وفاق میں حکمراں جماعت کا فیصلہ کرنے والا شہر کراچی

وفاق میں حکمراں جماعت کا فیصلہ کرنے والا شہر کراچی

وفاق میں حکمراں جماعت کا فیصلہ کرنے والا شہر کراچی 8 فروری کو کس پارٹی کو ’کِنگ میکر‘ بنائے گا؟

پاکستان میں جب بھی کوئی سیاسی جماعت عام انتخابات کے نتیجے میں ملنے والی عوامی پذیرائی کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کرتی ہے تو اس میں قومی اسمبلی میں 22 نشستیں رکھنے والے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا حصہ ضرور ہوتا ہے۔

ماضی میں ہر منتخب حکومت کی یہ خواہش ضرور رہی ہے کہ اس اہم شہر کی ڈور اُن ہی کے ہاتھ میں رہے۔

کراچی ’کِنگ میکر‘ شہر کیوں ہے؟

کراچی، ایم کیو ایم، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، انتخابات، جماعت اسلامی

کراچی کو پاکستان کا معاشی حب قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جس میں دو بندرگاہیں ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی اسمبلی کی 22 نشستیں رکھنے والے اس شہر کی سیاسی اہمیت کتنی ہے؟

شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستیں بلوچستان میں قومی اسمبلی کی مجموعی نشستوں سے بھی زیادہ اور خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کی کُل نشستوں کے لگ بھگ نصف حصے کے برابر ہیں، اسی وجہ سے اس کی سیاسی حیثیت ملک کے کسی بھی دوسرے شہر سے زیادہ ہے۔

ہاورڈ یونیورسٹی سے منسلک اسٹسنٹ پروفیسر مشعل ملک کا ماننا ہے کہ کراچی ملک کا سب سے بڑا ملک ہے اور یہاں جو جماعت اکثریتی نشستیں جیتتی ہے اُسے اتحادی حکومتوں میں خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کو پاکستانی سیاست میں ایک لمبے عرصے تک ’کِنگ میکر پارٹی‘ کہا جاتا رہا ہے۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر فرحان صدیقی بھی مشعل ملک سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو بھی جماعت ماضی میں اس شہر میں قومی اسمبلی کی 16 یا 17 نشستیں جیت جاتی تھی اس کا قومی سیاست میں کردار بڑھ جاتا تھا۔

اُن کے مطابق یہ رجحان 1990 کی دہائی سے نظر آتا ہے، جب کوئی مرکزی دھارے کی بڑی سیاسی جماعت سادہ اکثریت نہیں لے پاتی تھی تو اسے ایم کیو ایم کی درجن بھر سے زیادہ نشستوں کی مدد میسر رہتی تھی۔

مگر گذشتہ عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کی شکل میں ایک نئی شہری جماعت کے آنے سے صورتحال تھوڑی مختلف ہوئی ہے۔

کیا پاکستان تحریک انصاف کی کراچی میں برتری برقرار رہے گی؟

کراچی، ایم کیو ایم، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، انتخابات، جماعت اسلامی
تحریک انصاف نے گذشتہ عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی

کراچی میں اتوار کو پاکستان تحریک انصاف نے شہر کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالیں۔ ایک ایسی ہی ریلی کے شرکا اور پولیس میں تین تلوار کے مقام پر تصادم ہو گیا۔

یہ شہر کا وہی علاقے ہے جہاں سے 2013 کے انتخابات کے نتائج پر تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کے خلاف دھرنا دیا تھا اور بالآخر این اے 250 سے موجودہ صدر عارف علوی کامیاب امیدوار قرار پائے تھے۔

سنہ 2013 کے انتخابات میں یہ وہ واحد قومی اسمبلی کی نشست تھی جس پر کراچی میں تحریکِ انصاف کو کامیاب ملی تھی۔

تاہم 2018 میں تحریک انصاف کو اس شہر سے ملنے والی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 14 ہو گئی جبکہ عمران خان کی جماعت کو 21 صوبائی نشستوں پر بھی کامیابی حاصل ہوئی۔

موجودہ حالات میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا 2024 کے انتخابات میں تحریک انصاف یہ برتری برقرار رکھی گی؟

گذشتہ سال نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کراچی میں بھی احتجاج کیا گیا تھا جس کے بعد سے کئی سرگرم رہنما پارٹی چھوڑ گئے یا پھر انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

تصویر
تحریک انصاف کے کارکنوں کے گذشتہ اتوار میں کراچی شہر میں ریلیاں نکالنے کی کوشش کی تھی جس پر پولیس اور سیاسی کارکنوں میں ہنگامہ آرائی ہوئی تھی

تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے فردوس شمیم نقوی گذشتہ عام انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد سندھ اسمبلی کے رکن رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جنھیں نو مئی کے واقعات کے تناظر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

کچھ عرصے قبل ہی ضمانت پر رہائی پانے والے فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ اُن کی جماعت کراچی کی 22 قومی اور 46 صوبائی حلقوں پر اپنے آزاد امیدواروں کو سپورٹ کر رہی ہے۔

بقول ان کے اس وقت بھی تحریک انصاف ایک مقبول جماعت ہے کیونکہ عوامی سروے ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت اب بھی 60 فیصد کی سطح پر ہے۔

تاہم اس ضمن میں اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ ’انتخابات میں دھاندلی کرنے کے تین مراحل ہوتے ہیں: ایک انتخابات سے قبل دھاندلی ہے جس کا ہم مقابلہ کر رہے ہیں۔ دوسرا انتخابات کے دن کی دھاندلی ہے یعنی کون کیا حربے استعمال کرے گا اس کی پیش گوئی فی الحال نہیں کی جا سکتی۔ تیسرا ووٹنگ کے بعد کی دھاندلی جس میں کبھی آر ٹی ایس سسٹم بیٹھنے کی بات ہوتی ہے تو کبھی ریٹرنگ افسران پر گڑبڑ کرنے کا الزام لگتا ہے۔‘

فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ ’اگر آزادنہ، غیر جانبدانہ اور منصفانہ الیکشن ہوتا ہے تو 2018 سے بھی زیادہ نشستیں پی ٹی آئی کو مل سکتی ہیں۔‘

تجزیہ کار اور سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کو عوامی مقبولیت تو حاصل ہے لیکن ایسے بہت سے عوامل ہیں جو کہ اس جماعت کی جیت میں رُکاوٹ بن سکتے ہیں۔

بقول مظہر عباس تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے پاس نہ تو اپنا انتخابی نشان ہے، نہ ہی پارٹی کے سربراہ عمران خان فیلڈ میں موجود ہیں اور نہ ہی اس پارٹی کو الیکشن مہم چلانے کی ویسی اجازت ہے جیسے دیگر سیاسی جماعتوں کو میسر ہے۔

’پی ٹی آئی کو صرف ایک ہی صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ اگر انتخابات کے دن ٹرن آؤٹ 60 سے 65 فیصد ہو، بصورت دیگر کراچی میں اس جماعت کی واپسی ممکن نہیں نظر آتی۔‘

اگر کراچی شہر کا جائزہ لیا جائے تو یہا دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی تو انتخابی مہم تو زور و شور سے جاری ہے لیکن تحریک انصاف کی سرگرمیاں انتہائی محدود ہیں۔

تحریک انصاف کے سینیئر رہنما فردوس شمیم نقوی کہتے ہیں کہ ووٹر سے رابطے کے لیے وہ ڈیجیٹل انداز میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ’ہم اپنی ووٹنگ پرچی، امیدوار کا نام و نشان واٹس ایپ پر اپنے ووٹرز کو بھیج دیں گے۔ اس طریقے سے ووٹر کو پتا چل جائے گا کہ کون ہمارا امیدوار ہے۔‘

ہاورڈ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر مشعل ملک کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو دستیاب عوامی سپورٹ 8 فروری کو ووٹ کی صورت اختیار کرے گی یا نہیں یہ ایک اہم سوال ہے اور اس کا جواب پولنگ کے دن ہی مل پائے گا۔

کیا ایم کیو ایم دوبارہ ’کِنگ میکر جماعت‘ بن سکتی ہے؟

تصویر
الطاف حسین کی غیرموجودگی میں 2018 میں ایم کیو ایم کی کراچی میں نشستوں کی تعداد کم ہو کر سات رہ گئی تھی

اس وقت ایم کیوایم کے بڑے دھڑے بشمول پی ایس پی، بہادر آباد اور پی آئی بی گروپ مل کر الیکشن لڑیں گے۔

جماعت کے رہنما امین الحق کہتے ہیں کہ اس انضمام کے بعد عوام اور کارکنوں میں جوش و خروش ہے اور انھیں امید ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی 22 میں سے 16 یا 17 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

یاد رہے کہ ایم کو ایم نے 1988 کے انتخابات میں کراچی کی 11 نشستوں میں سے 9 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں اس جماعت کی نشستوں میں بتدریج اضافہ ہی ہوتا رہا۔الطاف حسین کی قیادت میں 2002 میں ایم کیو ایم نے 20 نشستوں میں سے 12 جبکہ 2008 اور 2013 کے انتخابات میں 20 میں سے 17 نشستیں حاصل کی تھیں۔

الطاف حسین کی غیرموجودگی میں 2018 میں اس جماعت کی نشستوں کی تعداد کم ہو کر سات رہ گئی تھی۔

’پاکستان میں لسانی سیاست‘ نامی کتاب کے مصنف اور قائداعظم یونیورسٹی کے پروفیسر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ کراچی کا مینڈیٹ اب کافی تقیسم ہو چکا ہے اور ایم کیو ایم کی وہ طاقت اور قوت نظر نہیں آ رہی ہے جو گذشتہ دہائی میں ہوا کرتی تھی۔

’تنظیمی بحران بُری طرح سے سامنے آیا ہے۔ دوسرا قیادت کا بھی فقدان ہے۔ جو کرشماتی شخصیات کی سیاست نظر آتی ہے ایم کیو ایم اس کے فقدان کا بھی شکار ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کی وہ فورس اور طاقت اب نظر نہیں آتی۔‘

فرحان صدیقی کے مطابق سنہ 2012 سے ہی کراچی کے لوگوں نے سوال کرنا شروع کر دیا تھا کہ ایک طرف یہ بیانیہ ہے کہ امتیازی سلوک ہے، مہاجروں پر ظلم ہو رہا ہے اور دوسری طرف ایم کیو ایم اقتدار میں بھی شریک ہے۔

ان کے مطابق عوام کو لگا کہ ایم کیو ایم کراچی میں ڈلیور نہیں کر سکی اور اس کے نتیجے میں 2013 اور 2018 میں یہ ہی نظر آیا کہ لوگ تحریک انصاف کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

تصویر
ایم کیو ایم کو ایک لمبے عرصے تک ’کِنگ میکر پارٹی‘ کہا جاتا رہا ہے

سابق وفاقی وزیر اور ایم کیو ایم کے رہنما امین الحق کا دعویٰ ہے کہ جب بھی ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں رہی ہے اس نے عوام کی خدمت کی ہے: چاہے وہ انڈر پاسز ہوں، گرین بس ہو، کے فور کا منصوبہ ہو یا کراچی ڈینٹل کالج کا قیام، یہ سب ایم کیو ایم کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے لیے ایک پریشانی تنظیم کے بانی الطاف حسین بھی ہیں۔ انھوں نے 2018 کے انتخابات اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن اس بار انھوں نے انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ایم کیو ایم لندن کے رہنما مصطفیٰ عزیز آبادی کا کہنا ہے کہ انھوں نے تمام حلقوں پر امیدوار نامزد کیے ہیں اور ان کے نام جلد سامنے لائے جائیں گے۔

الطاف حسین کا ایک ویڈیو پیغام بھی آ چکا ہے جس میں انھوں نے ایم کیو ایم پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پتنگ کے نشان پر انتخاب لڑنے والے ’غدار‘ ہیں۔

پروفیسر مشعل ملک کا ماننا ہے کہ ’اگر کراچی میں کسی ایم کیو ایم کی سپورٹ ہے تو وہ ایم کیو ایم لندن ہے۔‘

بقول اُن کے مہاجر ووٹر تحریک انصاف کے پاس چلا گیا ہے لیکن ایک طبقہ اب بھی ایسا ہے جو کہ فعال سیاست میں یقین رکھتا اور اپنی پرانی جماعت کو یاد رکھتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبے سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر جعفر احمد کی رائے کچھ مختلف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ سیاست کی نچلی سطح پر جا کر فیصلہ سازی کو مینج کر رہی ہے اور وہی فیصلہ کریں گے کہ کس جماعت کو کتنی نشستیں دینی ہیں۔‘

’کل تک مصطفیٰ کمال کہتے تھے کہ مہاجر سیاست نہیں کریں گے، اب وہ وہی سیاست کر رہے ہیں تو یہ سارا ان فورسز کے نقشے میں ایڈجسٹ ہونے والی بات ہے۔‘

کیا پی پی پی کراچی کی اکثریتی جماعت بن سکتی ہے؟

کراچی، ایم کیو ایم، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، انتخابات، جماعت اسلامی
پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کے قیام کے بعد سے آج تک کراچی میں اکثریتی نشستیں نہیں مل سکی ہیں

پاکستان پیپلز پارٹی کو اس کے قیام کے بعد سے آج تک کراچی میں اکثریتی نشستیں نہیں مل سکی ہیں۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور ان کی بہن آصفہ بھٹو کراچی میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔

کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار شہر کا میئر پاکستان پیپلز پارٹی کا منتخب ہوا اور اس کو کورنگی، اورنگی اور بلدیہ ٹاون میں بھی کامیابی ملی لیکن کیا یہ کامیابی اس کو عام انتخابات میں شہر کی اکثریتی جماعت بنا سکتی ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر سعید غنی کہتے ہیں اس بار وہ کراچی میں بہت بہتر پوزیشن میں ہیں اور انھیں توقع ہے کہ وہ 13 کے قریب قومی اور 28 کے قریب صوبائی اسمبلی کی نشستیں لینے میں کامیاب ہوں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کراچی شہر میں تمام جماعتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ منصوبہ بندی کی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اتنی کمزور ہوتی تو شاید ان جماعتوں کو اتحاد بنانے کا ضرورت پیش نہیں آتی۔‘

کراچی، ایم کیو ایم، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، انتخابات، جماعت اسلامی

سعید غنی کہتے ہیں کہ ’اگر پیپلز پارٹی نے ڈیلیور نہیں کیا تو کراچی کے شہریوں نے پہلے کنٹونمنٹ بورڈز اور پھر بلدیاتی انتخابات اور اسی دوران جو ضمنی انتخابات ہوئے ان میں کیسے ہمیں پذیرائی دی؟‘

سینیئر تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ سنہ 2018 میں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کیں، دو ضمنی انتخاب ہوئے تو انھیں دو مزید نشستیں ملیں۔

اُن کے مطابق جو حلقہ بندیاں ہوئی ہیں اگر پی پی پی 7 سے 8 نشستیں بھی حاصل کرتی ہے تو یہ اس کی بڑی سیاسی کامیابی ہو گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن کیا شہر کی اردو بولنے والی آبادی اس جماعت کو ووٹ دے گی؟ ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت مشکل ہے کیونکہ پچھلے چالیس برسوں سے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ سندھ کا جو حکمران ہے، وہ وڈیرا ہے، اور پیپلز پارٹی وڈیرا کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔‘

تاہم پروفیسر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ پی پی کو کراچی کی اردو آبادی سے ووٹ مل سکتا ہے اور انھیں یہ جماعت آئندہ انتخابات میں ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر نظر آ رہی ہے۔ ’پی پی پی کا اپنی تخمینہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی کی آٹھ سے نو نشستیں جیتیں گے، اگر وہ ایسا کر پاتی ہے تو پھر اس کا یہ دعویٰ ہو گا کہ ہم نے شہری علاقوں تک بھی اپنا اثر رسوخ بڑھا لیا ہے۔‘

کراچی میں جماعت اسلامی کی مقبولیت

تصویر

کراچی میں 2018 کے انتخابات میں جماعت اسلامی کو صرف لیاری سے ایک صوبائی نشست پر کامیابی ملی تھی۔

کراچی میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی دوسری بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ووٹ اور سپورٹ اس کو قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے؟

کراچی میں جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے اور ایک سال میں شہر میں انتخابی رجحان نہیں بدلتا اور نہ ہی سیاست تبدیل ہوتی ہے۔

انھیں یقین ہے کہ عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی شہر کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی اور سب سے زیادہ ووٹ بھی لے گی۔

کراچی میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ اسی وجہ سے جماعت اسلامی کو ووٹ ملا، تاہم حافظ نعیم الرحمان سوال کرتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیوں کیا؟ انھوں نے کہا تھا کہ انھیں حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے اسی وجہ سے بائیکاٹ کر رہے ہیں لیکن پھر ابھی کیوں نہیں کیا؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’پچھلی مرتبہ وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں تھے کہ کوئی ایک نشست بھی جیت سکتے، لہذا انھوں نے بائیکاٹ کر کے فیس سیونگ کی۔‘

پروفیسر مشعل ملک کہتی ہیں کہ جماعت اسلامی نے لوکل باڈیز سے پہلے کافی اچھی مہم چلائی تھی، بنیادی مسائل پر بات کی تھی جس سے لوگ محروم ہیں جیسے پانی، بجلی اور سٹرکیں وغیرہ۔

’جماعت اسلامی کی سپورٹ ہے لیکن مقامی انتخابات اور قومی انتخابات مختلف چیز ہیں۔ جتنی سپورٹ انھیں لوکل انتخابات میں ملی ہے اس کی وجہ ایم کیو ایم کا بائیکاٹ تھا اور دوسرا ٹرن آؤٹ بھی کافی کم تھا۔‘

قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر فرحان صدیقی بھی اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو ووٹ ملیں گے لیکن اس قدر ووٹ ملنا کہ وہ کوئی سیٹ جیت سکیں شاید ممکن نہ ہو پائے۔

ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں جماعت اسلامی نچلی سطح پر کام کر رہی لیکن یہ کہنا مشکل ہوگا وہ کوئی نشست لے سکیں۔

جیت اور شکست طے کرنے والا مسلکی ووٹ بینک

کراچی، ایم کیو ایم، تحریکِ انصاف، پیپلز پارٹی، انتخابات، جماعت اسلامی
2018 کے عام انتخابات میں کراچی میں تحریک لبیک پاکستان ووٹ حاصل کرنے کے حساب سے تیسری بڑی جماعت تھی

کراچی میں مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلک کی بنیاد پر سیاست کرنے والی جماعتیں بھی موجود ہیں۔

جبار ناصر کراچی کے انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ کراچی میں ماضی میں اچھا خاصا ووٹ مسلک کی بنیاد پر ہی پڑتا رہا ہے لیکن یہ بات 1985 تک کی ہے، اس کے بعد سے مسلک کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر ووٹ تو نہیں پڑتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر حلقے میں اچھا خاصا ووٹ مذہبی یا مسلکی بنیاد پر کاسٹ ہوتا ہے۔

جبار ناصر کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں کراچی میں تحریک لبیک پاکستان ووٹ کے حساب سے تیسری بڑی جماعت تھی اور اس جماعت نے 2024 کے الیکشن میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلی کے تمام حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

تحریک لبیک پاکستان میں بریلوی مکتب فکر کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس سے قبل کراچی میں سنّی تحریک اور جمعیت علمائے پاکستان متحرک تھیں جس کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی تھے۔

صحافی و تجزیہ نگار فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ ممتاز قادری کے واقعے کے بعد ٹی ایل پی مقبول ہوئی اور کراچی میں اس نے سنی تحریک کو متاثر کیا جس کے دہڑے بھی بن چکے تھے جبکہ علامہ شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد ان کی سیاسی وراثت پر اختلافات ہوئے اور جے یو پی اندرونی انتشار کا شکار ہو گئی اس لیے ٹی ایل پی کے لیے ماحول سازگار بن گیا ہے۔

تصویر
کراچی میں شیعہ ووٹ بینک بھی موجود ہے جو بعض حلقوں میں فیصلہ کن بھی ثابت ہوتا ہے

سپاہ صحابہ پاکستان پر پابندی کے بعد تنظیم نے اہل سنت والجماعت کا نام اختیار کیا جو پاکستان راہ حق پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔ سب سے دلچسپ مقابلہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 230 پر ہے جہاں سے اہل سنت والجماعت کے صدر علامہ اورنگزیب فاروقی الیکشن لڑ رہے ہیں اور ان کا سامنا پی پی پی کے آغا رفیع اللہ سے ہے۔

تجزیہ نگار و صحافی فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ علامہ اورنگزیب سے ایم کیو ایم کے ایک وفد نے ملاقات کی تھی اور ایسی ویڈیو بھی سامنے آئی جس میں مقامی سطی پر انڈر سٹیڈنگ پر بات چیت کی گئی تاہم بعد میں ایم کیو ایم نے اس کی تردید کی۔

ایم کیو ایم کے اعلامیے کے مطابق حلقے این اے 230 میں ایم کیو ایم پاکستان کا کوئی امیدوار نہیں اس لیے اس کی دستبرداری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

صحافی جبار ناصر کہتے ہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے ہر حلقے میں ووٹ ہیں اور کسی سے اتحاد کی صورت میں یہ ووٹ بینک کسی کی ہار اور کسی کی جیت میں مددگار ہو سکتا ہے۔

پاکستان مرکزی مسلم لیگ بھی کراچی میں سرگرم نظر آتی ہے اور مہنگائی کے معاملات پر ریلیاں اور جلوس منعقد کر چکی ہے۔

فیض اللہ خان کے مطابق یہ تنظیم کالعدم جماعت الدعوۃ کے سابق اراکین پر مشتمل ہے اور وہ کراچی میں مسلک سے بالاتر سیاست کرتے ہیں، تاہم ان کا زیادہ تر پسِ منظر سلفی یا اہلحدیث ہے۔

فیض اللہ کے مطابق مرکزی مسلم لیگ نے این اے 230 میں علامہ اورنگزیب فاروقی اور این اے 242 پر ایم کیو ایم کی حمایت کی ہے۔

کراچی میں شیعہ ووٹ بینک بھی موجود ہے جو بعض حلقوں میں فیصلہ کن بھی ثابت ہوتا ہے۔ مجلس وحدت المسلمین نے دو صوبائی نشستوں پر اپنا امیدواروں کو نامزد کیا ہے۔ اس کے ترجمان کے مطابق باقی نشستوں پر تحریک انصاف کی حمایت کی جا رہی ہے۔

تجزیہ نگار اور محقق ضیاالرحمان کہتے ہیں کہ کراچی میں جو شیعہ آبادیاں ہیں وہ پھیلی ہوئی ہیں، ان میں 25 ایسی آبادیاں ہیں جن کا ووٹ بینک اہمیت کا حامل ہے۔

صحافی فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ مذہب یا مسلک کی بنیاد پر اتنا ووٹ نہیں ملتا جو کراچی کی سیاست کی حد تک کوئی بڑا اثر ڈال سکے اور وہ ایک سیاسی قوت کے طور پر آ سکیں لیکن اگر یہ مذہبی ووٹ بینک کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرتا ہے تو یقیناً کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *