نواز شریف اور عمران خان کرکٹ سے سیاست

نواز شریف اور عمران خان کرکٹ سے سیاست

نواز شریف اور عمران خان کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفر

یہ اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس کا منظر ہے۔ ایک غیر ملکی صحافی شیروانی میں ملبوس ملک کے وزیر اعظم سے اُن ہی کے ساتھ کھڑے شخص کے بارے میں سوال کرتا ہے ’کیا آپ کو اس جوان لڑکے پر فخر ہے؟‘

صحافی کے سوال پر وزیراعظم جواب دیتے ہیں ’بالکل، انھوں نے بہت اچھا کر کے دکھایا۔‘

صحافی پھر سے سوال کرتا ہے کہ ’اگر یہ سیاست میں جانے کا فیصلہ کریں تو شاید بہتر ہو گا کہ آپ اُن کو اپنے ساتھ رکھیں؟‘ اس سوال پر ایک قہقہ بلند ہوتا ہے لیکن وزیر اعظم انتہائی سنجیدگی سے ساتھ کھڑے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ ’میں نے اسے بہت عرصہ پہلے پیشکش کی تھی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ میں نہیں جانتا کیوں۔‘

یہ واقعہ سنہ 1992 کا ہے جب نواز شریف ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے اعزاز میں ایک تقریب کے دوران عمران خان کے حوالے سے یہ گفتگو ’سکسٹی منٹس آسٹریلیا‘ نامی پروگرام کے میزبان سے کر رہے تھے جو ’عمران خان: اے لیونگ گاڈ‘ نامی خصوصی پروگرام کرنے پاکستان آئے تھے۔

نواز شریف اور عمران خان

لگ بھگ 32 سال قبل کا یہ منظر اس وقت کا ہے جب 40 سالہ عمران خان اپنے کرکٹنگ اور 43 سالہ نواز شریف اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر پہنچ چکے تھے۔

شاید اس وقت ان دونوں سمیت کسی کے گمان میں نہ ہو گا کہ ایک دن یہ شخصیات پاکستانی سیاست کا محور اور شدید سیاسی حریف بن جائیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست کے یہ حریف کبھی رفیق ہوا کرتے تھے جن کی نجی اور سیاسی زندگی میں بھی بہت سی قدریں مشترک رہیں۔

نواز شریف اور عمران خان، دونوں لاہور کے متمول لیکن غیر سیاسی گھرانوں میں پیدا ہوئے اور ابتدا میں سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ تاہم دونوں ہی ملک کے وزیر اعظم بنے لیکن اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکے۔

نواز شریف اور عمران خان کی سیاسی زندگیوں میں فوجی سربراہان کا اہم کردار رہا اور ایک موقع پر دونوں نے ہی ایک جنرل کے خلاف ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا۔ دونوں پر ہی اسٹیبلشمنٹ سے قربت کے ذریعے اقتدار میں آنے کے الزامات لگے تاہم دونوں نے اقتدار سے بے دخلی کا ذمہ دار بھی اسٹیبلشمنٹ کو ہی قرار دیا۔

اِن دونوں کو ہی متنازع مقدمات میں سزا اور قید ہوئی اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ دونوں کو دو مختلف الیکشن سے چند ہی دن قبل سزا سنائی گئی اور کم از کم ایک مقدمے میں تو سزا سنانے والا جج بھی ایک ہی تھا!

ان تمام مشترکہ قدروں کے باوجود نواز شریف اور عمران خان کی سیاسی رقابت اب ایک ایسی خلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے جو گذشتہ 10 سال سے ملکی سیاست پر حاوی رہی ہے۔ پاکستان کی تخت یا تختہ کی سیاسی بساط کا حصہ بننے والے نواز شریف اور عمران خان نے رفاقت سے سیاسی عداوت تک کا سفر کیسے طے کیا، اس بارے میں بی بی سی نے دونوں کے چند قریبی دوستوں اور رفقا سے بات چیت کی ہے۔

