پاکستانی حکومت کی تحویل میں چلنے والے اداروں

پاکستانی حکومت کی تحویل میں چلنے والے اداروں

پاکستانی حکومت کی تحویل میں چلنے والے اداروں کے مالیاتی خسارے کی وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان کی نگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے حال ہی میں حکومتی کنٹرول میں چلنے والے ایسے 20 اداروں کی فہرست پیش کی ہے، جن میں سے دس ادارے منافع بخش ہیں جبکہ دس بڑے خسارے کا شکار ہیں۔

اربوں روپے کے خسارے کا شکار ان اداروں میں پاکستان ریلوے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے)، پاکستان سٹیل مل اور بجلی بنانے والی کمپنیاں سرِفہرست ہیں، جنھیں فعال رکھنے کے لیے حکومت پاکستان کو ہر سال اربوں روپے قومی خزانے سے ادا کرنا پڑتے ہیں۔

تاہم دوسری جانب حکومتی تحویل میں ہی چلنے والے تیل و گیس اور بینکاری جیسے شعبے بھی ہیں جو سالانہ کئی سو ارب کا نفع کماتے ہیں۔

شدید خسارے میں چلنے والے ان اداروں کی نجکاری سے متعلق ماضی میں کئی حکومتیں اعلانات کرتی آئی ہیں مگر ہر مرتبہ اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت، مزدور یونینوں کی مزاحمت اور عدالتی فیصلے اس کام میں مزاحم رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سمیت پاکستان کی مالی معاونت کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی متعدد مرتبہ ایسے اداروں کی کارکردگی کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔

آئی ایم ایف نے جولائی 2023 میں پاکستان کے لیے منظور کیے جانے والے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے میں بھی خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں کی گورننس بہتر کر کے ان کی مالیاتی رسک کو کم کرنے کی سفارش کی تھی۔

مگر سوال یہ ہے کہ ایک ہی حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے چند ادارے اربوں روپے منافعے جبکہ دیگر اربوں روپے خسارے میں کیوں ہیں اور وہ کیا مشترک عوامل ہیں جو کسی حکومتی ادارے کو نفع بخش یا نقصان والا ادارہ بناتے ہیں؟

ریلوے

قیسکو، این ایچ اے اور پاکستان ریلوے: بڑے خسارے کا شکار اداروں میں کیا قدریں مشترک ہیں؟

وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے خسارے میں چلنے والے جن بڑے اداروں کی فہرست پیش کی ان میں سرفہرست کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی (قیسکو)، نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اور پاکستان ریلوے ہیں۔

قیسکو کی ویب سائٹ پر کمپنی کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق گذشتہ مالی سال میں کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی کا خسارہ 76 ارب روپے رہا ہے۔ اسی طرح مالی سال 2022 میں پاکستان ریلوے کا خسارہ 48 ارب جبکہ این ایچ اے کا خسارہ 45 ارب روپے رہا ہے۔

حکومتی تحویل میں خسارہ کرنے والے اداروں کے بارے میں جب ان اداروں کی اعلیٰ انتظامیہ اور غیر جانبدار ماہرین سے بات کی گئی ہے تو ان اداروں کےبارے میں مختلف آرا سامنے آئی ہیں۔

قیسکو کے چیف ایگزیکیٹیو عبد الکریم جمالی اس خسارے کو کمپنی کی مالی صحت کی صحیح تصویر نہیں سمجھتے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا قیسکو بلوچستان میں کام کرتی ہے جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اسی لیے اس کا تقابل کسی دوسری بجلی بنانے والی کمپنی سے کرنا ٹھیک نہیں ہے۔

انھوں نے کہا ایک فیڈر جو پاکستان کے دیگر صوبوں میں عمومی طور پر 22 کلومیٹر کے بعد لگتا ہے بلوچستان میں زیادہ رقبے کی وجہ سے 78 کلومیٹر کے بعد لگتا ہے جس کا نتیجہ زیادہ ’لائن لاسسز‘ کی صورت میں نکلتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ دیگر صوبوں کی برعکس بلوچستان میں زراعت کا شعبہ 70 فیصد بجلی استعمال کرتا ہے اور یہ بجلی سبسڈی پر فراہم کی جاتی ہے۔

اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ صوبے میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے ہو جانے کی وجہ سے اب 50 ہارس پاور بجلی ایک ٹیوب ویل کے لیے درکار ہوتی ہے جس کا ماہانہ بل ڈھائی لاکھ تک ہوتا ہے، اس رقم میں سے 65 ہزار حکومت سبسڈی کی مد میں دیتی ہے جبکہ باقی ٹیوب ویل کے مالک کو دینا ہوتے ہیں۔

’مگر نہ تو مالک وقت پر بل جمع کرواتا ہے اور نہ ہی حکومت وقت پر پیسے سبسڈی کی مد میں رقم کی ادائیگی کرتی ہے۔ حکومت جس رقم کو خسارہ بتاتی ہے درحقیقت یہ وہ رقم ہے جو ہمیں وصول کرنی ہے۔‘

پاکستان ریلوے کے ترجمان نے بی بی سی کے سوالات کے جواب میں بتایا کہ ریلوے کا کبھی بھی آپریشنل خسارہ نہیں ہوا بلکہ یہ خسارہ اس پر موجودہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن پر پڑنے والا بوجھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ریلوے میں اس وقت 65 ہزار ملازمین ہیں جبکہ دوسری جانب ادارے کو ایک لاکھ 32 ہزار ریٹائرڈ ملازمین کو ہر ماہ پینشن دینی ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا ریلوے کا خسارہ اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ دیگر سرکاری اداروں کے برعکس ریلوے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو خود پینشن دیتی ہے جب کہ دوسرے سرکاری اداروں کے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن حکومت کے خزانے سے جاتی ہے۔

