ناظم جوکھیو قتل کا ایک سال عرب شکاریوں کو پرمٹ نہ دینے سے ان کی تذلیل ہو گی
ملیر میمن گوٹھ کے ناظم جوکھیو ایک ویڈیو میں غیر ملکی شہریوں کو مبینہ طور پر تلور کے غیر قانونی شکار سے روکتے نظر آئے جس کے بعد ان کی تشدد زدہ لاش ملی۔
گذشتہ برس نومبر میں وہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے اس دیہی علاقے میں صرف تلور اور سائبریا سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں۔
قتل کے الزام میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم سمیت 22 ملزمان کو نامزد کیا گیا اور گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔
مگر یہ ڈرامائی موڑ تھا جب ناظم جوکھیو کی بیوہ شیریں جوکھیو نے جام برادران اور دیگر کو معاف کر دیا۔
ایک ویڈیو بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ ’میں مقدمہ لڑنا چاہتی ہوں لیکن اپنوں نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔‘
اس معافی کے بعد انھیں اور ان کے بچوں کو دیت کی رقم سے ساڑھے 30 لاکھ روپے ملیں گے مگر اس سب میں بظاہر وہ مسئلہ تو سب بھول ہی گئے جس پر ناظم جوکھیو آواز اٹھا رہے تھے۔
ناظم جوکھیو کا قتل پرمٹ کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا
ناظم جوکھیو کے قتل کے بعد سندھ بھر میں احتجاج ہوئے اور بعض علاقوں میں عرب شکاریوں کی گاڑیوں کے راستے میں رکاوٹیں بھی ڈالی گئیں۔
ناظم جوکھیو قتل کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت میں پیش کیے گئے چالان میں بتایا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد ہر سال اپنے ساتھیوں کے ساتھ سندھ کے ضلع ٹھٹہ میں شکار کے لیے آتے ہیں۔ انھیں حکومت پاکستان کی اجازت حاصل ہوتی ہے اور وہ سالانہ فیس بھی ادا کرتے ہیں۔
اس واقعے کو ایک سال گزرنے کے بعد کیا غیر ملکیوں کو شکار کی اجازت دینے کے قانون میں ضابطہ اخلاق میں کوئی تبدیلی آئی؟ اگر صورتحال کا جائزہ اور دستاویزات کا معائنہ کیا جائے تو اس کا جواب نفی میں ملے گا۔
رواں سال صوبہ سندھ سمیت چاروں صوبوں میں عرب حکمرانوں اور شاہی خاندانوں کے کل 36 افراد کو شکار کے اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔
وہ ساحلی، میدانی، اور پہاڑی علاقوں میں اپنے بازوں کے ذریعے آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ میں شامل نایاب تلور پرندوں کا شکار کریں گے۔ ان میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جہاں آج بھی سیلاب کا پانی موجود ہے یا جہاں شورش ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں صوبائی حکومت نے مقامی افراد کے شکار کرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے تاہم عرب شکاریوں پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔
عرب حکمرانوں کو کہاں کہاں کے پرمٹ جاری ہوئے؟
ابو ظہبی کے حکمران اور عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کو سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں شکار کی اجازت دی گئی ہے۔
انھیں جن علاقوں میں شکار کی اجازت دی گئی ہے، ان میں پنجاب میں رحیم یار خان، راجن پور، سندھ میں سکھر، گھوٹکی، نوابشاہ، سانگھڑ، کوٹ ڈیجی، بلوچستان میں ژوب، اوڑ ماڑا، پسنی، پنجگور، واشک اور سبی کے علاقے شامل ہیں۔
عرب امارات کے وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن زیدالمکتوم، پنجاب میں مظفر گڑھ، بہاولپور، فورٹ عباس، بلوچستان میں خصدار، لسبیلہ، چاغی میں شکار کھلیں گے۔
جبکہ دبئی کے ولی عہد شیخ ہمدان بن محمد بن رشید بلوچستان کے علاقے سبی کی تحصیل لہڑی، بولان اولڈ کچھی ایریا میں، صوبہ سندھ میں تعلقہ خیرپور ناتھن شاہ، غیبی دیرو، شھداد کوٹ، نارا کینال، جوہی، فرید آباد میں تلور کا شکار کریں گے۔
واضح رہے کہ سندھ کے مذکورہ علاقے اس وقت رواں برس آنے والے سیلاب سے زیر آب ہیں۔
سینٹرل ملٹری کمانڈر، دبئی پولیس کے ڈپٹی چیف اور حکمران خاندان کے رکن میجر جنرل شیخ احمد بن راشد المکتوم سندھ کے علاقوں عمرکوٹ، تھرپارکر، مٹھی اور ننگر پارکر میں شکار کریں گے۔
جبکہ متحدہ عرب امارات کے صدر کے مشیر اور شاہی خاندان کے رکن ڈاکٹر شیخ سلطان بن خلیفہ کو ڈیرہ مراد جمالی اور نصیر آباد میں شکار کا اجازت نامہ جاری کیا گیا ہے۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے رکن شیخ راشد بن خلیفہ بدین، جنگشاہی، دہابیجی، مکلی چھتو چنڈ اور کھوی گوٹھ کراچی میں شکار کریں گے۔
شاہی خاندان کے رکن میجر جنرل شیح المعر بن مکتوم بلوچستان میں سمنگلی، پنج پائی کوئٹہ میں شکار کھیلنے کا اجازت نامہ حاصل کر چکے ہیں۔ جبکہ شاہی خاندان کے ایک اور رکن شیخ سیف بن محمد کو بلوچستان کے علاقے لورا لائی میں دوکی ایریا کا اجازت نامہ دیا گیا ہے۔ شاہی خاندان کے رکن شیخ سلطان بن تانوں کو میر پور خاص میں شکار کا پرمٹ جاری کیا گیا ہے۔
دنیا بھر کے فٹبال شائقین کی نظریں قطر پر ہیں جہاں عالمی کپ کھیلا جارہا ہے جبکہ وہاں کے حکمران شکار کا شوق پورا کرنے کے لیے پاکستان کے میدانی و ساحلی علاقوں میں ہوں گے۔
قطر کے امیر شیخ ترمیم بن حماد التہانی کو پنجاب میں جھنگ، بلوچستان میں قلات، سندھ میں ڈیلپو اور اسلام کوٹ کا علاقہ دیا گیا ہے جبکہ قطر کے وزیر اعظم شیخ خالد بن خلیفہ بن عبدالعزیز کے پاس جیکب آباد میں شکار کرنے کا اجازت نامہ ہے۔ اسی طرح قطر کے امیر کے والد شیخ حمد بن خلیفہ کو پنجاب میں لیہ، خوشاب اور خیبر پختونخواہ میں ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ الاٹ کیا گیا ہے۔
قطر کے نائب وزیراعظم شیخ محمد بن خلیفہ التہانی دکی کے علاوہ لورا لائی، قطر کے امیر کے بھائی شیخ جاسم بن حمد بلوچستان میں ضلع موسیٰ خیل، شاہی خاندان کے رکن فیصل بن نصیر بلوچستان کے علاقے کاکڑ خراساں اور قمر الدین کاریز قلعہ سیف اللہ میں شکار کریں گے۔
شیخ محمد بن علی کو بلوچستان کے علاقے تربت اور کیچ میں، جبکہ شیخ فلاح بن جاسم بن جبور التہانی اور شیخ فہد بن فلاح کو جھل مگسی میں شکار کھیلنے کی اجازت دی گئی ہے۔
قطر کے سابق وزیر اعظم شیخ حمد بن جاسم پنجاب کے علاقے بکھر، شاہی خاندان کے رکن شیخ محمد بن فیصل سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں تحصیل ڈاہلی ، چھاچھرو میں شکار کھلیں گے۔
بحرین کے بادشاہ حماد بن سلمان سندھ کے علاقے جام شورو، تھانہ بولاخان، کوٹڑی مانجھند، سیہون میں شکار کھیلنے کا اجازت نامہ حاصل کر چکے ہیں۔
شاہی خاندان کے رکن اور بادشاہ کے چچا شیخ ابراہیم بن حماد شاہ کو سجاول میں شکار کا اجازت نامہ دیا گیا ہے جبکہ بحرین کی ڈیفنس فورس کے چیف کمانڈر فیلڈ مارشل شیخ خلیفہ بن احمد بلوچستان میں تحصیل ترین وسر موسیٰ خیل میں شکار کھیلے گے۔
بحرین کے وزیر داخلہ اور بادشاہ کے کزن شیخ راشد بن عبداللہ جعفر آباد اور نوشہرو فیروز، بادشاہ کے مشیر شیخ عبداللہ بن سلمان تحصیل جاتی اور سجاول، بادشاہ کے کزن اور رکن شاہی خاندان شیخ احمد بن علی الخلیفہ حیدرآباد، ملیر کے علاوہ دہابیجی چھتو چنڈ میں تلور پرندے کا شکار کریں گے۔
سعودی عرب کے صوبے تبوک کے گورنر شہزادہ فہد بن سلطان بن عبدلعزیز آواران، نوشکی، چاغی اور صوبے ہفت الباطن کے گورنر شہزادہ منصور بن محمد کو ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں شکار کی اجازت دی گئی ہے۔
’شکار کے پرمٹ کو مسترد کرنا تذلیل کے مترادف ہے‘
پاکستان حکومت سپریم کورٹ میں عرب شکاریوں کو شکار کے اجازت ناموں کو اپنی سفارت کاری سے جوڑ چکی ہے، کیا واقعی ایسا ہے۔
جمیل احمد خان متحدہ عرب امارت میں تین سال پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’شکار کے پرمٹ کے اجرا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ عرب کلچر کو سمجھا جائے۔ عرب کلچر میں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے تعلقات کسی کے ساتھ اچھے ہیں اور وہاں درخواست کرتے ہیں تو انھیں یقین ہوتا ہے کہ اس درخواست کو تسلیم کیا جائے گا اور اگر اس کو مسترد کیا جائے تو اس میں وہ اپنی تذلیل سمجھتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’عرب ممالک کے ساتھ ہمارے دو طرفہ تعلقات ہیں ہمارا معاشی مفاد بھی ہے اب ایسے میں جب وہ کوئی درخواست کرتے ہیں تو ہمارے سفارتخانے اور وہاں عملے کو ان کو انکار کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں ہمارے اپنے سربراہان کے کچھ ذاتی تعلقات بھی شامل ہیں، اب ظاہر ہے کہ اگر قطر کا وزیر اعظم آ رہا ہے اور اس کو پرمٹ دیا گیا ہے یا دبئی کے صدر پہلی بار آئے تھے تو ان کو انکار کرنا پاکستانی خارجہ پالیسی کے لیے مناسب بات نہیں تھی۔‘
جمیل احمد خان کے مطابق عرب شاہی خاندانوں میں اجازت نامہ حاصل کرنے کے حوالے سے مقابلے کا بھی رجحان رہتا ہے، ایک ملک کے سربراہ کے بجائے اگر دوسرے ملک کے سربراہ کو اس جگہ کا اجازت نامہ مل جائے تو اس میں کافی مقابلہ چلتا ہے کہ ہم نے پہلے درخواست دی تھیں ہمیں یہ علاقہ کیوں نہیں دیا گیا۔‘
’یہ ایک ہاتھ دو، ایک ہاتھ لو والا معاملہ ہے‘
پاکستان کے شہری سعودی عرب، قطر، کویت اور عرب امارات میں ملازمتیں کرتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال اکتوبر میں سعودی عرب سے 570 ملین ڈالرز، متحدہ عرب امارات سے 427 ملین ڈالرز کی ترسیلات بھیجی گئیں۔
ایم عالم بروہی بھی پاکستان کے کئی مممالک میں سفیر رہے چکے ہیں وہ شکار کے پرمٹ کو معاشی مفاد سے بھی جوڑتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ باہمی روابط کو مضبوط کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ اب اس میں تعلقات میں کتنی بہتری آتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ کس کس ملک سے لوگ آتے ہیں اور آپ کے کتنے لوگ وہاں کام کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں قطر، متحدہ عرب امارات سے شاہی حکمران آتے ہیں وہاں آپ کے لوگ کام کر رہے ہیں آپ کو زر مبادلہ بھیج رہے ہیں یہ تو ایک ہاتھ دو ایک ہاتھ لو والا معاملہ ہوتا ہے اس کو باہمی تعلقات کے روشنی میں دیکھیں تو نقصان نہیں ہوتا ہے۔‘
مئی 2005 کی ایک سفارتی کیبل، جو 2011 میں وکی لیکس کی طرف سے منظر عام پر آئی تھی، میں متحدہ عرب امارات کی وزارت خارجہ میں ایشیائی اور افریقی امور کے شعبے کے ڈائریکٹر احمد المصلی کے حوالے سے کہا تھا کہ ’متحدہ عرب امارات میں 500,000 سے 600,000 پاکستانی مقیم ہیں اور متحدہ عرب امارات کے حکمران خاندانوں کے افراد اکثر شکار کے لیے پاکستان آتے ہیں، المصلی کو ان شاہی شکاریوں کی سلامتی کی فکر تھی۔
’شاید وہ (دشمن) یہاں (متحدہ عرب امارات میں) کچھ نہیں کر سکتے، لیکن وہ وہاں (یعنی پاکستان) میں کوشش کر سکتے ہیں، خاص طور پر جب ہمارے رہنما وہاں سفر کرتے ہیں۔‘
مقامی ترقی اور شکار کے اجازت نامے کی فیس
پاکستان کی وزرات خارجہ کی جانب سے صوبائی محکمہ جنگلی حیات کو بھیجی گئی تفصیلات میں آگاہ کیا گیا ہے کہ تلور کے شکار کا موسم یکم نومبر سے 31 جنوری تک ہو گا، فی مہمان شخصیت سے ایک لاکھ امریکی ڈالر فی علاقہ میں دس روز کی فیس وصول کی جائیگی اور اضافی قیام کی صورت میں مزید ایک لاکھ ڈالر وصول ہوں گے، فی باز کی فیس ایک ہزار ڈالر ہو گی۔
شاہی خاندان سے حاصل ہونے والی یہ رقم کہاں جاتی ہے اس بارے میں وزرات خارجہ کے فارمولے کے مطابق پچاس فیصد متعلقہ علاقے کی ترقی، 35 فیصد تلور کی افزائش اور پندرہ فیصد سکیورٹی کی مد میں خرچ کیے جاتے ہیں۔
لاڑکانہ، رحیم یار خان، میرپور ساکرو، دالبندین میں شیخ زید کے نام سے ہسپتال موجود ہیں جبکہ گذشتہ کئی برسوں میں عرب ممالک کی سماجی سرمایہ کاری نہیں دیکھی گئی۔
سابق سفیر جمیل احمد خان کہتے ہیں کہ شیخ زید کے زمانے میں کافی چیزیں دکھائی دیتی تھی جو کہ نمایاں تھی اس کے بعد سے کام ہوئے بھی ہیں لیکن محسوس نہیں ہوئے اس کا کوئی فریم ورک انھوں نے نہیں دیکھا ہے کہ حکومت کوئی فریم ورک دے یا حکومت اس پوزیشن میں ہو کہ ان کو ڈکٹیٹ کراسکے۔
سابق سفیر ایم عالم بروہی بتاتے ہیں کہ ’عرب شاہی خاندان مغربی افریقہ، سینگال، نائجر اور قازقستان بھی جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ پرندے آتے ہی وسطی ایشیا سے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں سینیگال میں سفیر رہا ہوں میں نے وہاں ان کا کام نہیں دیکھا، پاکستان میں شیخ زید نے لاڑکانہ میں دو کالونیاں بنوائیں، اسی طریقے سے شیخ زید ہسپتال بنایا ہے اور چلڈرن سپتال بنایا اس وقت رحیم یار خان میں ایئر پورٹ اور اپنا گھر بنوایا وہاں ہسپتال بھی بنایا ہے۔‘
مقامی سہولت کار اور شکاری
پاکستان کے جن بھی علاقوں میں عرب شاہی خاندان یا حکمران شکار کرتے ہیں مقامی سردار، زمیندار یا بااثر لوگ ان کی سہولت کاری کرتے ہیں حال ہی میں ان کی مزاحمت اور مذمت دونوں واقعات پیش آچکے ہیں۔
سابق سفیر ایم عالم بروہی کہتے ہیں کہ مقامی میزبان کا رویہ اپنے لوگوں کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے، اس کا معاشی اور کلچرل فیکٹرز ہو سکتا ہے قومیت کا عنصر بھی آسکتا ہے کہ یہ کہاں سے آگئے؟ یہ ہمارے ملک میں شکار کر کے چلے جاتے ہیں۔‘
جمیل احمد خان ناظم جوکھیو قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت بڑا دردناک واقعہ تھا اور ناظم جوکھیو کا کیونکہ میڈیا سے بھی تعلق تھا، وہ ایک کارکن تھا۔
’جہاں سماجی کارکن ہیں، ان میں شعور آرہا ہے۔ بنیادی طور پر تو سہولت کاروں کا معاملہ بنتا ہے۔ عرب شکاری تو مہمان ہیں ان کو جو بلائے گا، وہ آجائیں گے۔
’لیکن جو مقامی بااثر لوگ ہیں وہ اپنے مفادات کو بھی دیکھتے ہیں۔