نیٹو کو چین کی بڑھتی عسکری قوت پر خدشات، چین

نیٹو کو چین کی بڑھتی عسکری قوت پر خدشات، چین

نیٹو کو چین کی بڑھتی عسکری قوت پر خدشات، چین کا معاملے کو اچھالنے کا الزام

بیلجیئم کے شہر برسلز میں اجلاس کے دوران ملاقات میں نیٹو رہنماؤں نے چین کی عسکری طاقت کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کا رویہ ایک ’چیلنج‘ ہے۔

چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے نیٹو رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چین اپنی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے خفیہ طور پر کام کر رہا ہے اور روس کے ساتھ عسکری تعاون کر رہا ہے۔

نیٹو کے سربراہ جینس سٹولٹنبرگ نے تنبیہ کی ہے کہ چین نیٹو کی عسکری اور تکنیکی صلاحیتوں کے ’قریب‘ پہنچ رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ نیٹو اتحاد چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ نہیں چاہتا۔

نیٹو 30 یورپی اور شمالی امریکی ممالک کا ایک انتہائی اہم اور طاقتور سیاسی اور عسکری اتحاد ہے جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کمیونسٹ خطرے سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔

دوسری جانب چینی سفارتی مشن برائے یورپی یونین نے ایک بیان میں نیٹو پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ’چین کی پُرامن ترقی پر بہتان لگا رہے ہیں‘ اور زور دیا کہ چین اپنی دفاعی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا جو کہ دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔

چین کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چین کسی کے لیے چیلنج نہیں پیش کرے گا لیکن اگر کوئی چیلنج ہمارے قریب آیا تو ہم ہاتھ باندھ کر بیٹھے بھی نہیں رہیں گے۔‘

حالیہ کچھ برسوں سے نیٹو اتحاد مشکلات کا شکار رہا ہے اور اس کے رہنماؤں نے اس تنظیم کے مقاصد اور اس کی فنڈنگ کے بارے میں بحث کی ہے۔

یہ تنازعات گذشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کافی بڑھ گئے تھے جنھوں نے نہ صرف نیٹو کے لیے امریکی فنڈنگ پر بلکہ یورپی شراکت دار ممالک کے دفاع کے لیے امریکی ذمہ داری پر سوال اٹھایا۔

ناٹو

البتہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے نیٹو اجلاس میں شرکت کے دوران اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ امریکہ مکمل طور پر اس 72 سالہ اتحاد کے ساتھ کھڑا ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ نیٹو ’امریکی مفادات‘ کے لیے نہایت اہم ہے اور اس اتحاد کے لیے ’لازم‘ ہے کہ وہ اپنے قیام کی دستاویز کی شق پانچ کی تعمیل کرے جو ممبر ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ حملے کی صورت میں ایک دوسرے کا دفاع کرے۔

جب بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن سے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے پوتن کو ’مقابلے کے لائق مخالف‘ قرار دیا۔

نیٹو چین پر اتنی توجہ کیوں دے رہا ہے؟

نیٹو سمٹ کے اختتام پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’چین کے مقاصد، خواہشات اور ان کا جارحانہ رویہ قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کے لیے اور اس اتحاد کی سکیورٹی کے حوالے سے ایک چیلنج ہے۔ ہم چین کی جانب سے ڈس انفارمیشن کے استعمال اور غیر شفافیت کے حوالے سے خدشات رکھتے ہیں۔‘

جینس سٹولٹنبرگ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نئی سرد جنگ شروع نہیں کر رہے اور چین نہ ہمارا مخالف ہے، نہ ہمارا دشمن۔ لیکن ہمیں بحیثیت ایک اتحاد ان درپیش چیلنجز کا سامنا کرنا ہے جو چین کی ایک ابھرتی ہوئی قوت بننے کے باعث ہماری سکیورٹی کو لاحق ہو سکتا ہے۔‘

چین دنیا کی بڑی عسکری اور معاشی قوتوں میں سے ایک ہے اور وہاں کی کمیونسٹ پارٹی مکمل طور پر ملک کی سیاست، روز مرہ کی زندگی اور پورے معاشرے پر حاوی ہے۔

چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے جس میں 20 لاکھ افراد اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔

چین کی جوہری آبدوز
چین کی جوہری آبدوز

چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھتے ہوئے نیٹو کی وقت کے ساتھ ساتھ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے اور تنظیم کو خدشہ ہے کہ چین یورپی ممالک کی سکیورٹی اور ان کے جمہوری اقدار کے لیے خطرہ ہے۔

اس کے علاوہ نیٹو چین کے افریقہ میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے بھی پریشان ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے چین کے بارے میں کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کہ چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع کی جائے۔

نیٹو کی جانب سے چین کے بارے میں پیغام ایسے وقت میں آیا ہے جب گذشتہ ہفتے دنیا کی سات بڑی معاشی قوتوں کے گروپ جی سیون نے اپنے اختتامی بیان میں چین کی جانب سے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تنقید کی تھی اور کووڈ 19 کے آغاز کے بارے میں شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔

جی سیون کے الزامات کے جواب میں چین نے ان پر الزام لگایا کہ وہ ’جھوٹ، افواہیں اور بے بنیاد الزامات‘ عائد کر رہے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *