نیٹو سرابی اجلاس روس اور چین کا مقابلہ کرنے کے لیے نیٹو کی تین نکاتی حکمت عملی
سیپن کے دارالحکومت میڈرڈ میں نیٹو اتحاد کے سربراہی اجلاس میں یوکرین پر روس کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت امریکی افواج کی یورپ میں خاص طور پر مشرقی یورپ میں اضافی تعیناتی اور یوکرین کے لیے ایک جامع امدادی پیکج جس میں ایندھن، طبی سامان، بلٹ پروف جیکٹیں اور ڈرون مخالف نظام شامل ہیں۔
نیٹو نے اپنے “اسٹریٹجک تصور” کو بھی اپ ڈیٹ کیا ہے۔ اسٹریجک تصور ایک ایسی دستاویز ہے جو اگلے 10 سال کے لیے اپنی عسکری اور سکیورٹی حکمت عملی کا تعین کرتی ہے جس میں مغربی جمہوریتوں کو درپیش خطرات کی تفصیل اور وضاحت کی گئی ہے کہ مغرب ان سے کیسے نمٹنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یہ ایک ایسا متن ہے جس میں نیٹو اتحاد کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نقطہ نظر کو یکسر تبدیل کر دیتا ہے۔
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (NATO) ایک فوجی اتحاد ہے جس کی بنیاد سنہ 1949 میں امریکہ، کینیڈا، فرانس اور برطانیہ سمیت 12 ممالک نے رکھی تھی۔
اس کے ارکان کسی بھی رکن ملک کے خلاف مسلح حملے کی صورت میں باہمی مدد کے لیے آنے پر متفق ہیں۔
صرف چند سال پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ نیٹو کی ’دماغی موت‘ واقع ہو چکی ہے لیکن یوکرین پر روسی حملے نے اسے ایک بار زندہ کر دیا ہے۔
روس نیٹو کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ روس نے بدھ کے روز الزام لگایا کہ نیٹو اتحاد استعماری سوچ کی غمازی کرتا ہے اور وہ روس ۔ یوکرین تنازعے کے ذریعے اپنی ’برتری‘ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دریں اثنا امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ نیٹو کی ’اب پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔‘
نیٹو اتحاد اب ناکارہ نہیں رہا: ڈونلڈ ٹرمپ
نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینزسٹولٹن برگ کے مطابق نیٹو اتحاد نے سرد جنگ کے بعد اپنا سب بڑا جائزہ لیا ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے فوجی اتحاد کی نئی حکمت عملی تین نکات پر مبنی ہے۔
فوجی اخراجات میں اضافہ
بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار فرینک گارڈنر کے مطابق یوکرین پر روس کے حملے نے نیٹو کو پچاس ہزار وولٹ کا ’جھٹکا‘ دیا ہے۔ روسی خطرے کا ایک براہ راست نتیجہ یہ ہے کہ نیٹو اتحاد میں شامل کچھ ممالک نے دفاعی اخراجات کو بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ برطانیہ نے سنہ 2030 تک اپنے جی ڈی پی کے 2.5 فیصد کے برابر اخراجات بڑھانے کا وعدہ کیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ برطانیہ دوسرے مغربی اتحادیوں پر بھی اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کے لیے دباؤ ڈالے گا۔
امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ پورے یورپ میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کرے گا۔
ہسپانوی دارالحکومت میں سربراہی اجلاس کے دوران، صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ نیٹو کو زمین، ہوا اور سمندر میں مضبوط کیا جائے گا۔
نئے منصوبے کے تحت اگلے سال تک موجودہ 40 ہزار تیار فوجیوں کی جگہ تین لاکھ تیار فوجیوں کو تعینات کیا جائے گا۔
پولینڈ میں ایک مستقل فوجی ہیڈکوارٹر بھی بنایا جائے گا، امریکہ جنگی جہازوں کو سپین، لڑاکا طیاروں کو برطانیہ اور زمینی دستوں کو رومانیہ بھیجے گا۔
صدر بائیڈن نے نیٹو حدور کی ایک ایک انچ کا دفاع کرنے کا اعادہ کیا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ ایک پر حملہ سب سے پر حملہ ہے، تو ہم واقعی یہ ہی سمجھتے ہیں۔
روس: ساتھی سے خطرہ تک
نیٹو کے نئے اسٹریٹجک تصور کے مطابق، روسی فیڈریشن نیٹو اتحادیوں کی سلامتی اور مغرب کے امن و استحکام کے لیے سب سے اہم اور براہ راست خطرہ ہے۔
یہ دستاویز واضح کرتی ہے کہ نیٹو اب روس کو ایک پارٹنر کے طور پر نہیں دیکھتا لیکن وہ “ماسکو کے ساتھ رابطوں کے راستے کھلے رکھنے کے لیے تیار رہے تاکہ کشیدگی سے بچا جا سکے۔
نیٹو نے کہا ہے کہ وہ اتحادیوں میں سے کسی کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے خلاف حملے کے امکان کو رد نہیں کر سکتا۔
میڈرڈ سربراہی اجلاس میں اس کے رہنماؤں نے فن لینڈ اور سویڈن کی طرف سے جمع کرائی گئی رکنیت کی درخواستوں کو قبول کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
لیکن انھیں نیٹو اتحاد کا باقاعدہ حصہ بننے کے لیے تنظیم کے 30 ارکان کی حکومتوں سے اس کی رکنیت کی توثیق ہونا ضروری ہے۔
صدر پوتن نے بدھ کے روز خبردار کیا تھا کہ اگر فن لینڈ اور سویڈن نے اپنی سرزمین پر نیٹو فوجیوں اور فوجی انفراسٹرکچر کو قبول کیا تو ماسکو بھی اس کا جواب دے گا۔
انہوں نے کہا کہ روس کو ان ممالک کے لیے وہی خطرات پیدا کرنا ہوں گے جیسے وہ روس کے خلاف پیدا کریں گے۔”
ہیلسنکی اور اسٹاک ہوم کا نیٹو سے الحاق کئی دہائیوں میں یورپی سلامتی میں سب سے بڑی تبدیلیوں میں سے ایک ہوگا۔
چین، ایک چیلنج
تنظیم کے اسٹریٹجک تصور میں پہلی بار چین کو “یورو-اٹلانٹک سیکورٹی کے لیے ایک ’چیلنج` کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
اسٹولٹن برگ نے بدھ کو کہا تھا کہ نیٹو اتحاد کو اب ’اسٹریٹجک مقابلے کے دور‘ کا سامنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’چین جوہری ہتھیاروں سمیت اپنی افواج میں خاطر خواہ اضافہ کر رہا ہے، اپنے پڑوسیوں بشمول تائیوان کو ڈرا دھمکا رہا ہے۔‘
’چین ہمارا دشمن نہیں ہے، لیکن ہمیں سامنے آنے والے سنگین چیلنجوں پر واضح نظر رکھنی چاہیے۔‘
نیٹو کے اسٹریٹجک تصور میں جس پر 2010 میں اتفاق ہوا تھا اس میں چین کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
لیکن اب نیٹو اسٹریجک تصور کا متن واضح کرتا ہے کہ بیجنگ کی پالیسیاں تنظیم کے مفادات، سلامتی اور اقدار کو چیلنج کرتی ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’پیلز ریپبلک آف چائنا کی بدنیتی پر مبنی ہائبرڈ اور سائبر کارروائیاں اور اس کی غلط معلومات پر مبنی بیان بازی اتحادیوں کو نشانہ بناتی ہے اور اتحاد کی سلامتی کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘
نیٹو نے مزید خبردار کیا ہے کہ چین کی حکومت شفافیت میں اضافہ کیے بغیر اپنی جوہری صلاحیت کو ’تیزی سے بڑھا رہی ہے۔‘
اس سے نہ صرف نیٹو ممبران بلکہ ایشیا اور اوشیانا کے پڑوسی ممالک بھی پریشان ہیں۔