کاریں

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق ستر کی دہائی کے آخر تک پاکستان ریلوے ایک منافع بخش ادارہ تھا کیونکہ یہ کارگو کے شعبے میں بہت زیادہ کام کرتا تھا تاہم اس کے بعد سارا کارگو بزنس نجی اداروں کو منتقل ہو گیا۔

ڈاکٹر بنگالی این ایچ اے کے خسارے کو بھی خسارہ نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے مطابق این ایچ اے منافع کمانے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ انھوں نے کہا ترقیاتی کاموں کے حکومتی اداروں کو اس طرح پیش نہیں کیا جا سکتا جس طرح دوسرے منافع بخش اداروں کی مالی حالت کو پیش کیا جاتا ہے۔

این ایچ اے کے نقصان میں ہونے کے بارے میں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا جو مالی خسارہ دیکھا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ این ایچ اے ایک ترقیاتی ادارہ ہے کہ جس نے ملک میں سٹرکیں اور ہائی وے بنانا ہوتی ہیں اور یہ وہ منصوبے ہوتے ہیں جن پر خرچ ہونے والی رقم کوئی خسارہ نہیں کیونکہ کسی بھی سڑک یا ہائی وے کی تعمیر پر فنڈ خرچ کیے جاتے ہیں تو انھیں ریکور نہیں کیا جا سکتا اس لیے اسے خسارہ لکھنا ٹھیک نہیں ہے۔

این ایچ اے بہرحال ایسے منصوبے بنا سکتا ہے جن کی مدد سے فنڈز اکھٹے کیے جا سکیں مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔

ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق خسارہ کرنے والے ان سارے اداروں میں ایک چیز تو یہ مشترکہ ہے کہ یہ حکومتی ادارے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ ان اداروں ہر دور حکومت میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوئیں اور وقت کے ساتھ ان اداروں کا گورننس ماڈل بہتر نہیں کیا گیا۔‘ انھوں نے پی آئی اے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک مسافر طیارے پر 600 سے 700 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے جو دنیا کی کسی بھی منافع بخش ائیرلائن کے لیے مطلوبہ عملے کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

انھوں نے کہا ان سب اداروں میں ایک یہ چیز بھی مشترک ہے کہ کسی ادارے میں کوئی احتساب اور جوابدہی کا عمل سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

 

او جی ڈی سی ایل

او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور نیشنل بینک: منافع بخش اداروں میں کیا قدریں مشترک ہیں؟

حکومتی اداروں میں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور نیشنل بینک تین سب سے زیادہ منافع کمانے والے ادارے ہیں۔

او جی ڈی سی ایل کی جانب سے ظاہر کیے گئے مالیاتی نتائج کے مطابق مالی سال 2022 میں اس ادارے کا منافع 133 ارب روپے رہا۔ اسی دورانیے میں پی پی ایل کا منافع 54 ارب روپے جبکہ نیشنل بینک کا منافع 30 ارب روپے رہا۔

ان اداروں کے منافع بخش ہونے کے بارے میں تیل و گیس کے شعبے کے ماہر اور او جی ڈی سی ایل کے سابقہ مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد میر نے بتایا کہ او جی ڈی سی ایل کے منافع بخش ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی جانب سے جو بھی تیل و گیس دریافت کیا جاتا ہے اس کی قیمت ڈالر سے منسلک ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کی دریافت کردہ گیس و تیل کی قیمت اسے ڈالروں میں ادا کی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا ملک میں ڈالر کی قیمت گذشتہ کئی برسوں سے بڑھ رہی ہے اور اس کا فائدہ او جی ڈی سی ایل کو بھی ہوتا ہے۔

انھوں نےکہا اگرچہ یہ ادارے کسی نہ کسی حد تک منافع کما رہے ہیں مگر اگر ان اداروں کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو یہ قابل رشک نہیں کیونکہ ان کی جانب سے تیل و گیس کی دریافت کے شعبے میں کوئی قابل ذکر کارکردگی نظر نہیں آتی۔

انھوں نے کہا اسی طرح پی پی ایل بھی تیل و گیس کے شعبے کا ادارہ ہے اور اس کے زیادہ منافع کے پس پردہ بھی ڈالر میں ادائیگی کا عنصر ہے۔

انھوں نے یہ تیل و گیس شعبے کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کمپنیوں کو ڈالر میں ادائیگی کی وجہ سے تو منافع ہوا لیکن ملکی سطح پر تیل و گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے نئی دریافتوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی جب کہ ملک کو اس وقت ایک توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔

نیشنل بینک کے منافع کے بارے میں مالیاتی امور کی ماہر ثنا توفیق نے کہا ملک کا بینکاری کا شعبہ کافی عرصے سے منافع بخش ہے اور نیشنل بینک بھی اس کا حصہ ہے۔ انھوں نے ملک میں سود کی بلند شرح کی وجہ سے نیشنل بینک کی انٹرسٹ انکم کافی بڑھی ہے اور اسی طرح اس کے نان انٹرسٹ انکم میں بھی کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ثنا نے بتایا کہ ملک کے دوسرے بینکوں کی طرح نیشنل بینک نے بھی ایکسچینچ ریٹ میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ سے کافی منافع کمایا جس کی وجہ ان کی فارن کرنسی اکاونٹ میں زیادہ کمائی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *