ویب تھری کیا ہے اور یہ انٹرنیٹ کو کیسے بدل دے گا؟
آج کی دنیا میں جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے منسلک ہے، یہ سوچنا ذرا مشکل ہے کہ ماہرین انٹرنیٹ میں مکمل طور پر تبدیلی کی ضرورت کی بات کیوں کر رہے ہیں؟
مگر یہ ہر چیز کا کنیٹکٹڈ ہونا ہی ہے جس نے کئی تکنیکی ماہرین کو اس پر غور پر مجبور کیا ہے جسے وہ انٹرنیٹ کا ’نیا مرحلہ‘ کہتے ہیں۔
وہ اصرار کرتے ہیں کہ جسے ہم استعمال کرتے ہیں وہ اب بھی ’انٹرنیٹ کی دوسری جنریشن‘ ہے اور اسے زیادہ بہتر بننے کے لیے تبدیل ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق ہمیں زیادہ ‘سیمانٹک ویب‘ کی ضرورت ہے جو زیادہ مؤثر ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے ڈیٹا پر مزید کنٹرول فراہم کرتا ہے۔
ویب 3.0 کی آمد کے ساتھ ہی وہ اس کی پشین گوئی کر رہے ہیں۔ اس صنعت سے منسلک بہت سے لوگ اسے آنے والا ’انٹرنیٹ کا عظیم انقلاب‘ سمجھتے ہیں۔
ویب 3.0 مشینوں کو بڑے ڈیٹا کی خود سے تشریح کرنے کی صلاحیت دے گا۔ اس سے ہمیں دوسری چیزوں کے علاوہ کسی بھی پلیٹ فارم سے دوسرے صارفین کے ساتھ بہت زیادہ گہرائی سے بات چیت کرنے کی صلاحیت ملے گی۔
انٹرنیٹ کے اس ’نئے باب‘ میں اب ہمیں معلومات کو ذخیرہ کرنے کے لیے پیچیدہ آپریٹنگ سسٹمز یا بڑی ہارڈ ڈرائیوز کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ ہر چیز کلاؤڈ میں ہوگی اور ہر چیز بہت تیز اور قابلِ تبدیلی ہوگی۔
عام الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ویب 3.0 پر مشین انسان کے ساتھ زیادہ مؤثر طریقے سے ’تعاون‘ کریں گی۔
لیکن اس کا بنیادی فائدہ انٹرنیٹ کی ڈی سینٹرلائزیشن ہے یعنی ایک ایسا انٹرنیٹ تیار کرنا جو زیادہ مساوی اور غیر مرکزی نیٹ ورک ہو اور انٹرنیٹ کی بڑی کمپنیوں کو کمزور کرے جیسا کہ اس تصور کے حامی زور دیتے ہیں۔
سیلیکون ویلی میں اس کی بازگشت پہلے ہی سے ہے اور کئی برسوں سے اس پر کام ہو رہا ہے۔
یہ اصطلاح 2014 میں ایتھیریئم کرپٹو کرنسی کے شریک بانی گیون ووڈ نے وضع کی تھی۔
جس طرح ٹم برنرز لی کو ’انٹرنیٹ کا باپ‘ سمجھا جاتا ہے، اسی طرح ووڈ کو اکثر اس کے شریک بانی اور براڈکاسٹر ہونے کی وجہ سے ’ایتھیرئیم کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔
ایتھیریئم دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا بلاک چین پروٹوکول ہے۔ اور یہ ٹیکنالوجی ویب 3.0 کی بنیاد ہے۔
اوپن سورس پروجیکٹ پولکا ڈاٹ کے خالق ووڈ نے اس خیال سے اپنے کام کا آغاز کیا کہ ’انٹرنیٹ کو نئی شکل دینا‘ ضروری ہے اور اس کے لیے ایک مخصوص پروٹوکول کے ساتھ ایک نیا ڈھانچہ بنایا جائے جس سے انٹرنیٹ ڈی سنٹرلائزڈ ہوجائے۔
ووڈ ایک برطانوی سافٹ ویئر انجینیئر ہیں۔ اپنے ہدف کے لیے انھوں نے ویب 3.0 فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تاکہ ان تحقیقی اور ترقیاتی ٹیموں کو فنڈ کیا جا سکے ویب 3.0 کی بنیادیں بنا رہی ہیں اور ’ڈی سینٹرلائزڈ ویب‘ کے لیے برلن میں واقع بلاک چین انفراسٹرکچر کمپنی، پیریٹی ٹیکنالوجیز بنائی۔
لیکن ڈی سینٹرلائزڈ انٹرنیٹ کا کیا مطلب ہے؟
پیریٹی ٹیکنالوجیز کی ڈائریکٹر آف کمیونیکیشن ارسلا او کیونگٹن کہتی ہیں کہ ‘انٹرنیٹ شروع میں ایک عام اور ڈی سینٹرلائزڈ پروٹوکول تھا۔ یہ 90 کی دہائی میں ان بڑی ٹیکنالوجیز کے ساتھ زیادہ ڈی سینٹرلائزڈ ہونا شروع ہوا۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ویب 3.0 کے ساتھ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کو اپنے اصل طریقے پر لوٹایا جائے۔ انٹرنیٹ کیا تھا، یہی کہ کوئی بھی اس کمیونیکیشن ٹول کو کافی حد تک کنٹرول نہیں کرتا تھا جو آج ہوتا ہے۔‘
ویب 3.0 کی ساخت کا ایک اہم حصہ بلاک چین ٹیکنالوجی ہے، جو ’بلاکس‘ بنانے اور ڈیٹا چین بنانے کی اجازت دیتی ہے، اور جسے ہم بنیادی طور پر کرپٹو کرنسیوں سے جانتے ہیں۔
اگر ویب 1.0 (ویب 1) ہائپر لنکس پر مبنی تھا اور ویب 2.0 (ویب 2) سوشل نیٹ ورکس پر ایسا کرتا ہے؛ ویب 3.0 بلاک چین ٹیکنالوجی پر مبنی ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں کھلے ذہن سے سوچنا چاہیے کیونکہ بلاک چین ایک کرپٹو کرنسی سے کہیں زیادہ ہے۔ ویب 3.0 ٹوکن کی قیمت سے کہیں زیادہ دلچسپ ہے۔‘
درحقیقت، وہ عناصر جو ویب 3.0 کو ممکن بناتے ہیں وہ پچھلے چند سالوں میں تیار کیے گئے ہیں اور ایک طرح سے یہ ایک حقیقت بن چکا ہے۔
لیکن اس کی ٹیکنالوجی کو عام لوگوں نے ابھی تک ضم یا استعمال نہیں کیا ہے۔
‘ایک تیز، محفوظ اور زیادہ کھلا ویب‘
کولن ایورن، پانچ سالوں سے ویب 3.0 تیار کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ فائل کوائن اور آئی پی ایف ایس کے سسٹمز کے تحت چلتا ہے۔ یہ دونوں پروٹوکول ’پروٹوکول لیبز‘ نامی کمپنی کے ذریعہ بنائے گئے ہیں، جو کہ سان فرانسسکو، کیلیفورنیا میں واقع ایک بلاک چین ٹیکنالوجی کمپنی ہے، جس کا مقصد ’ویب کو ڈی سینٹرلائزڈ بنانا‘ بھی ہے۔
‘میرا زیادہ تر کام ویب 2.0 سے ویب 3.0 میں منتقلی کو تیز کرنا ہے۔‘
‘ہمارا مقصد ویب کو تیز تر، زیادہ محفوظ، حملوں کے خلاف زیادہ مضبوط اور زیادہ کھلا بنانے کے لیے اسے اپ ڈیٹ کرنا ہے۔‘
یہ سمجھنے کے لیے کہ ویب 3.0 کس طرح کام کرے گا اور یہ کس حد تک تیز اور زیادہ لچکدار ہو گا، ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ انٹرنیٹ کیسے بنایا گیا تھا اور سالوں میں اس میں کیسے تبدیلی آئی ہے۔
ایورن کہتے ہیں کہ ‘اگر ہم انٹرنیٹ کے ابتدائی دنوں پر نظر ڈالیں، یعنی 1960 اور 1970 کی دہائیوں پر، تو ہم دیکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ خود ویب سے پہلے بھی موجود تھا: یہ کیبلز اور ایک نیٹ ورک کا امتزاج تھا جو ’چیزوں کو جوڑتا تھا۔‘
‘اصل میں، یہ معلومات کی منتقلی کے لیے ارپانیٹ نامی ایک سرکاری منصوبہ تھا۔‘
ایورن کہتے ہیں کہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں ویب 1.0 نے آغاز کیا۔ یاہو جیسی ویب سائٹس سٹیٹک ویب پیجز تھے جو ہائپر لنکس پر انحصار کرتی تھیں۔
2000 کی دہائی میں ویب 2.0 آیا۔ ایورن کا کہنا ہے کہ اہم بہتری یہ ہے کہ ‘یہ ہمیں انٹرایکٹو پڑھنے اور لکھنے کی اجازت دیتا ہے، یہ کہ موبائل اور ویب ایپلیکیشنز ’ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں‘ اور ہم ان کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں۔‘
‘ویب 3.0 کی ترقی صارفین کے اعتماد میں اضافہ کرتی ہے کیونکہ شہری آزادیوں کو اس کے بنیادی ڈھانچے میں ضم کیا جائے گا۔‘
وہ ویب 2.0 کی ’سینٹرلائزیشن‘ پر بھی تنقید کرتے ہیں۔
ایورن بتاتے ہیں کہ ’کچھ کلاؤڈ سٹوریج سروس فراہم کرنے والے بینک اور بڑی حکومتیں تمام طاقت جمع کر لیتے ہیں اور ڈیٹا کو کنٹرول اور ہیرا پھیری کر سکتے ہیں جیسا کہ وہ پیسہ کمانے اور اپنے مفادات کو پروان چڑھانے کے لیے چاہتے ہیں۔‘
’ہم اس بات پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ یہ جاندار ادارے ہمارے ڈیٹا میں ہیرا پھیری نہیں کر رہے ہیں۔‘
پھر ویب 3.0 کے ساتھ کیا تبدیلیاں آتی ہیں؟
ایورن کہتے ہیں کہ یہ ’ویب کے پورے ڈھانچے کو تبدیل کردے گا۔‘
مثال کے طور پر ماہرین کا کہنا ہے کہ ویب 3.0 ‘صارفین کو دنیا بھر میں ہزاروں ڈیٹا سینٹرز تک رسائی حاصل کرنے کی اجازت دے گا اور وہ یہ انتخاب کر سکیں گے کہ کون اپنا ڈیٹا رکھتا ہے اور کیسے۔‘
ایمازون، گوگل اور مائیکروسافٹ فی الحال کلاؤڈ ڈیٹا سٹوریج کے لیے مارکیٹ کی قیادت کر رہے ہیں۔
ایمازون کمپنی اپنی ذیلی کمپنی ایمازون ویب سروسز (اے ڈبلیو ایس) کے ساتھ مل کر اس مارکیٹ کا 41.5 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ اس کے بعد مائیکروسافٹ کے پاس 29.4 فیصد اور گوگل کے پاس تین فیصد ہے۔
سنرجی رپورٹ گروپ کی رپورٹ کے مطابق یہ تین کمپنیاں عالمی سطح پر 600 بڑے ڈیٹا سینٹرز میں سے نصف کی مالک ہیں۔
دوسری طرف ایورن وضاحت کرتے ہیں کہ ویب 3.0 میں ڈیٹا کی تصدیق اور جعلی خبروں جیسے مسائل کو ختم کرنے کے لیے ‘واضح طریقہ کار‘ ہوگا۔
جہاں تک مزید تکنیکی حصے کا تعلق ہے، پروٹوکول کا سوال ہے ’تو وہ کہتے ہیں کہ ‘جب آپ گوگل یا کسی دوسرے براؤزر کو کھولتے ہیں اور کسی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو آپ ایچ ٹی ٹی پی پروٹوکول استعمال کرتے ہیں؛ آپ اس پروٹوکول کو ’بتاتے ہیں‘ کہ کسی مخصوص مقام پر فائل تلاش کریں۔‘
’یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کتاب کو ڈھونڈنے کے لیے آپ کو نیویارک کی پبلک لائبریری کے ذریعے زبردستی جانا پڑے۔ اگر وہ لائبریری منہدم ہو جاتی ہے یا حکومت نے حفاظتی گارڈ لگا دیا ہے، تو آپ مزید مواد تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ ایک مرکزی کنٹرول کے تحت کام کرنے والا ڈھانچہ ہے۔‘
‘ویب 3.0 کی دنیا میں کتاب کی ہر کاپی کو ایک خفیہ الگورتھم میں کمپریس کیا جائے گا جس میں ہیرا پھیری نہیں کی جا سکتی۔ اور ہم نیٹ ورک سے منسلک ہونے پر بھی اسے شیئر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘
یہ پیئر ٹو پیئر (P2P) ٹیکنالوجی ہے جو متعدد صارفین کے درمیان براہ راست پیئر ٹو پیئر وسائل کا تبادلہ کرنے کی اجازت دیتی ہے، جو ایورن کے مطابق، موجودہ ویب 2.0 یا ایچ ٹی ٹی پی پروٹوکول کے ساتھ ممکن نہیں ہے۔
ارسلا وضاحت کرتی ہیں کہ ویب 3.0 کی بلاک چین ٹیکنالوجی بہت محفوظ ہے اور یہ کہ ‘اب تک 10 سال سے زیادہ عرصے میں کوئی بھی ہیک نہیں کر سکا ہے۔‘
‘سیکیورٹی کا مسئلہ اس دور میں بہت اہم ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں کیونکہ ہماری زندگیاں اور ہمارا ڈیٹا تیزی سے انٹرنیٹ پر تبدیل ہو رہا ہے۔‘
ایک سست عمل
ان تبدیلیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ انٹرنیٹ صارفین کو ان تک رسائی حاصل کرنے والی معلومات اور ان کے اشتراک کردہ ڈیٹا پر زیادہ طاقت ملے گی اور بالآخر، ایک آزاد اور زیادہ مساوی انٹرنیٹ بنائیں گے۔
لیکن یہ وعدہ کہ ویب 3.0 گوگل یا فیس بک جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی بالادستی کو ختم کرنے کے قابل ہو جائے گا، شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
کچھ آوازیں ہیں، جیسے ایلون مسک، جنھوں نے کچھ دن پہلے ٹویٹر پر ایک طنزیہ تبصرہ پوسٹ کیا تھا: ’کیا کسی نے ویب 3.0 دیکھا ہے؟ میں اسے نہیں ڈھونڈ سکتا۔‘
یا ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی کا جنھوں نے کہا کہ ویب 3.0 ’ایک مرکزی ادارہ ہے، لیکن ایک مختلف لیبل کے ساتھ۔‘
لیکن کولن ایورن پھر بھی پرجوش ہیں۔
’ویب 1.0 اور ویب 2.0 میں منتقلی ایک بہت بڑی تبدیلی تھی جس میں کئی سال لگے۔ ویب 2.0 سے ویب 3.0 میں منتقلی ناگزیر ہے، لیکن یہ راتوں رات نہیں بلکہ کئی سالوں میں ہو گا۔ یہ اب بھی اپنے پہلے قدم اٹھا رہا ہے۔‘
’اس میں شامل ڈویلپرز کی تعداد واضح اشارے ہیں کہ مستقبل کا انٹرنیٹ بنانے والے ویب 3.0 پر شرط لگا رہے ہیں۔‘