گڈانی شپ بریکنگ یارڈ بلوچستان میں بحری جہاز

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ بلوچستان میں بحری جہاز

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ بلوچستان میں بحری جہاز پر مرکری ملے تیل کا شبہ، بریکنگ پر پابندی

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ماحولیات کے تحفط کے صوبائی ادارے نے گڈانی میں ایک ایسے مشتبہ بحری جہاز کی بریکنگ (بحری جہاز کے پرزے علیحدہ کرنے کا عمل) کے کام پر پابندی عائد کر دی ہے جس میں ’خطرناک مواد‘ مرکری (پارہ) ہونے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔

ادارے نے اس گودی کو سیل کر دیا ہے جہاں جہاز لنگر انداز تھا۔ حکام نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ اس بحری جہاز میں تیل کے ہمراہ مرکری (پارہ) نامی کیمیکل بھی شامل ہے، تاہم جہاز کے موجودہ مالکان نے اس کی تردید کی ہے۔

اس سے قبل بین الاقوامی سکیورٹی کے نگراں ادارے انٹرپول نے حکومت پاکستان کو ایک خط تحریر کر کے متنبہ کیا تھا کہ مرکری سے آلودہ خام تیل لے کر ایک بحری جہاز پاکستان کی طرف آ رہا ہے جس کو گڈانی میں توڑا جائے گا۔

شپ بریکنگ پلیٹ فارم نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس جہاز نے سرحد پار ’خطرناک مواد‘ لے کر سفر کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

ڈپٹی کمشنر لسبیلہ نے اس مشتبہ جہاز کے لنگر انداز ہونے کی تحقیاقت کا حکم جاری کر دیا ہے، جس میں اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں کمیٹی اس بات کا جائزہ لے گی کہ کس نے اس جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت دی اور یہ کہ محکمہ ماحولیات اور بلوچستان ڈولپمنٹ اتھارٹی نے اس گودی کو 20 روز کے بعد کیوں سیل کیا۔ یہ تحقیقات 48 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ سفارشات کے ساتھ جمع کرائے گی۔

بلوچستان کے محکمہ ماحولیات کے اہلکار عمران کاکڑ نے بدھ کی صبح گودی نمبر 60 کو سیل کیا ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’24 مئی کو وفاقی وزارت برائے ماحولیاتی تبدیلی کی طرف سے خط آیا کہ ایک بحری جہاز پاکستان آ رہا ہے جس میں مرکری کی موجودگی کا شبہ ہے۔ دوسرے روز یہ پاکستان میں داخل ہوا اور بدھ کو محکمے نے اس کی بریکنگ پر کام بند کروا کر اس گودی کو سیل کر دیا ہے۔‘

عمران کاکڑ کے مطابق ان کے محکمے کو جہاز لنگر انداز ہونے سے ایک روز قبل آگاہ کیا گیا تھا اور اُن کے محکمے نے اسی وقت اس پر کام شروع کر دیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ جہاز میں موجود سلج (خام تیل) کا نمونہ حاصل کر کے ٹیسٹنگ کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔ ’اگر اس میں مرکری کی موجودگی کی تصدیق ہوتی ہے تو شپ بریکر کمپنی کے خلاف کارروائی ہو گی کیونکہ پاکستان میں مرکری کی برآمد پر اس وقت تک پابندی ہے جب تک متعلقہ قانونی تقاضے پورے نہ کیے جائیں۔‘

ان کے مطابق یہ جہاز پاکستان کی حدود میں کیسے اور کیوں داخل ہوا، اس کا جواب متعلقہ وفاقی ادارے دے سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش اور انڈیا کے بعد پاکستان میں آمد

بین الاقوامی سکیورٹی کے نگراں ادارے انٹرپول نے حکومت پاکستان کو ایک خط تحریر کر کے متنبہ کیا تھا کہ مرکری سے آلودہ خام تیل لے کر ایک بحری جہاز پاکستان کی طرف آ رہا ہے جس کے پرزے گڈانی میں علیحدہ کیے جائیں گے۔

اس خط کے مطابق انٹرپول کو معلوم ہوا کہ تیل بردار بحری جہاز ایف ایس اورڈیئنٹ ممکنہ طور پر گڈانی کی طرف رواں دواں ہے، یہ انٹرپول کی زیر نگرانی رہا ہے اور انھیں اطلاع ہے کہ اس میں 1500 ٹن مرکری آلودہ تیل موجود ہے جسے وہ ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں۔

انٹرپول کے مطابق مئی 2020 میں اس بحری جہاز کو بنگلہ دیش میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا جہاں اس جہاز کی بریکنگ ہونا تھی۔ نومبر 2020 میں یہ ممبئی کے قریب لنگر انداز ہوا جبکہ 14 اپریل کو یہ ممبئی سے روانہ ہوا اور اس کا رُخ گڈانی کی طرف تھا۔

اس خط کی بنیاد پر حکومت پاکستان کی وزرات دفاع نے پاکستان نیول ہیڈ کواٹر، میری ٹائم افیئرز، وزارت داخلہ اور ایف آئی اے کو 22 اپریل کو اس بارے میں آگاہ کیا۔ اس کے بعد سات مئی کو دوبارہ خط لکھ کر کارروائی کی ہدایت دی گئی۔

’پہلے پتا ہوتا تو جہاز کے قریب بھی نہ جاتے‘

اس مشتبہ بحری جہاز کی خریدار کمپنی دیوان شپ بریکنگ پرائیوٹ لمیٹڈ ہے۔

گڈانی

کمپنی کے سربراہ دیوان رضوان فاروق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا پاکستان اور شپ بریکنگ میں ایک نام ہے اور وہ ’ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے قانون کی خلاف ورزی ہو۔‘

ان کے مطابق انھوں نے دو ماہ قبل یہ جہاز خرید لیا تھا۔ اس سے پہلے پاکستان کے کسی بھی ادارے نے انھیں یا شپ بریکرز کی تنظیم کو آگاہ نہیں کیا کہ یہ ایک مشتبہ جہاز ہے ’ورنہ وہ اس کے قریب بھی نہیں جاتے۔‘

مگر پاکستان آنے سے قبل بنگلہ دیش اور انڈیا نے اس کو لنگر انداز کیوں نہیں ہونے دیا؟ اس سوال کا دیوان رضوان کے پاس جواب نہیں تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس موجود کاغذات کے مطابق یہ جہاز انڈونیشیا سے آیا ہے۔ ان کے پاس کسٹمز اور وزرات ماحولیات کی کلیئرنس اور این او سی موجود ہیں۔

دیوان رضوان نے بتایا کہ ان کے پاس لیبارٹری ٹیسٹ کا نتیجہ موجود ہے جس کے مطابق سلج میں مرکری کا نتیجہ منفی ہے۔ ’صوبائی وزرات ماحولیات نے بھی ٹیسٹ کروایا ہے اس کا نتیجہ بھی آ جائے گا۔‘

جب دیوان رضوان سے پوچھا گیا کہ انٹرپول نے کیوں شبہ ظاہر کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے سنگاپور میں جب یہ جہاز گیا ہو یا کہیں اور تو اس وقت کچھ ہوا ہو۔ ’باقی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔‘

بین الاقوامی تنظیم، یونین کے خدشات

یہ بحری جہاز سنہ 1983 میں بنایا گیا تھا جو 229 میٹر طویل تھا۔ یہ مختلف ناموں کے ساتھ مختلف کمپنیوں کے زیر استعمال رہا ہے۔

یہ آخری بار انڈونیشیا میں موجود تھا اور سنہ 2018 میں اس کو ناکارہ قرار دیا گیا تھا۔ شپ بریکنگ پلیٹ فارم نامی تنظیم کے مطابق یہ جہاز بنگلہ دیش میں شپ بریکرز کو فروخت کیا گیا۔

اس میں 1000 ٹن سلوپ آئل، 500 ٹن آئل واٹر اور 60 ٹن سلج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فی کلو سلج میں 400 ملی گرام مرکری شامل ہے جو معمول سے کہیں زیادہ ہے۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس جہاز نے سرحد پار ’خطرناک مواد‘ لے کر سفر کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ تنظیم نے شپ بریکنگ سے منسلک تینوں ملکوں بنگلہ دیش، انڈیا اور پاکستان کو اپیل کی کہ وہ اس کو اپنے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں۔

شپ بریکنگ ورکرز یونین کے سربراہ بشیر محمودانی کا کہنا ہے کہ جب عالمی اداروں اور تنظیموں نے کئی ماہ قبل متنبہ کیا تھا تو یہ جہاز کیسے پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہوا اور کیسے یہاں لنگر انداز ہوا اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کئی مزدوروی کی زندگیاں داؤ پر لگ سکتی تھیں۔ ’حکام ہر بار گذشتہ حادثات کو نظر انداز کر کے وہی غلطیاں دہراتے ہیں۔‘

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ

گڈانی

بلوچستان کے ساحلی علاقے گڈانی میں سنہ 1970 سے ناکارہ بحری جہازوں کو لا کر انھیں سکریپ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔

غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی لوہے کی کل کھپت میں سے 25 فیصد یہ صنعت فراہم کرتی رہی ہے اور اس کو خصوصی مراعات بھی دی جاتی ہیں۔

ان بحری جہازوں سے لوہے اور مشینری کے علاوہ لکڑی، الیکٹرانک مصنوعات، برتن اور شو پیس بھی نکلتے ہیں جو کراچی کی شیر شاہ مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔

جہازوں کی کٹائی کا یہ کام خطرناک سمجھا جاتا ہے جس میں آگ لگنے سے لے کر لوہے کی چادروں کے ساتھ حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔

یہاں سنہ 2016 میں ایک آئل ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں 26 مزدور ہلاک اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *