21ویں صدی کا بڑا سائنسی منصوبہ تیس برسوں میں تیار ہونے والی خلائی دوربین مشن کے لیے تیار
نجنیئرؤں نے جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ کو مدار میں بھیجنے کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا ہے۔
دس ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو فرنچ گیانا میں کورو سے اٹھارہ دسمبر کو مدار میں روانہ کیا جائے گا۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ ہبل ٹیلی سکوپ کی جگہ لے گی جسے 1990 میں ناسا نے خلا میں بھیجا تھا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ایک ٹیلی سکوپ کو خلا میں بھیجا گیا تھا۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو جسے امریکہ میں تیار کیا گیا کنٹینر سے اتار کر سیدھا کھڑا کر دیا گیا ہے اور مدار میں روانگی سے پہلے اس کے ضروری چیک کیے جا رہے ہیں۔
جمیز ویب اکیسویں صدی کا ایک بڑا سائنسی پراجیکٹ ہے۔
آریان فائیو راکٹ جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو زمین سے پندرہ لاکھ میل دور خلا میں چھوڑے گا جہاں سے وہ کائنات کے ان حصوں کی دیکھنے کی کوشش کرئے گی جہاں تک ہبل ٹیلی سکوپ نہیں پہنچ سکی ہے۔
جمیز ویب ٹیلی سکوپ کا شیشہ ہبل ٹیلی سکوپ کے مقابلے تین گنا بڑا ہو گا اور وہ انفراریڈ سے مطابقت رکھے گا۔
سائنسدانوں کو امید ہے کہ جیمز ٹیلی سکوپ خلا میں ان ستاروں کو ڈھونڈ پائے گی جو ساڑھے 13 ارب سال پہلے کائنات میں سب سے پہلے روشن ہوئے۔
جمیز ویب ٹیلی سکوپ امریکی ادارے ناسا، یورپی خلائی ادارے اور کینیڈین خلائی ادارے کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
اس کے ابتدائی خیال سے لے کر اس کی تیاری میں تین عشرے لگے ہیں۔ رواں برس اگست میں اس کو آخری بار کیلیفورنیا ریڈانڈو ساحل پر قائم نارتھروپ گرومین فیکٹری میں جوڑا گیا جس کے بعد اسے فرانسیسی گیانا روانہ کیا گیا جہاں پہنچنے میں اسے سولہ دن لگے ہیں۔
2500 کلو میٹر لمبے سفر کے دوران جیمز ویب ٹیلی سکوپ پاناما نہر سے گزری ہے۔
یورپ کی سپیس پورٹ پر ماہرین یہ جائزہ لیں گے کہ دوران سفر ٹیلی سکوپ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا ہے۔
اس کے بعد ٹیلی سکوپ میں ایندھن بھرا جائے گا اور اس آریان فائیو کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔
حالیہ ہفتوں میں فرنچ گویانا میں کارگو جہازوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جن میں ٹیلی سکوپ پر کام کرنے کے ضروری آلات کو لایا جا رہا تھا۔
رواں ہفتے آریان فائیو راکٹ دو ٹیلی کمیونیکیشن سٹیلائٹس کو خلا میں پہنچانے کے لیے روانہ ہوگا۔
جیمز ویب ٹیلی سکوپ کو لانچ کرنے کے لیے جگہ خالی کرانا ضروری ہے۔