سؤر کا دل کسی انسان کو لگانے سے متعلق مذہبی، طبی

سؤر کا دل کسی انسان کو لگانے سے متعلق مذہبی، طبی

سؤر کا دل کسی انسان کو لگانے سے متعلق مذہبی، طبی اور حقوق کی بحث

ایک امریکی شخص دنیا کے پہلے ایسے شخص بن گئے ہیں جنھیں سؤر کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دل لگایا گیا ہے۔

ستاون سالہ ڈیوڈ بینیٹ کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ اتنے صحت مند تو نہیں جتنا انسانی دل حاصل کر کے ہو سکتے تھے مگر اب سات گھنٹے طویل تجرباتی علاج کے تین دن بعد بھی وہ کافی بہتر محسوس کر رہے ہیں۔

اس سرجری کو نہایت اہم طبی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے ٹرانسپلانٹ کے لیے انتظار کا وقت کم ہو جائے گا اور دنیا بھر میں مریضوں کی زندگیاں بدل جائیں گی۔ مگر کچھ لوگ ایسے علاج کے اخلاقی جواز پر بھی سوال کر رہے ہیں۔

تنقید کرنے والے ایسے ٹرانسپلانٹس سے مریضوں کے تحفظ، جانوروں کے حقوق اور مذہبی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

طبی اثرات

یہ ایک تجرباتی سرجری تھی اور اس میں مریض کے لیے خطرہ بھی ہو سکتا ہے۔ انسانوں کے عطیہ کردہ وہ اعضا جو وصول کنندہ کے جسم سے میچ کر چکے ہوتے ہیں، وہ بھی کبھی کبھی جسم مسترد کر دیتا ہے اور جانوروں سے حاصل کردہ اعضا میں یہ خطرہ زیادہ ہے۔

ڈاکٹر کئی دہائیوں سے زینوٹرانسپلانٹیشن نامی اس تکنیک کے ذریعے جانوروں کے اعضا انسانوں کو لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ملی جلی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

سنہ 1984 میں کیلیفورنیا کے ڈاکٹروں نے ایک شیر خوار بچی کو لنگور کا دل لگایا تھا مگر اس کی 21 دن کے بعد موت ہو گئی تھی۔

لیکن اس طرح کے علاج میں موجود خطرے کے باوجود ماہرینِ طبی اخلاقیات کا کہنا ہے کہ اگر مریض کو ان خطرات کا علم ہو تو یہ علاج ہونے چاہییں۔

یونیورسٹی آف آکسفرڈ کے پروفیسر جولیئن سیوولیسکو کا کہنا ہے کہ ‘آپ کو کبھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ کسی شخص کی علاج کے فوراً بعد افسوس ناک طور پر موت ہو جائے گی لیکن آپ خطرہ اٹھائے بغیر آگے بھی نہیں بڑھ سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر مذکورہ فرد (اس سے منسلک) تمام خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس طرح کے منفرد تجربات کا حصہ بننے کی اجازت ہونی چاہیے۔’

پروفیسر سیوولیسکو کہتے ہیں کہ یہ اہم ہے کہ اُنھیں تمام دستیاب آپشنز کے بارے میں بتایا جائے جن میں مصنوعی دل یا انسانی دل شامل ہیں۔

ڈیوڈ بینیٹ کے کیس پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کا جواز موجود تھا کیونکہ اس کے علاوہ اُن کے پاس علاج کے دیگر آپشنز موجود نہیں تھے اور یہ کہ اس کے بغیر ان کی موت ہو جاتی۔

دل
ڈیوڈ بینیٹ (دائیں) کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ سرجری کے بعد بہتر محسوس کر رہے ہیں

پروفیسر سیوولیسکو کا کہنا ہے کہ کسی بھی سرجری سے قبل اس کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے ‘بافتوں کی سخت ترین ٹیسٹنگ اور کسی جانور پر ٹیسٹنگ’ کی جانی چاہیے۔

ڈیوڈ بینیٹ کا ٹرانسپلانٹ کسی کلینیکل آزمائش کے طور پر نہیں تھا جو کہ تجرباتی علاج کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُنھیں جو دوائیں دی گئی تھیں، اُنھیں اب تک انسانوں کے علاوہ موجود حیواناتِ رئیسہ یعنی بندروں، لنگوروں یا بن مانسوں میں نہیں آزمایا گیا ہے۔

مگر میری لینڈ سکول آف میڈیسن کی ڈاکٹر کرسٹین لاؤ جو ڈیوڈ بینیٹ کے علاج کی منصوبہ بندی میں شامل تھیں، اُن کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کی تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔

اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم نے یہ کام لیبارٹری میں بندروں پر کئی دہائیوں تک کیا ہے اور اس نقطے تک پہنچنے کی کوشش کی جہاں یہ علاج کسی انسان کو فراہم کرنا محفوظ ہو۔’

جانوروں کے حقوق

اس علاج نے انسانوں میں اعضا کی منتقلی کے لیے سؤروں کے استعمال پر ایک مرتبہ پھر بحث چھیڑ دی ہے اور انسانوں کے حقوق کے کئی گروہ اس کے مخالف ہیں۔

پیپل فار ایتھیکل ٹریٹمنٹ آف اینیملز (پیٹا) نامی تنظیم نے ڈیوڈ بینیٹ کو سؤر کا دل لگانے کو ‘غیر اخلاقی، خطرناک، اور وسائل کا بے تحاشہ زیاں’ قرار دیا ہے۔

پیٹا کا کہنا ہے کہ ‘جانور اوزاروں کی کوئی دکان نہیں جنھیں لوٹ لیا جائے، بلکہ یہ پیچیدہ اور ذہین جاندار ہوتے ہیں۔’

جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کے جینز میں تبدیلی کر کے اُنھیں انسانوں کے قریب لانا غلط ہے۔ واضح رہے کہ جس سؤر کا دل ڈیوڈ بینیٹ کو لگایا گیا، اس کے 10 جینز میں تبدیلی کی گئی تھی تاکہ ڈیوڈ کا جسم اس دل کو مسترد نہ کر دے۔

Presentational white space

آپریشن کی صبح سؤر کا دل نکال لیا گیا تھا۔

جانوروں کے حقوق کی ایک برطانوی تنظیم اینیمل ایڈ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ تنظیم ‘ہر حال میں’ جانوروں کے جینز میں تبدیلی کرنے یا زینوٹرانسپلانٹس کے خلاف ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ ‘جانوروں کو جینے کا حق ہے، اس درد اور صدمے کے بغیر جو جینیاتی تبدیلی سے اُنھیں پہنچتا ہے، اور اس کے بعد اُنھیں مار کر اور ان کے اعضا حاصل کر لیے جاتے ہیں۔’

آکسفرڈ یونیورسٹی میں حیاتیاتی اخلاقیات کی فیلو ڈاکٹر کیٹرین ڈیوولڈر کہتی ہیں کہ ‘ہمیں جینیاتی تبدیلیوں والے سؤروں کے اعضا صرف تب استعمال کرنے چاہییں جب ہم ‘یقینی بنا سکیں کہ اُنھیں غیر ضروری نقصان نہیں پہنچے گا۔’

وہ کہتی ہیں کہ ‘گوشت کے حصول کے لیے سؤروں کا استعمال جان بچانے کے لیے اُن کے استعمال سے کہیں زیادہ پریشان کُن ہے لیکن یہاں بھی جانوروں کی بہبود کو نظرانداز کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔’

Pig file photo
سؤروں میں جینیاتی تبدیلی کر کے اُنھیں اعضا کے حصول کے لیے پروان چڑھایا جاتا ہے

مذہب

اس کے علاوہ اُن لوگوں کے لیے بھی پریشانی ہو سکتی ہے جنھیں جانوروں سے اعضا حاصل کرنے میں مذہبی پابندیوں کا سامنا ہو گا۔

سؤروں کو اس لیے منتخب کیا جاتا ہے کیونکہ ان کے اعضا کا سائز انسانی اعضا کے قریب ہوتا ہے اور سؤروں کی افزائش اور پرورش کرنا آسان ہے۔

مگر سؤروں کے حوالے سے سخت پابندیوں کے حامل مذاہب یہودیت اور اسلام کے ماننے والوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ویسے تو یہودی مذہبی قانون میں سؤروں کی پرورش اور اُنھیں کھانے پر پابندی ہے مگر لندن کے ایک سینیئر ربی ڈاکٹر موشے فریڈمین کا کہنا ہے کہ سؤر سے دل کا حصول ‘یہودی ضوابطِ خوراک کی کسی بھی طرح خلاف ورزی نہیں ہے۔’

ڈاکٹر موشے فریڈمین برطانوی محکمہ صحت کے اخلاقی مشاورتی گروپ (ایم ای اے جی) کے بورڈ میں بھی ہیں۔

اُنھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘چونکہ یہودی قانون میں بنیادی اہمیت انسانی جان بچانے کی ہے اس لیے اگر جانور سے اعضا کا حصول کسی انسان کو جینے کا بہترین امکان اور مستقبل میں بہترین معیارِ زندگی فراہم کر سکتا ہے تو کسی یہودی مریض پر کسی جانور سے عضو کا حصول لازم ہو جائے گا۔’

سور

مصر کے دارالافتا نے اپنے ایک فتوے میں کہا ہے کہ اگر ‘مریض کی زندگی ختم ہونے، اس کے کسی عضو کی ناکامی، مرض کے پھیلنے اور شدید تر ہونے، یا جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو’ تو سؤر کے دل کے والو انسان کو لگائے جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب پروفیسر سیوولیسکو کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص مذہبی یا اخلاقی بنیادوں پر جانور سے اعضا کی وصولی سے انکار بھی کر دے، تب بھی اُنھیں انسانوں سے اعضا کے حصول کے لیے انتظار کی فہرست میں کم ترجیح نہیں دی جانی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘کچھ لوگ کہیں گے کہ آپ کو ایک مرتبہ ٹرانسپلانٹ کا موقع ملا تھا، اب آپ فہرست میں نیچے جائیں، مگر کچھ لوگ کہیں گے کہ آپ کا بھی اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ دوسروں کا۔’

پروفیسر سیوولیسکو کے مطابق ‘یہ وہ مؤقف ہیں جن کے ساتھ ہمیں مفاہمت کرنی پڑے گی۔’

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *