نہ برف نہ بارش اُداس جنوری پاکستان اور انڈیا

نہ برف نہ بارش اُداس جنوری پاکستان اور انڈیا

نہ برف نہ بارش اُداس جنوری پاکستان اور انڈیا کے پہاڑی علاقوں میں خشک موسمِ سرما، ’اس کی مثال نہیں ملتی

موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی آپ اپنے ارد گرد اکثر دوست احباب کو یہ کہتے ہوئے سُنتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی سیاحتی مقام پر برف باری سے محظوظ ہونے کے لیے جانے کی منصوبے بندی کر رہے ہوتے ہیں۔

مگر اس مرتبہ تو پاکستان اور انڈیا کے بہت سے سیاحتی مقامات ایسے ہیں کہ جہاں لوگ بس یہی بات کر رہے ہیں کہ میاں اس مرتبہ تو لگتا ہے کہ برفباری دیکھنے کے لیے کینیڈا یا پھر امریکہ کا رُخ کرنا پڑے۔ مگر جیب پر بھاری پڑنے والا یہ کام تو ہم میں سے شاید بہت کم لوگ ہی کر سکیں گے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دُنیا کے دیگر مُمالک کی طرح پاکستان اور انڈیا دونوں پر ہی بڑی شدت سے نہ صرف محسوس بلکہ واضح طور پر دیکھائی دینے لگے ہیں۔ برسات کا آغاز ہوتا ہے تو دونوں مُمالک کے اکثر میدانی اور پہاڑی علاقوں کو سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، موسم گرم ہو تو ایسا گرم ہوتا ہے کہ جینا محال ہو جاتا ہے اور اگر آجائے جاڑا تو نہ برف اور نہ ہی بارش ہوتی ہے بس خشک سردی متعدد بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔

مگر اس مرتبہ ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ جاڑا بھی اپنی رونق یعنی بارش اور برف کے بغیر ہی گُزرتا دیکھائی دے رہا ہے۔ اس معاملے پر بی بی سی کے نامہ نگار عبید ملک سے بات کرتے ہوئے محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندری پانی کے درجہ حرارت میں غیر معمولی تبدیلی ہوئی ہے اور اسے ’ایلنینو ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے۔

اس ’ایلنینو ایفیکٹ‘ کی وجہ سے جہاں سمندری پانی کا درجہ حرارت متاثر ہوتا ہے وہیں اس کی وجہ سے میدانی علاقوں میں خشک سردی اور بارشوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ پہاڑی علاقوں میں جاڑے یا سردی کے موسم میں برف باری بھی نہیں ہوتی۔

اب یہ ’ایلنینو ایفیکٹ‘ در حقیقت ہوتا کیا ہے۔ موسمیاتی ماہرمحکمہِ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک نے بتایا کہ ’یہ ایلنینو ایفیکٹ در اصل ایک ایسا قدرتی نظام ہوتا ہے کہ جس میں کمی یا ذیادتی کی وجہ سے ہوا میں نمی کا تناسب کم یا زیادہ ہوتا ہے۔‘

عرفان ورک کا مزید کہنا تھا کہ ’اس مرتبہ ایلنینو ایفیکٹ کی وجہ سے سمندر کی جانب سے آنے والی ہواؤں اور بادلوں میں سمندری پانی کے درجہ حرارت کی وجہ سے نمی کی اُتنی مقدار شامل نہیں ہوئی کے جو پہاڑی اور میدانی علاقوں میں برف باری اور بارش کا باعث بنتی۔‘

India

پاکستان کے متعدد پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے بھی اکثر علاقوں میں بھی اس مرتبہ بارشوں اور برف باری کے نہ ہونے سے جہاں موسم سخت ہو گیا ہے وہیں ان علاقوں کے رہنے والوں کے لیے بھی مُشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ ان علاقوں کے لوگوں انحصار موسم سرما میں برف باری کے بعد آنے والے سیاحوں پر ہوتا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے خوبصورت قصبے گلمرگ میں منظور احمد نے 17 سالوں میں کبھی برف کے بغیر کوئی موسم نہیں دیکھا مگر اس مرتبہ حالات مختلف ہیں اُن کا ہوٹل سیاحوں کا منتظر ہے۔

اس خطے میں برف سے ڈھکے رہنے والے پہاڑ اب کی بار عجیب منظر پیش کر رہے ہیں برف کی سفید چادر اوڑھنے کی بجائے اس مرتبہ اُنھوں نے بھورے رنگ کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور بنجر بیابان پڑے ہیں۔

50 سالہ احمد کا کہنا ہے کہ ’اس کی مثال نہیں ملتی،‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’سیاحوں نے ان کے ہوٹل میں ریزرویشن یا بُکنگ کرنا بند کر دی ہے۔‘

ہر سال موسم سرما میں ہزاروں سیاح سکیئنگ اور سیر و سیاحت سے لطف اندوز ہونے کے لیے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر اور پاکستان کے علاقوں سوات سمیت مری نتھیاگلی کا رُخ کرتے ہیں۔ لیکن اس سال برفباری کے نہ ہونے نے خطے کی سیاحتی صنعت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ جنوری میں تقریباً ایک لاکھ سیاحوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا دورہ کیا تھا لیکن اس سال یہ تعداد آدھے سے بھی کم ہو گئی ہے۔ اور یہی حالات سرحد کے اس پار پاکستان کے بھی ہیں کہ جہاں ان دنوں میں آباد نظر آنے والے یہ سیاحتی مقامات آج ویران پڑے ہیں۔

کشمیر

ماہرین کا کہنا ہے کہ برف کے بغیر موسم سرما میں ان علاقے کی معیشت پر تباہ کن اثر پڑے ہیں کیونکہ جموں و کشمیر کی جی ڈی پی میں سیاحت کا شعبہ تقریبا 7 فیصد ہے۔ اس سے کاشتکاری اور پانی کی فراہمی پر بھی اثر پڑے گا کیونکہ کم برفباری زیر زمین پانی کے ذخائر کو مناسب طریقے سے نہیں بھرے گی۔

ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی اس خطے کو متاثر کر رہی ہے جس کی وجہ سے موسم سرما اور موسم گرما دونوں میں شدید موسمی حالات و واقعات اور طویل عرصے تک خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جموں و کشمیر کے محکمہ موسمیات نے دسمبر میں 79 فیصد اور جنوری میں 100 فیصد کمی ریکارڈ کی۔

وادی میں موسم گرم ہے اور کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں اس موسم سرما میں درجہ حرارت میں 6 سے 8 سینٹی گریڈ (43-48 فارن ہائیٹ) کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

Pakistan

ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ سیاحوں نے اپنے ریزرویشن منسوخ کر دیے ہیں جبکہ بہت سے سیاح اس جگہ کا دورہ کرنے کے بعد چلے گئے ہیں کیونکہ وہ سکیئنگ یا سلیگ سواری سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہیں۔

گلمرگ ہوٹلرز کلب کے صدر عاقب چھایا کا کہنا ہے کہ ’40 فیصد سے زیادہ ہوٹلوں کے ریزرویشن منسوخ کر دیے گئے ہیں اور اس وقت نئی بکنگ روک دی گئی ہے۔‘

مغربی ریاست مہاراشٹر کے رہنے والے راج کمار، جو اپنی فیملی کے ساتھ پہلی بار انڈیا کے زیر انتظام کشمیر آئے تھے، کا کہنا ہے کہ وہ بہت مایوس اور حالات دیکھ کر افسردہ ہوئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم یہاں برفباری دیکھنے اور کیبل کار کی سواری پر جانے کے لیے آئے تھے۔۔۔ لیکن برف کے بغیر گلمرگ کو دیکھ کر ہمیں شدید مایوسی ہوئی۔‘

سیاحوں کی تعداد میں کمی مقامی کاروباری اداروں کو نقصان پہنچا رہی ہے، جن میں سے زیادہ تر زندہ رہنے کے لیے موسم سرما کے دنوں میں سیاحت پر انحصار کرتے ہیں۔

گلمرگ میں پونی رائیڈرز ایسوسی ایشن کے سربراہ طارق احمد لون، جن کے تقریبا 50 ممبر ہیں، کہتے ہیں کہ وہ پچھلے تین مہینوں میں کوئی خاص کمائی نہیں کر پائے۔ پونی کی سواری خطے کے پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے کا ایک خوشگوار طریقہ ہے اور اس وجہ سے، ایک مقبول سیاحتی سرگرمی بھی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہماری روزی روٹی براہ راست برف پر سے جُڑی ہے۔ برف کے بغیر یہ علاقے ویران ہوجاتے ہیں جو ہمارے کنبوں کے لیے پریشانیوں کا باعث ہوتے ہیں۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’چونکہ زیادہ تر سوار دہائیوں سے اس پیشے سے وابستہ ہیں، اس لیے ان کے لیے معاش کا کوئی اور ذریعہ تلاش کرنا تقریباً ناممکن بات ہے۔‘

india

گلمرگ کی اسکی ایسوسی ایشن کے سربراہ شوکت احمد راتھر بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں پچھلے 27 سالوں سے سکِی انسٹرکٹر کے طور پر کام کر رہا ہوں، میں کچھ اور نہیں کر سکتا۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ برفباری نہ ہونے سے پن بجلی کی پیداوار، ماہی گیری اور کاشتکاری بھی متاثر ہوگی۔ پڑوسی علاقہ لداخ جو کہ ایک اور مشہور سیاحتی مقام ہے، وہاں کی بھی صورتحال کوئی مختلف نہیں حالات وہاں بھی ایسے ہی ہیں۔

ماہر ماحولیات سونم وانگچک کہتی ہیں کہ ’یہاں کی کھیتی گلیشیئر پر منحصر ہے۔ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ موسم سرما میں برفباری نہ ہونے کا مطلب ہے کہ موسم بہار کا پانی ایک بڑا مسئلہ ہوگا۔‘

لیہہ میں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر سونم لوٹس کا کہنا ہے کہ ’یہ ہمالیائی خطے میں خشک ترین موسموں میں سے ایک ہے۔‘ کشمیر یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عرفان رشید کہتے ہیں کہ ’قحط جیسی صورتحال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘

اس علاقے میں عام طور پر موسم سرما کے دوران شدید برفباری ہوتی ہے، 40 دن کا دورانیہ جو 21 دسمبر سے 29 جنوری تک رہتا ہے اس دوران پہاڑ اور گلیشیئر برف سے ڈھک جاتے ہیں اور اس سے سال بھر پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

کشمیر

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند سالوں سے اس علاقے میں برفباری میں کمی آ رہی ہے۔

ارضیاتی ماہر شکیل احمد رومشو کہتے ہیں کہ ’1990 کی دہائی سے پہلے، ہم 3 فٹ (0.9 میٹر) تک شدید برف باری کا مشاہدہ کرتے تھے اور موسم بہار تک یہ پگھلتی نہیں تھی۔ لیکن اب ہم سردی میں کمی ہوتی دیکھ رہے ہیں۔‘

وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کا ماننا ہے کہ وادی کشمیر کو آب و ہوا کی تبدیلی کا ’خمیازہ‘ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ دیگر ریاستوں کے مقابلے میں ہمارے فی کس گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بہت کم ہے۔ کشمیر کے لوگ بہت معمولی طرز زندگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم عالمی موسمیاتی تبدیلی کے شکار ہیں۔

احمد رومشو اور ان کی ٹیم کی ایک تحقیق کے مطابق، لداخ سمیت یہ علاقہ اس صدی کے آخر تک ’تباہ کن سطح‘ تک گرم ہوسکتے ہیں، یہاں درجہ حرارت میں 3.98 سے 6.93 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

دریں اثنا، مقامی لوگ اس موسم سرما میں کسی معجزے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔

انڈیا میں محکمہ موسمیات نے 24 جنوری سے پہلے کسی قسم کی ہلکی یا زیادہ برفباری کی پیش گوئی نہیں کی ہے، لیکن احمد کا کہنا ہے کہ انھیں اُمید ہے کہ قدرت ان پر مہربان ہوگی۔

اسی طرح پاکستان میں بھی محکمہ موسمیات کے دونوں ماہرین ڈاکٹر غلام رسول اور عرفان ورک کا یہ کہنا ہے کہ جنوری کے آخری ہفتے میں بارش کا ایک سپیل آنے کی اُمید ہے مگر فروری وہ مہینے ہوگا کہ جو ان پہاڑی علاقوں کی رونقیں واپس لانے کا باعث بن سکتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *