میں خصدار کے نزدیک واشک کے علاقے میں قائم شمسی ائیربیس اور سندھ کے جیک آباد میں واقع شہباز ائیربیس کو استعمال کرتا رہا ہے۔
ان دونوں ہوائی اڈوں سے امریکہ کے طیارے اڑا کرتے تھے جبکہ شمسی ائیربیس کو امریکی ڈرون حملوں کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کے مطابق شہباز ائیربیس کو تو سنہ 2011 سے پہلے ہی بند کر دیا گیا تھا مگر شمسی ائیربیس امریکہ کی جانب سے نومبر 2011 میں مہمند ایجنسی میں ہونے والے سلالہ حملے کے بعد بند کیا گیا تھا۔
اس کے بعد امریکہ پر پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
امجد شعیب کا کہنا تھا کہ وقتی طور پر امریکہ کو افغانستان تک اپنی لاجسٹک پہنچانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی تھی تاہم بعد میں امریکہ کو زمینی راستے فراہم کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور شمسی ائیربیس کو امریکہ سے خالی کروا لیا گیا تھا۔
حالیہ خبروں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اب امریکہ کو زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی جائے مگر جنگی ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا ’اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو لیکن اگر ہوتا ہے تو پھر زمینی راستے سے ممکنہ طور پر افغانستان کی حکومت اور شہریوں کو مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔ امریکہ اپنے واپسی کے سفر میں بھی زمینی اور فضائی راستے استعمال کر سکے گا۔‘
ساؤتھ ایشن سٹریٹیجک سٹیبیلٹی انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر جنرل اور دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر ماریہ سلطان کے مطابق دہشت گردی کی جنگ میں اتحادی ہونے کے نتیجے میں شدید ترین مالی نقصان کے علاوہ پاکستان خود براہ راست دہشت گردی کا نشانہ بن چکا تھا۔
’امریکہ نے اس دوران انڈیا سے بھی تعلقات بڑھا لیے تھے جس کے بعد پاکستان نے ان دونوں معاہدوں پر نظر ثانی کی تھی۔‘
ضمیر اکرم کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ امریکہ کو پاکستان سے کسی قسم کے حملے کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
’مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان میں کوئی فضائی یا زمینی جنگی اڈے قائم نہیں کر سکے گا۔ امریکہ زمینی راستوں کو صرف اور صرف اپنی واپسی کے سفر میں استعمال کر سکے گا۔‘
امریکہ کو فضائی اڈے نہ دینے کی وجوہات
ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا کہ سنہ 2001 میں فضائی اڈے دینے کی وجوہات کچھ اور تھیں۔
’اس وقت پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی مہم کا حصہ تھا مگر اب کی صورتحال کچھ اور کہہ رہی ہے۔ کوئی بھی حکومت پارلیمان کی اجازت کے بغیر امریکہ کو ایسی اجازت نہیں دے سکتی جبکہ ایسی اجازت دینے کی صورت میں حکومتوں کو شدید عوامی رد عمل کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کے بعد اپنے فضائی اڈے قائم کرنے کے لیے روس سے الگ ہونے والی وسطی ایشیا کی ریاستوں سے رجوع کیا تھا تاہم اس کو وہاں پر روس کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کی بنا پر اجازت نہیں مل سکی۔
ڈاکٹر ماریہ سلطان کا کہنا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ وہ افغانستان سے نکل کر پاکستان میں بیٹھ کر اپنے ہتھیار استعمال کرے۔
’یعنی افغانستان کی جنگ پاکستان میں بیٹھ کر لڑی جائے مگر اس وقت پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ پاکستان کسی حد تک دہشت گردی پر قابو پا چکا ہے اور پاکستان افغانستان کی جنگ سے نکلنا چاہتا ہے۔‘
ڈاکٹر ماریہ کا کہنا تھا کہ امریکہ کے پاس نہ صرف افغانستان میں کئی فضائی اڈے ہیں بلکہ اس کے علاوہ اس کے انڈیا کے ساتھ کئی دفاعی معاہدے ہیں اور بحیرہ عرب میں بھی ان کا جنگی بیڑہ موجود ہے۔
’ان حالات کے ہوتے ہوئے نہیں لگتا کہ پاکستان بھی امریکہ کو فضائی اڈے فراہم کرے گا۔‘
امجد شعیب کے مطابق پاکستان کی جانب سے امریکہ کو ایئربیس نہ دینے کی ایک اور بڑی وجہ چین ہے۔
’پاکستان اور چین دو بہترین دوست ہیں جن کے مفادات مشترکہ ہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس میں عالمی سطح پر امریکہ کھل کر چین کی مخالفت کر رہا ہو، ایسے میں پاکستان اپنے انتہائی قریبی دوست کی خواہش کے برخلاف امریکہ کو فضائی اڈے نہیں دے سکتا۔‘
ڈاکٹر ماریہ سلطان نے بھی اسی نکتے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چین کے مقابلے میں کبھی بھی امریکہ کو ترجیح نہیں دے گا۔