لاہور جمخانہ اور کرکٹ

لاہور کے زمان پارک اور ریلوے سٹیشن کے قریب واقع سرائے سلطان چوک میں لگ بھگ پانچ کلومیٹر کا ہی فاصلہ ہے۔ اندرون لاہور میں رہائش پذیر نواز شریف کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا جبکہ زمان پارک میں پلنے بڑھنے والے عمران خان کے والد سول انجینیئر تھے۔

دونوں کو کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا اور کرکٹ ہی دونوں کے ایک دوسرے سے تعارف کی وجہ بھی بنی اور اکثر عمران خان ان دنوں کا حوالہ اپنی سیاسی تقاریر میں بھی دیا کرتے ہیں۔ عمران خان تو 1971 میں پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بن چکے تھے تاہم نواز شریف کا کرکٹ کا سفر محدود درجے تک رہا۔

نواز شریف اور عمران خان

جمیل رانا لاہور جمخانہ کرکٹ کلب کے سابق سیکریٹری اور فرسٹ کلاس کرکٹر ہیں جو ماضی میں نواز شریف کے بیٹنگ پارٹنر بھی رہے۔ شریف خاندان اور زمان فیملی سے اُن کا تعلق بہت پرانا ہے۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے بتایا کہ ’میں ایک بار کسی کام کے سلسلے میں میاں شریف (نواز شریف کے والد) کے پاس گیا جن کا دفتر ریلوے ہیڈکوارٹر کے سامنے ہوا کرتا تھا۔ وہاں شہباز شریف موجود تھے جنھوں نے مجھے دیکھ کر کہا کہ آپ کی شکل بہت جانی پہچانی ہے، آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ میں نے کہا کہ اخبار میں تصویروں میں دیکھا ہو گا، میں فرسٹ کلاس کرکٹر ہوں اور جمخانہ کی ٹیم کی طرف سے کھیلتا ہوں۔‘

’شہباز شریف نے میاں محمد شریف سے کہا کہ ان سے کہیں ہمیں بھی جمخانہ کا ممبر بنوا دیں۔ اس زمانے میں جمخانہ کے سیکریٹری میجر شبیر شریف کے والد میجر شریف ہوا کرتے تھے۔ میں اُن کے پاس گیا کہ ایسے ایک کاروباری شخصیت کے بچے ممبر شپ کی خواہش رکھتے ہیں۔ انھوں نے پوچھا وہ کرکٹ کھیلتے ہیں۔ میں نے کہا یہ تو میں نہیں جانتا، لیکن ان کا کاروبار اچھا ہے۔ انھوں نے مجھے دو فارم دیے کہ یہ جا کر اُن کو دے دو۔‘

یوں شریف برادران لاہور جمخانہ کرکٹ کلب کے رکن بن گئے۔ جمیل رانا بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی نواز شریف کرکٹ کھیلتے تھے۔

پرویز میر اب جانے پہچانے صحافی ہیں لیکن اس زمانے میں وہ بھی لاہور کی کلب کرکٹ کا حصہ ہوا کرتے تھے اور بعد میں انھوں نے پاکستان کی جانب سے 1975 کے ورلڈ کپ میں بھی حصہ لیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’نواز شریف نے ایک کرکٹ کلب بنایا تھا جس کا نام ’اتفاق کرکٹ کلب‘ تھا۔ اس ٹیم میں ماہانہ 250 روپے ملا کرتے تھے۔ اس زمانے کے حساب سے یہ بہت پیسے تھے۔ اس کلب میں بہت بڑے بڑے نام کھیلتے تھے۔ یہ 1971-1970 کی بات ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نواز شریف کے پاس سب سے اچھی کٹ ہوا کرتی تھی۔ وہ باہر سے منگوا کر امپورٹڈ کٹ پہنا کرتا تھا۔ جب میرا فرسٹ کلاس ڈیبیو ہوا تو میں نے نواز شریف سے جوتے مانگ کر پہنے۔‘

مدثر نذر پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور کوچ رہے ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ 1970 کی دہائی میں ہی ایک بار گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیم کا میچ اتفاق کلب سے طے ہوا۔ اس وقت مدثر نذر بھی کالج کی ٹیم کا حصہ تھے۔

’ہم میچ کے لیے پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ میاں نواز شریف نے پیڈ باندھے ہوئے تھے۔ اس وقت ہم ان کو نہیں جانتے تھے۔ ہم نے کہا کہ بیٹنگ کا فیصلہ تو ٹاس سے ہو گا۔ ہم ٹاس جیت گئے اور پھر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ہم نے 350 سکور کیا۔ اس کے بعد وقفہ ہوا اور یہ وفقہ کافی طویل ہوا کرتا تھا، ایک گھنٹے سے زیادہ کا۔ وقفے کے بعد ہم واپس آئے لیکن اتفاق کلب کی ٹیم نہیں آئی۔‘

لاہور جمخانہ کرکٹ کلب کے ایک سابق رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نواز شریف فیلڈنگ کرنے کے زیادہ شوقین نہیں ہوا کرتے تھے۔

عمران خان اور نواز شریف کی شناسائی کیسے ہوئی؟

نواز شریف
جمیل رانا نواز شریف کے ساتھ بیٹنگ کرتے ہوئے

عمران خان نے اپنی خودنوشت ’پاکستان: اے پرسنل ہسٹری‘ میں لکھا ہے کہ ’جب میری نواز شریف سے 1970 کے آواخر میں ایک مقامی کرکٹ کلب میں پہلی بار ملاقات ہوئی، تو وہ ایک عام سا شخص لگا جو سیاست سے زیادہ کرکٹ میں دلچسپی رکھتا تھا۔ میرے خیال میں اس وقت اس کا اصلی خواب یہ تھا کہ وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان بن جائے۔ اسے کھیل کا گلیمر بہت اچھا لگتا تھا۔‘

یہ مقامی کرکٹ کلب، جمخانہ کلب تھا۔

جمیل رانا بتاتے ہیں کہ ’انگلینڈ سے جب عمران خان آتے تھے تو اتوار کو جمخانہ میں ہی میچ کھیلتے تھے۔ وہیں پر عمران خان اور نواز شریف کی ملاقات ہوئی۔‘

لیکن یہ ملاقاتیں ابتدا میں خوشگوار نہ تھیں۔ عمران خان کا شمار دنیا کے تیزترین بولرز میں ہونے لگا تھا جبکہ یہ نواز شریف کی سیاست کے ابتدائی دن تھے۔

پی جے میر کہتے ہیں کہ ’عمران خان اس وقت نواز شریف کو بہت باؤنسرز کرواتے تھے۔ عمران 16 قدموں کا رن اپ لے کر گیندیں مارتے تھے نواز شریف کی چھاتی پر لیکن وہ کھا لیتے تھے۔ ہم عمران کو کہتے تھے کہ یار انسان کا بچہ بن، کیا کر رہا ہے۔‘

پی جے میر کے مطابق اسی زمانے میں ’ایک دن میں نواز شریف کے ساتھ اُن کی گاڑی میں کہیں جا رہا تھا جب ایک جگہ ہم رُکے تو عمران کی گاڑی ساتھ آ کر دائیں جانب کھڑی ہوئی۔ میں نے عمران سے کہا تم جانتے ہو نواز شریف کو؟ انھوں نے کہا ہاں، میں نے دیکھا ہوا ہے۔ وہ لیفٹ ہینڈ گاڑی تھی تو نواز شریف نے آگے ہو کر عمران سے کہا کیا حال ہیں، ٹھیک ہیں؟ کدھر جا رہے ہیں؟ عمران نے کہا میں لبرٹی جا رہا ہوں تو ہم نے کہا ہم بھی ادھر ہی جا رہے ہیں۔ تو ہم نے ورائٹی بک سٹال پر گاڑی کھڑی کی۔ اور یوں نواز اور عمران کی ایک دوسرے سے بات چیت شروع ہوئی اور بعد میں دونوں کی کافی شناسائی ہو گئی تھی۔‘

جب وزیر اعلیٰ نواز شریف نے کپتان عمران خان کو سرپرائز دیا

1980 کی دہائی میں رفتہ رفتہ نواز شریف اور عمران خان اپنے اپنے کیریئر میں عروج پاتے چلے گئے۔

سنہ 1982 میں عمران خان پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بن چکے تھے جبکہ اس سے ایک سال قبل پنجاب کے وزیر خزانہ بننے والے نواز شریف 1985 میں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس زمانے میں دونوں کا ہی اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیا الحق سے تعلق رہا۔

مگر سیاست کے دوران بھی نواز شریف کا کرکٹ کا شوق اپنی جگہ قائم رہا۔ یہی شوق نواز شریف اور عمران خان کے درمیان رابطوں کا ذریعہ بھی بنا رہا۔

جمیل رانا کے مطابق ’نواز شریف وزیر اعلیٰ بن جانے کے بعد بھی باقاعدگی سے جمخانہ ہر ہفتے میچ کھیلنے آیا کرتے۔ اسی دوران انھوں نے اپنے کیریئر کے دو فرسٹ کلاس میچ بھی کھیلے۔ یہ دونوں بین الاقوامی ٹیموں کے خلاف وارم اپ میچ تھے۔‘

جمیل رانا کہتے ہیں کہ ’انگلینڈ کے ساتھ باغ جناح میں ایک میچ ہوا۔ اس میں میاں نواز شریف کے ساتھ میں نے اوپن کیا۔ انگلینڈ کی طرف سے فاسٹ بالر سمال اور این بوتھم بولنگ اوپن کرتے تھے۔ میں نے میاں صاحب کو کہا کہ آپ فیس نہ کریں، مجھے کرنے دیں، آپ دوسری طرف چلے جائیں۔ تو اس پر وہ مجھے کہنے لگے کہ کیوں میں کرکٹر نہیں ہوں؟‘

پاکستان
نواز شریف جمخانہ کرکٹ کلب ٹیم کے ساتھ، نواز شریف کے دائیں جانب جمیل رانا جبکہ بائیں جانب عمران خان کے ماموں جاوید زمان بیٹھے ہیں

اوپننگ کے اس شوق کی وجہ سے سنہ 1987 میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب ورلڈ کپ سے قبل ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایک وارم اپ میچ کھیل رہی تھی۔ عمران خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’میچ شروع ہونے سے چند لمحے قبل کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری شاہد رفیع نے مجھے آگاہ کیا کہ اس دن وزیر اعلیٰ نواز شریف ٹیم کے کپتان ہوں گے۔‘

’مجھے دھچکہ لگا لیکن میں نے سوچا شاید وہ ڈریسنگ روم سے میچ دیکھیں گے۔ مجھے اس وقت ایک اور دھچکہ لگا جب میں نے دیکھا کہ نواز شریف کرکٹ کٹ پہنے ویسٹ انڈیز کے کپتان ویوین رچرڈز کے ساتھ ٹاس کے لیے میدان میں پہنچ گئے۔‘

مگر ابھی اس سے بھی بڑا ’دھچکہ‘ آنے والا تھا۔

عمران خان لکھتے ہیں کہ ’نواز شریف نے ٹاس جیتا اور ڈریسنگ روم واپس آ کر پیڈ پہننا شروع کر دیے کہ وہ مدثر نذر کے ساتھ ویسٹ انڈیز کے تیز ترین بولنگ اٹیک کے خلاف اوپن کریں گے۔‘

’ایک طرف مدثر نذر نے پیڈ پہنے، تھائی پیڈ باندھا، چھاتی کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک اور پیڈ چڑھایا، بازو محفوظ رکھنے کے لیے آرم گارڈ، ہاتھوں کے لیے مضبوط گلوو اور سر کو بچانے کے لیے ہیلمٹ رکھا تو دوسری طرف وزیر اعلیٰ نواز شریف نے صرف پیڈ باندھے، سر پر بس ہیٹ رکھا اور چہرے پر مسکراہٹ لیے میدان میں اُتر گئے۔‘

عمران خان لکھتے ہیں کہ ’سب جانتے تھے کہ یہ دنیا کا سب سے خطرناک بولنگ اٹیک ہے جس نے کئی بہترین بلے بازوں اور پروفیشنل کھلاڑیوں کا کیریئر ختم کر دیا تھا اور یہاں نواز شریف جن کے پاس اتنے بڑے لیول پر کرکٹ کھیلنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا بنا کسی حفاظتی سامان کے میدان میں اُتر گئے تھے۔‘

عمران خان لکھتے ہیں کہ ’اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ کوئی سنجیدہ معاملہ ہو سکتا ہے اگر نواز شریف کو شارٹ بال کروائی گئی اور میں نے فوری طور پر معلوم کروایا کہ کیا کوئی ایمبولنس وہاں موجود ہے۔‘

اتنی دیر میں پہلی گیند ہو چکی تھی جو عمران خان کے مطابق نواز شریف کے بلا اٹھانے سے پہلے ہی کیپر تک پہنچ چکی تھی۔ ’سب نے سکون کا سانس لیا کہ یہ گیند سیدھی نہیں آئی۔‘ اگلی گیند پر نواز شریف کلین بولڈ ہو گئے اور یوں عمران خان کی پریشانی ختم ہوئی۔

نواز شریف اور عمران خان

تاہم مدثر نذر کے مطابق اُن کو یاد نہیں پڑتا کہ انھوں نے کس میچ میں نواز شریف کے ساتھ اوپن کیا تھا۔ مدثر نذر نے ایک اور واقعہ سنایا کہ سنہ 1987 کی ہی بات ہے ’جب ایک اہم میچ سے پہلے ہم پریکٹس کر رہے تھے کہ اچانک میاں نواز شریف بھاری نفری کے ساتھ پہنچ گئے اور نیٹ میں چلے گئے جہاں عام بولرز ٹیم کو بولنگ پریکٹس کرا رہے تھے۔ عمران نے پیڈ کر رکھے تھے اور وہ پریکٹس کے لیے آنے والا تھا لیکن نواز شریف کے آنے سے عمران کو بہت غصہ آیا کہ ٹیم کا اتنا اہم میچ ہونے والا ہے اور وقت ضائع ہو رہا ہے۔‘

عمران خان کی دو بڑی کامیابیوں میں نواز شریف کا کردار

نواز شریف 1988 میں ایک بار پھر وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے اور 1990 میں پہلی بار پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ یہ اتفاق ہے کہ عمران خان کے کرکٹ کریئر کی سب سے بڑی کامیابی بھی اسی دور میں حاصل ہوئی یعنی کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت۔ ایک صحافی کے مطابق عمران خان کی اس جیت میں ایک ہاتھ نواز شریف کا بھی تھا۔

قمر احمد سینیئر سپورٹس صحافی ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بانوے کے ورلڈ کپ سے قبل جاوید میانداد کو ان فٹ ہونے کی وجہ سے ڈراپ کر دیا گیا تھا اور ٹیم ان کے بغیر ہی آسٹریلیا جا چکی تھی جب نواز شریف کو اس بات کا علم ہوا۔

’نواز شریف کی کہیں پر جاوید میانداد سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ جاوید نے بتایا کہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‘ قمر احمد کے مطابق ’بطور وزیر اعظم نواز شریف نے کرکٹ بورڈ سے رابطہ کیا کہ جاوید میانداد کو ورلڈ کپ سکواڈ کا حصہ بنایا جائے۔‘

جاوید میانداد اس بات کی تو تصدیق کرتے ہیں کہ ان کو ڈراپ کر دیا گیا تھا کیوںکہ ان کی فٹنس کا مسئلہ تھا۔

بی بی سے بات کرتے ہوئے جاوید میانداد کا کہنا تھا کہ ’پھر لوگوں نے دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ تم جاؤ۔ لیکن میں نے کہا کہ میں پہلے فٹنس کا ٹیسٹ پاس کروں گا اور پھر ٹیم میں شامل ہوں گا۔‘ تاہم جاوید میانداد کے مطابق وہ نہیں جانتے کہ میاں نواز شریف کا بطور وزیر اعظم اس سب میں کوئی کردار تھا یا نہیں۔

نواز شریف اور عمران خان

ورلڈ کپ میں جاوید میانداد کی شمولیت میں نواز شریف کا کردار تھا یا نہیں، لیکن عمران خان کے اگلے بڑے پراجیکٹ یعنی شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں نواز شریف کا ایک کلیدی کردار رہا۔ 1992 کے ورلڈ کپ سے قبل ہی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے زمین حاصل کرنے میں عمران خان کی مدد کی جس کے بعد اپریل 1991 میں کینسر ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے بھی نواز شریف کو دعوت دی گئی۔

اس دن کی تقریب کے بعد، جس میں انڈین اداکار دلیپ کمار بھی شامل تھے، سرکاری ٹی وی چینل پر بتایا گیا کہ وزیر اعظم نواز شریف نے ہسپتال کے لیے ایک کروڑ روپے کے فنڈ کا اعلان بھی کیا۔

صحافی سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ ’اس زمانے میں نواز شریف کے بیٹے بھی عمران خان کے فین ہوا کرتے تھے اور انھوں نے بھی ہسپتال کے لیے کافی عطیات دیے۔‘

پاکستان
اپریل 1991 میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے نواز شریف کو دعوت دی گئی

نواز شریف کی عمران خان کو دوسری آفر

1992 ورلڈ کپ کی فتح کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں استقبالیے کے دوران جب نواز شریف نے عمران خان کو ماضی میں ایک پیشکش کرنے کا انکشاف کیا تو اس کے بعد میزبان نے عمران خان سے یہی سوال کیا کہ وہ سیاست میں کیوں نہیں آئے؟

عمران خان کا جواب تھا کہ ’مجھے دو بار سیاست میں آنے کی پیشکش ہوئی۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ میں سیاستدان نہیں بن سکتا۔‘

تاہم چند سال بعد 1996 میں عمران خان تحریک انصاف کی بنیاد رکھ کر سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے۔

ایک نئی سیاسی جماعت کا آغاز کرنے سے قبل عمران خان نے پنجاب کے طول و عرض کے دورے کیے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک طرف نواز شریف بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف پنجاب بھر میں سیاسی مہم جاری رکھے ہوئے تھے تو دوسری طرف عمران خان سکولوں اور کالجوں میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے عطیات جمع کرنے کی مہم پر نکلے ہوئے تھے۔

ایسے میں جب عمران خان نے سیاست کا آغاز کیا تو نواز شریف کی جانب سے انھیں ایک بار پھر پیشکش کی گئی۔ خود عمران خان کے مطابق ’نواز شریف نے پہلے مجھے پارٹی میں دوسری سینیئر پوزیشن کی پیشکش کی اور بعد میں قومی اسمبلی میں 20 سیٹوں کے ساتھ اتحاد کی آفر کی۔‘

پی جے میر کے مطابق وہ نواز شریف کی جانب سے اس پیشکش کے گواہ ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی جے میر نے دعویٰ کیا کہ ’نواز شریف نے مجھے کہا کہ عمران خان کو میں سیٹیں بھی دوں گا اور اس کو وزیر خارجہ بناؤں گا۔ میں عمران کے پاس ہسپتال گیا اور اس سے کہا کہ نواز شریف ملنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے نواز شریف کی آفر بتائی۔ عمران نے کہا او کے۔ لیکن اگلی صبح عمران کی کال آئی کہ ملاقات کینسل کر دو، جمائما کا کچھ کام ہے۔ میں نے کہا یہ بہت بڑا موقع ہے۔ لیکن اس نے نہیں لیا۔‘

عمران خان نے اپنی کتاب میں اس پیشکش کو ٹھکرانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں نواز شریف کو بینظیر جتنا کرپٹ سمجھتا تھا۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ دونوں میرے دوست رہے تھے، ان کی مخالفت کرنے کی واحد وجہ ان کی کرپشن تھی۔‘

لیکن اس واقعے کے دس سال کے اندر عمران خان نواز شریف کے ساتھ سیاسی اتحاد کرنے پر تیار ہو گئے۔

جب عمران خان اور نواز شریف نے ایک جنرل کے خلاف اتحاد کیا

سنہ 1997 کا الیکشن عمران خان اور تحریک انصاف کا پہلا انتخابی تجربہ تھا جس میں وہ بُری طرح ناکام ہوئے۔ دوسری جانب نواز شریف بھاری اکثریت کے ساتھ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن اس بار بھی اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔

12 اکتوبر 1999 کے واقعات کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تو ان کے ابتدائی حامیوں میں عمران خان بھی شامل تھے۔

یوں پرویز مشرف وہ دوسرے فوجی حکمران بنے جنھوں نے نواز شریف اور عمران خان کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ نواز شریف پہلی بار قید میں رہنے کے بعد سعودی عرب جلاوطن ہوئے تو عمران خان بھی 2002 کے انتخابی نتائج کے بعد پرویز مشرف سے دور ہوتے چلے گئے۔ حتی کہ ایک وقت آیا کہ 2007 میں عمران خان کو بھی پہلی بار پرویز مشرف کے دور میں ہی جیل جانا پڑا۔

تب تک نواز شریف سعودی عرب سے لندن پہنچ چکے تھے۔ عمران خان بھی مختصر قید سے رہائی کے بعد لندن میں نواز شریف سے ملے اور دونوں نے ایک فوجی حکمران کے خلاف ہاتھ ملایا۔ جون 2007 میں لندن میں ہونے والی ملاقات کی خبر دیتے ہوئے بین الاقوامی خبررساں ادارے اے ایف پی نے لکھا کہ ’عمران خان اور نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف اکھٹے ہو رہے ہیں۔‘

پی جے میر کے مطابق ’مانچسٹر میں ایک جلسہ بھی ہوا جس میں دونوں نے شرکت کی۔ بیرسٹر سلطان نے جلسہ کروایا تھا مانچسٹر میں، جس میں زیادہ تعداد میں کشمیری لوگ شامل تھے۔ اس وقت عمران خان، نواز شریف اور شہباز شریف وہاں اکھٹے تھے۔ جلسہ ہوا اور اس میں ایک دوسرے کی تعریفیں بھی کی گئیں۔‘

نواز شریف اور عمران خان

عمران خان اور نواز شریف اس اتحاد کا حصہ بنے جسے ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک مومنٹ‘ یا ’اے پی ڈی ایم‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن یہ اتحاد بھی زیادہ دیر قائم نہ رہا۔ بینظیر بھٹو پاکستان لوٹیں تو کچھ ہی عرصہ بعد نواز شریف بھی جلا وطنی ختم کر کے ملک واپس آ گئے۔ اے پی ڈی ایم کی جانب سے آئندہ الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تھا۔

عمران خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’الیکشن بائیکاٹ کی مہم کی سربراہی کرنے کے بعد نواز شریف نے ہم سب کو دھوکہ دیا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک اجلاس سے وہ اچانک 40 منٹ کے لیے غائب ہوئے، وہ برطانوی وزیر خارجہ کا فون سُن رہے تھے اور بعد میں انھوں نے بائیکاٹ کا ارادہ ترک کر دیا جبکہ تحریک انصاف سمیت باقی جماعتوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔‘

عمران خان اور نواز شریف کی سیاسی کشمکش

سنہ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے عمران خان اس اسمبلی سے دور رہے جس میں پہلے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی اتحادی حکومت بنی جو کچھ ہی عرصہ چل سکی۔ تاہم پی جے میر کے مطابق ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد اور بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ایک ایسا سیاسی خلا پیدا ہو چکا تھا جس کا فائدہ عمران خان کو ہوا۔

کئی سال تک سیاسی دھارے کے مرکز تک پہنچنے کی جدوجہد کرنے والے عمران خان 2011 میں ایک نئے انداز سے لاہور میں جلوہ گر ہوئے تو اُن کے ساتھ اب کئی سیاسی قدآور شخصیات شامل ہو چکی تھیں۔

تاہم سہیل وڑائچ کے مطابق ’پی ٹی آئی نے جب مینار پاکستان میں جلسہ کیا تو زیادہ تنقید پیپلز پارٹی پر تھی، ن لیگ پر کم تھی۔ بظاہر دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے ایک نرم گوشہ اس وقت تک موجود تھا۔‘

پی جے میر بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’عمران خان نے سیاست کے آغاز میں آصف زرداری پر ہی زیادہ تنقید کی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ عمران خان کے دل میں یہ احساس موجود تھا کہ جس زمین پر اس نے ہسپتال بنایا، وہ زمین نواز شریف نے دلوائی۔‘

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’عمران خان نے جب دیکھا کہ کہ اگر نواز شریف کو چیلنج نہیں کیا تو سیاست میں راستہ نہیں بنے گا۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کو بھی اندازہ ہوا چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد، کہ ان کو ایک پرو اسٹیبلشمنٹ پارٹی کی ضرورت ہے۔‘

نواز شریف اور عمران خان

ایسے میں 2013 کے انتخابات ہوئے تو عمران خان اور نواز شریف کی سیاسی کشمکش بڑھ چکی تھی۔ تاہم سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ 2013 الیکشن میں ’نواز شریف نے ہسپتال جا کر عمران خان کی عیادت کی اور اقتدار میں آنے کے بعد خود ان کے پاس بنی گالہ بھی گئے لیکن بات نہیں بنی اور عمران کو بھی سوٹ نہیں کیا۔ جب دونوں کو سمجھ آ گئی کہ آپس کی ہی لڑائی ہے تو پھر معاملات بڑھتے چلے گئے۔‘

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’جب اقتدار کی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو سیاسی عزائم اہم ہو جاتے ہیں۔ پھر مقابلہ شروع گیا اور جیسے جیسے زبان سخت ہوتی گئی، رویے سخت ہوتے گئے۔‘

پی جے میر کہتے ہیں کہ ’عمران خان اور نواز شریف کی شخصیت سیاست سے ہٹ کر دیکھیں تو بہت عمدہ ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاست ہی اتنی گندی ہے۔ دیکھیں جب عمران خان سیاست میں آیا تو اس وقت اس کی زبان کیسی تھی۔ سیاست کا کھیل ہی یہ ہے کہ جو مخالف ہے وہ ایک بُرا شخص ہے۔‘

پھر ایک وقت آیا کہ 2018 کے الیکشن سے قبل نواز شریف سزا یافتہ ہوئے اور جیل پہنچے جبکہ عمران خان پہلی بار اسی وزیر اعظم ہاؤس تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں ایک بار نواز شریف نے ان کو سیاست میں شامل ہونے کی پیشکش کی تھی۔

لیکن چند سال بعد عمران خان کی وزارت عظمیٰ بھی قبل از وقت ختم ہوئی اور انھوں نے اس کا الزام سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پر لگایا جن پر پہلے نواز شریف بھی ایسا ہی الزام لگا چکے تھے۔

آج عمران خان ایک اور الیکشن سے پہلے سزایافتہ اور جیل میں قید ہیں جبکہ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

کیا نواز شریف اور عمران خان پھر سے اتحادی بن سکتے ہیں؟

پاکستان کی سیاست کے پیچ وخم اس بات کے گواہ ہیں کہ ماضی کے مخالفین کو حلیف بنتے بھی دیر نہیں لگتی۔

1990 کی دہائی میں نواز شریف اور بینظیر کی سیاسی مخالفت کے باوجود 2007 میں ان کے درمیان ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ طے پایا۔ تو کیا ماضی کے فریق، نواز شریف اور عمران خان تمام تر اختلافات کے باوجود مستقبل میں ایک بار پھر سے اتحادی بن سکتے ہیں؟

سہیل وڑائچ کا خیال ہے کہ ’اب عمران خان اور نواز شریف کے درمیان کسی قسم کے اتحاد کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ جب پارلیمنٹ بنے گی تو شاید کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔‘

پی جے میر کا کہنا ہے کہ ’دونوں نے ہی اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب دیکھا۔ اور اب دونوں کی لڑائی صرف اتنی ہے کہ اقتدار میں کس کو کتنا حصہ ملتا ہے۔‘

تاہم ان کے مطابق ’میرا خیال ہے کہ ان میں صلح ہو گی، کسی نہ کسی طریقے سے۔ اور اس بار وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکھٹے ہوں گے۔ عمران ان لوگوں میں سے نہیں ہے جو فوج کو اپنے سے بالاتر رہنے دے۔ نواز شریف کی بھی یہی سوچ ہے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *