ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ پوائنٹس ٹیبل پر انڈیا پاکستان

ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ پوائنٹس ٹیبل پر انڈیا پاکستان

ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ پوائنٹس ٹیبل پر انڈیا پاکستان سے بھی نیچے، سوشل میڈیا پر انگلینڈ کی تعریف اور کوہلی پر تنقید

انڈین ٹیم یقیناً انگلینڈ کے خلاف برمنگھم ٹیسٹ کا چوتھا اور پانچواں روز اپنی یادداشت سے مٹانا چاہے گی لیکن شاید ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل میں غیر معمولی تنزلی اور سوشل میڈیا صارفین اسے ایسا نہ کرنے دیں۔

یوں تو کہنے کو ’ایک سال پر محیط‘ انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان پانچ میچوں کی ٹیسٹ سیریز دو دو سے برابر ہوئی لیکن انڈیا کو اس بھاری شکست کے باعث زیادہ بڑا نقصان یہ اٹھانا پڑا کہ اوور ریٹ کم ہونے کے باعث اس کے مزید دو پوائنٹس کٹ گئے۔

اس طرح انڈیا کی ٹیم اب ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے پوائنٹس ٹیبل پر پاکستان سے بھی نیچے چلی گئی ہے اور اس وقت چوتھے نمبر پر ہے۔

یہ ایک اہم پیشرفت اس لیے بھی ہے کہ گذشتہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل میں جگہ بنانے والی انڈیا کے لیے اس مرتبہ ایسا کرنا خاصا مشکل ہو گا۔

اس کے علاوہ انڈین ٹیم کو جرمانے کی مد میں میچ فیس سے 40 فیصد بھی دینے ہوں گے۔

اب انڈیا نے اس سائیکل میں مزید چھ ٹیسٹ میچ کھیلنے ہیں، جن میں سے چار آسٹریلیا کے خلاف جبکہ دو بنگلہ دیش کے خلاف ہیں۔

اس وقت پوائنٹس ٹیبل پر نظر دوڑائی جائے تو آسٹریلیا سرِ فہرست نظر آتا ہے، دوسرے نمبر پر جنوبی افریقہ جبکہ تیسرے نمبر پر پاکستان موجود ہے۔

خیال رہے ٹیسٹ میچ کرکٹ کو دلچسپ بنانے کے لیے آئی سی سی کی جانب سے ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ متعارف کروائی گئی تھی جس کے پہلے ایڈیشن کی فاتح گذشتہ برس نیوزی لینڈ ٹھہری تھی۔

انڈیا کی انگلینڈ سے یہ شکست اس لیے بھی خاصی معنی خیز تھی کیونکہ یہ ٹیسٹ سیریز دراصل گذشتہ برس انگلینڈ میں کھیلی جا رہی تھی اور اس دوران انڈیا کی ٹیم عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیریز میں دو ایک کی برتری حاصل کر چکی تھی۔

انگلینڈ

تاہم جہاں انڈیا کی دوسری اننگز میں بیٹنگ کو ٹیسٹ میں شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے وہیں وراٹ کوہلی کی گذشتہ کچھ برسوں کے دوران فارم پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔

وراٹ کوہلی نے کسی بھی فارمیٹ میں گذشتہ لگ بھگ ڈھائی برس سے سنچری سکور نہیں کی اور اس عرصے کے دوران نہ صرف وہ انڈین ٹیم کے کپتان نہیں رہے بلکہ آئی پی ایل میں بھی رائل چیلنجرز بینگلور کی کپتانی سے دستبردار ہو گئے۔

ایسے میں اکثر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ان پر طنز کیا جا رہا ہے جبکہ ساتھ ہی ان کے مداح ایک دوسرے کو کوہلی پر یقین رکھنے کی تلقین بھی کر رہے ہیں۔

تاہم ایک اور بات جس پر خاصی بحث جاری ہے، وہ انگلینڈ کا کھیلنے کا انداز ہے جس میں گذشتہ دو ماہ کے دوران نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ آئیے پہلے اسی بارے میں بات کر لیتے ہیں۔

انگلینڈ کی جارحانہ حکمتِ عملی اور نمایاں تبدیلی

ہوم آف کرکٹ انگلینڈ حالیہ ایک دہائی کے دوران وائٹ بال کرکٹ میں انقلاب برپا کرنے کے باعث تو مشہور ہوئی ہے لیکن گذشتہ کچھ برسوں سے کم از کم اس کی ٹیسٹ ٹیم تنزلی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

اس کی متعدد وجوہات بیان کی جاتی رہیں جن میں سے ایک انگلینڈ کا ٹیسٹ کرکٹ کو انتہائی پیچیدہ انداز میں کھیلنا بھی تھا تاہم انگلینڈ کی جانب سے دو ماہ قبل کوچ، کپتان اور مینیجنگ ڈائریکٹر کی تبدیلی نے ٹیم میں نمایاں تبدیلی کا باعث بنی ہے۔

ماہرین اس تبدیلی کی اصل وجہ انگلینڈ کے نئے کوچ اور سابق کیوی کپتان برینڈن مکلم کو قرار دے رہے ہیں جنھوں نے آتے ہی انگلش ٹیم کو جارحانہ کھیل کی جانب راغب کیا ہے اور یوں اب تک ان کی کوچنگ میں کھیلے گئے چار ٹیسٹ میچوں میں سے چاروں میں ہی انگلینڈ کی ٹیم نے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے فتح حاصل کی۔

نیوزی لینڈ کو تین میچوں کی سیریز میں تین صفر سے شکست دینے کے بعد اب انگلینڈ نے انڈیا کے خلاف بھی فتح حاصل کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کی جارحانہ حکمتِ عملی ایک دو میچوں تک محدود نہیں تھی۔

دوسری جانب انڈین ٹیم جو گذشتہ برس تک انڈیا سے باہر ٹیسٹ میچ جیتنے میں مہارت حاصل کر چکی تھی، اس میچ میں پہلے تین روز بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود تیسری اننگز میں ناقص بیٹنگ کے باعث انگلینڈ کو موقع فراہم کر بیٹھی۔

بیئرسٹو

’بیئرسٹو نے 25 دن میں اتنے رنز بنائے جتنے کوہلی گذشتہ 18 ماہ میں نہیں بنا پائے‘

وراٹ کوہلی کی بیٹنگ فارم اب ان کے مداحوں کے لیے بھی خاصی پریشان کن ہوتی جا رہی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ٹوئٹر پر ان کے 2019 کے اواخر کے بعد سے رنز کے قحط کا موازنہ جو روٹ اور بیئرسٹو سے کیا جا رہا ہے۔

ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ نے لکھا کہ ’بیئرسٹو نے پچھلے 25 دن میں اتنے رنز بنائے جتنے کوہلی گذشتہ 18 ماہ میں نہیں بنا پائے۔‘

اس پر ایک صارف نے یاد دلایا کہ ’نومبر 2019 میں کوہلی کی ٹیسٹ میں 27 سنچریاں تھیں جب کہ جو روٹ کی 16 اور جولائی 2022 میں روٹ کی 28 سنچریاں ہو چکی ہیں جبکہ کوہلی ابھی تک 27 کے ہندسے پر ہی کھڑے ہیں۔‘

ٹویٹ

انڈیا ٹی وی کے سمپ راجگورو نے کہا کہ ’کوہلی کی پرفارمنس اس میچ کی مایوس کن ترین چیز تھی۔ مجھے یہ بات پسند آئی کہ پچ پر ان کا انداز برے وقت میں بھی ویسا ہی ہے جیسا اچھے وقتوں میں تھا لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بی سی سی آئی کب تک انتظار کرے گا؟‘

اسی بات کو ایک سوشل میڈیا صارف راہول ساونت نے کچھ کھلے الفاظ میں یوں بیان کیا کہ ’ٹیم کے ہارنے کا اتنا دکھ نہیں جتنا اس بات کا ہے کہ تین چار سال کی خراب پرفارمنس کے باوجود کوہلی کو ٹیم سے باہر نہیں کیا جائے گا اور ٹیسٹ ٹیم کا چناؤ بھی آئی پی ایل کی بنیاد پر ہو گا یعنی رنجی ٹرافی کی کوئی اہمیت نہیں۔‘

وراٹ کوہلی

لیکن جہاں ایک جانب کوہلی پر تنقید کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئی وہیں سوشل میڈیا پر کرکٹ شائقین کا ایک بڑا حصہ وہ بھی تھا جو کوہلی کے دفاع میں سامنے آئے اور انھوں نے یاد دلایا کہ انڈیا کے سابق کپتان نے کیا کچھ نہیں کیا۔

رنز کا موازنہ کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے شیباس نے لکھا کہ ’کوہلی نے گذشتہ پانچ سال میں جتنے رن بنائے ہیں، بیئرسٹو 11 برسوں میں نہیں بنائے۔‘

سوشل میڈیا صارف پری نے کوہلی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم انڈیا ایک بڑے ٹوٹل کا دفاع کرنے میں ناکام رہی لیکن الزام صرف کوہلی پر۔ اگر سیریز جیت جاتے تو کریڈٹ پوری ٹیم کو ملتا۔ وہ کپتانی چھوڑ چکے ہیں، لیکن کوہلی سے جڑا خبط اب تک موجود ہے۔‘

سوشل میڈیا صارف پری

کوہلی پر تنقید کے علاوہ کچھ صارف پوائنٹس ٹیبل پر انڈیا کی تنزلی پر بھی افسردہ دکھائی دیے اور شاید اس کی وجہ پاکستان کا انڈیا کے مقابلے میں بہتر پوزیشن پر آجانا ہے۔

ایک صارف نے لکھا: ’یہ میچ ہارنے سے زیادہ تکلیف دہ دو پوائنٹس کا کم ہونا ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا کہ ’پاکستان کے سری لنکا کے خلاف اگلے دو ٹیسٹ میچ انتہائی اہم ہوں گے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیمیں رواں ماہ دو ٹیسٹ میچ کھیلیں گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *