نیوزی لینڈ مارکیٹ میں حملہ ’دہشت گردی‘ قرار، حملہ

نیوزی لینڈ مارکیٹ میں حملہ ’دہشت گردی‘ قرار، حملہ

نیوزی لینڈ: مارکیٹ میں حملہ ’دہشت گردی‘ قرار، حملہ آور ’دولت اسلامیہ کا حامی

نیوزی لینڈ میں پولیس نے تشدد پر آمادہ ایک شدت پسند کو جس نے آکلینڈ کی ایک سپر مارکیٹ میں چاقو کے وار کر کے چھ افراد کو زخمی کر دیا تھا، گولی مار کر ہلاک دیا ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسکا آرڈن نے یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جو کہ سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کیا جو پہلے ہی سے پولیس کی مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل تھا۔

سری لنکا کے اس شخص کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی لیکن وزیر اعظم جیسکا آرڈن کا کہنا تھا کہ وہ نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا حامی ہے۔

پولیس نے جمعہ کو اس شخص کی طرف سے لوگوں کو چاقو کے وار کر کے ہلاک کرنے کے صرف 60 سیکنڈ بعد ہلاک کر دیا۔

نیوزی لینڈ

جیسکا آرڈن نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ‘جو کچھ آج ہوا وہ قابل مذمت، قابل نفرت اور غلط ہے۔’ انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک انفرادی حرکت تھی اور کسی عقیدے کی نہیں۔’

صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ زخمی ہونے والے چھ افراد میں سے تین کی حالت نازک ہے اور ایک کی حالت خطرناک حد تک خراب ہے۔

آکلینڈ کے میئر فل گوف نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہسپتال کا عملہ زخمی افراد کی جان بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس سے سب کو شدید دھچکا لگا ہے اور اس حملہ میں ملوث شخص کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

حملہ کیسے ہوا؟

یہ واقع جمعہ کی سہ پہر کو نیو لئن کے علاقے میں لئن مال کی کاؤنٹ ڈاؤن سپر مارکیٹ میں ہوا۔

حملہ آوار نے سپر مارکیٹ سے ایک بڑی چھری اٹھا کر لوگوں کو مارنا شروع کر دیا۔ پولیس کے اہلکار قریب ہی تھے۔

ایک عینی شاہد نے ایک مقامی ٹی وی چینل کو بتایا کہ سپر مارکیٹ میں افراتفری پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ویڈیو میں لوگوں کو بھاگتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہیں۔

عینی شاہد کے مطابق لوگ افراتفری میں ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے اور چیخ و پکار کر رہے تھے اور ایک عمر رسیدہ شخص زخمی حالت میں زمین پر گرا ہوا تھا۔

نیوزی لینڈ

شدت پسندی نے پھر سر اٹھایا ہے

بی بی سی نیوز کے فل مرسر کا تجزیہ:

آکلینڈ میں ہونے والے اس اندہوناک واقعہ سے سنہ 2019 میں کرائسٹ چرچ میں مسجد پر خوفناک حملے کی تلخ یادیں تازہ ہو جائیں گی۔

کرائسٹ چرچ میں ہونے والے حملے میں ایک بندوق بردار اور نام نہاد ‘وائٹ سپرماسسٹ’ (سفید فام بالادستی کا قائل) نے 51 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ نیوزی لینڈ جیسا جغرافیائی اعتبار سے ایک دور درز اور الگ تھگ ملک بھی شدت پسندی کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں ہے۔

یہ حملہ آور کئی برس سے مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل تھا اور قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جاتا تھا۔ پولیس اس کی 24 گھنٹے نگرانی کرتی تھی۔ پولیس نے مزید جانی نقصان روکنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی لیکن بدقسمتی سے وہ اتنی قریب نہیں تھی کہ وہ لوگوں کو مکمل طور پر محفوظ رکھ سکتی۔ اور دہشت گرد کے خلاف کوئی بھی قانون سو فیصد تحفظ فراہم نہیں کرتا۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے مقامی ماؤری زبان میں ایک پیغام بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے ‘کیا کاہا نیوزی لینڈ’ اور اس کا مطلب ہے ڈٹے رہیں۔

ہم حملہ آوور کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

یہ شخص جس کی شناخت عدالتی احکامات کی وجہ سے ظاہر نہیں کی جا سکتی اکتوبر سنہ 2011 میں نیوزی لینڈ پہنچا تھا۔ اس کو سنہ 2016 میں مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اپنے نظریات کی وجہ سے اس کی 24 گھنٹے نگرانی کی جا رہی تھی اور اس کا ہر وقت پیچھا کیا جاتا تھا۔ وہ انسداد دہشت گردی اور قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کی نظروں میں تھا اور دہشت گردی کی ‘واچ لسٹ’ میں اس کا نام شامل تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے کہا کہ جمعہ کے روز تک اس شخص نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اس شخص نے ایسا کیوں کیا اس پر وزیر اعظم نے کہا وہ دولت اسلامیہ کے نظریات سے متاثر تھا۔

اب یہ سوالات پوچھے جا رہے ہیں جب اس شخص کے بارے اس قدر شکوک و شبہات پائے جاتے تھے تو اس کے خلاف پہلے کارروائی کیوں نہیں کی۔

پولیس کمشنر اینڈریو کوسٹر کا کہنا ہے کہ حقیقت میں جب کسی شخص کی 24 گھنٹے نگرانی کی جا رہی ہوتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ہر وقت سائے کی طرح اس کے ساتھ رہا جائے۔ انھوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے جتنی جلد ممکن تھا کارروائی اور ایک انتہائی صورت حال مزید جانی نقصان کو روک لیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ مشتبہ افراد نگرانی کرنے والوں سے ہوشیار رہتے ہیں اور نگرانی کرنے والوں کو کچھ فاصلے پر رہنا پڑتا ہے۔

پولیس کمشنر کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ حملہ آور تنہا تھا اور کمیونٹی کو مزید کوئی خطرہ نہیں ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *