موروثی سیاست یا نئے چہرے: پنجاب میں حمزہ شہباز کی کابینہ میں کون کون شامل ہے؟
سیاست میں دلچسپی رکھنے والی نئی نسل کا ایک حصہ ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سے کئی موضوعات پر اختلافات رکھتا ہے۔
ان میں سے ایک اہم تنقیدی نکتہ یہ ہے کہ ان جماعتوں میں موروثی سیاست کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور نئے سیاسی چہروں، نوجوانوں کی نمائندگی کی بجائے پرانے سیاسی چہروں کو اہم عہدوں کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔
وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل ناموں پر نظر ڈالی جائے تو اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ تمام وزرا موروثی سیاست سے منسلک ہیں اور ان کے کئی رشتہ دار یا تو موجودہ اسمبلیوں کا حصہ ہیں یا پھر سابقہ حکومتوں میں شامل رہ چکے ہیں۔
اس صورتحال میں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا مسلم لیگ ن کو نئے سیاسی چہروں کو موقع دینا چاہیے تھا؟ آخر کن وجوہات کی بنا پر ایسے وزرا کو کابینہ میں شامل کیا گیا جو مضبوط سیاسی بیک گراؤنڈ اور اہم سیاسی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق پہلے مرحلے میں آزمودہ اور تجربہ کار افراد کو سامنے لایا گیا ہے جو مختلف شعبوں میں تجربہ رکھتے ہیں۔
یہ تاثر درست ہے کہ موروثیت کو ترجیح دی جاتی ہے اور اثر و رسوخ رکھنے والے روایتی سیاستدان اکثر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں لیکن اب ملک کی آبادی میں ساٹھ فیصد سے زائد نوجوان لوگ ہیں اور سیاسی جماعتوں کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ جماعتوں کو جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے چہروں کو بھی سامنے لانا چاہیے۔
نئے چہروں کی حوصلہ افزائی کی توقع عمران خان سے تھی لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف کے نوجوان بھی اس معاملے میں مایوس ہوئے۔
آئینی و پارلیمانی امور کے ماہر اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کے مطابق جب بھی کسی کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ آتا ہے تو اس میں کسی بھی پارٹی کا پہلا معیار ارکان کی وفاداری اور قربانی ہوتی ہے۔
سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ قربانی دینے والے وفاداروں کو بطور انعام کابینہ میں شامل کیا جانا چاہیے۔
دوسرے نمبر پر ارکان کے انتخابی حلقوں میں اثر و رسوخ کے ساتھ مالی و افرادی حیثیت کو مدنظر رکھا جاتا ہے، تیسرے درجے میں قابلیت بھی کردار ادا کرتی ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ علاقائی نمائندگی کا خیال رکھا جاتا ہے۔
موروثیت کسی رکن کے انتخاب کو مضبوط بنا سکتی ہے لیکن محض سیاسی گھرانے سے تعلق کافی نہیں کیونکہ کابینہ میں شمولیت مختلف معیارات کا مجموعہ ہوتا ہے۔
اس صورتحال میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن کے ناقدین کا یہ موقف درست ثابت ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں موروثی سیاست کا غلبہ ہے اور سیاسی گھرانوں سے تعلق نہ رکھنے والے نوجوانوں کو پارٹی اہم مواقع پر نظر انداز کر دیتی ہے؟
سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق یہ کہنا نا انصافی ہو گی کہ حمزہ شہباز اور مریم نواز محض موروثی سیاست کی وجہ سے صف اول میں ہیں۔
’حمزہ شہباز کا اٹھائیس سالہ سیاسی کیرئیر ہے جس میں انھوں نے جیلیں کاٹیں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن بھی جیتے۔ اسی طرح مریم نواز نے پارٹی کے لیے کام کیا اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ انھوں نے اپنی جماعت کے لیے مشکل حالات کا مردانہ وار سامناکیا، جب پارٹی کے کئی لوگ سامنے آنے سے کترا رہے تھے۔‘
احمد بلال محبوب کی رائے میں موروثی سیاست کے غلبے کا تاثر کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں پر صادق آتا ہے، چونکہ اکثر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں اور جس کی وجہ سے ممبر سازی اور تنظیم سازی پر توجہ نہیں دی جاتی، اس لئے نئے لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع نہیں ملتا۔
نسبتاً نئی سیاسی جماعتوں مثلاً تحریک انصاف میں اس حوالے سے گنجائش تھی اور انھوں نے کسی حد تک جوانوں کو موقع دیا۔ تاہم تحریک انصاف بھی جب دوبارہ الیکشن میں جائے گی تو آزمائے ہوئے لوگوں کو زیادہ موقع دے گی۔
اس حوالے سے حمزہ شہباز کی کابینہ کا جائزہ لیتے ہیں۔
سردار اویس خان لغاری
مسلم لیگ ن پنجاب کے جنرل سیکرٹری سردار اویس لغاری 1997 میں پہلی مرتبہ ایم پی اے بنے۔
سنہ 2002 میں نیشنل الائنس کی ٹکٹ پر ایم این اے اور ایم پی اے کا الیکشن جیتا۔ جنرل مشرف دور میں وہ وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی رہے۔
سنہ 2011 میں اپنے والد فاروق لغاری کی وفات کے بعد ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
سنہ 2013 میں آزاد حیثیت میں جیت کر مسلم لیگ ن کا حصہ بنے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی وفاقی وزیر رہے۔
ان کے والد فاروق لغاری پیپلز پارٹی کی جانب سے صدرِ پاکستان اور وفاقی وزیر رہے جبکہ ان کے بھائی جمال لغاری ایم پی اے اور سینیٹر رہ چکے ہیں۔ سابق ایم این اے سمیرا ملک اور عائلہ ملک ان کی کزن ہیں۔
دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ اویس لغاری کے والد فاروق لغاری 1988 میں وفاقی وزیر توانائی تھے جبکہ اویس لغاری بھی تیس سال بعد 2018 میں وزیر توانائی بنے۔
ملک محمد احمد خان
نرم اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والے ملک محمد احمد خان گرمیِ گفتار سے کام لینے والے عابد شیر علی اور طلال چوہدری جیسے ترجمانوں کی موجودگی میں اپنا علیحدہ مقام بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
وہ پہلی مرتبہ 2002 میں مسلم لیگ ق سے ایم پی اے بنے اور پارلیمانی سیکرٹری رہے۔ سنہ 2008 میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن جیت نہ سکے، 2013 میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور دوسری مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے۔
سنہ 2018 میں تیسری مرتبہ پنجاب اسمبلی کا حصہ بنے۔ ملک محمد احمد خان پنجاب حکومت کے ترجمان بھی رہ چکے ہیں۔
گذشتہ دس سال میں ملک احمد خان اور اویس لغاری ایسے سیاستدان ہیں جو دوسری جماعتوں سے آنے کے باوجود ن لیگ کے اہم رہنما شمار کیے جاتے ہیں۔
ملک احمد کے والد ملک محمد علی خان آف کھائی 1970 میں پنجاب اسمبلی کے ممبر بنے، جب قصور ضلع نہیں بلکہ لاہور کی تحصیل تھی۔
ان کے والد ملک محمد علی 1985 سے 1994 تک سینیٹ کے ممبر رہے اور دو سال ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
رانا محمد اقبال خان
دس سال تک سپیکر پنجاب اسمبلی رہنے والے رانا اقبال چھٹی مرتبہ ایم پی اے بن کر صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں۔ انہوں نے 1979 میں بلدیاتی سیاست سے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
بعد ازاں وائس چئیرمین ضلع کونسل قصور اور پھر چئیرمین ضلع کونسل قصور منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 1993 میں والد رانا پھول محمد کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں بلا مقابلہ ایم پی اے منتخب ہوئے۔
سنہ 2002 میں خاندانی اختلافات کی وجہ سے اپنے ہی ایک رشتہ دار سے ہار گئے۔ 2008 سے 2018 تک دس سال پنجاب اسمبلی کے سپیکر رہے۔ انہوں نے 1993 سے اب تک ایک الیکشن کے علاوہ سب میں کامیابی حاصل کی۔
ان کے والد رانا پھول محمد خان 1965 سے 1990 تک چھ مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے اور ایک سے زائد مرتبہ وزیر بھی رہے۔ اس طرح پاکستان میں اسے ایک سیاسی ریکارڈ کہا جا سکتا ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں چھ چھ مرتبہ ایم پی اے رہے۔
خواجہ سلمان رفیق
صوبائی وزیر خواجہ سلمان رفیق مشہور مسلم لیگی رہنما خواجہ رفیق کے بیٹے ہیں۔ خواجہ رفیق کو بھٹو دور میں مال روڈ لاہور پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اس وقت سلمان رفیق کی عمر صرف سات سال تھی۔ تیسری مرتبہ ایم پی اے بننے والے سلمان رفیق پہلے بھی صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔
ان کی والدہ بیگم فرحت رفیق اندرون لاہور سے مقامی کونسلر رہیں اور بعد ازاں 1985 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور ایم پی اے منتخب ہوئیں۔ ان کے بھائی سعد رفیق 1997 اور 2018 میں دو مرتبہ ایم پی اے رہے اور چوتھی مرتبہ ایم این اے ہیں۔
دونوں بھائیوں کو تحریک انصاف کی حکومت میں نیب نے غیر قانونی ہاؤسنگ منصوبے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور انہیں 15 ماہ بعد ضمانت پر رہائی ملی۔
عطاءاللہ تارڑ
عطا اللہ تارڑ کے دادا جسٹس رفیق تارڑ صدر پاکستان اور سابق سینیٹر رہے ہیں۔ رفیق تارڑ کے شریف فیملی سے قریبی تعلقات تھے۔
انھیں ریٹائرمنٹ کےکچھ ہی سال بعد سینیٹر منتخب کروایا گیا اور بعد میں وہ صدر پاکستان بنے۔ عطاءاللہ تارڑ کے چھوٹے بھائی بلال تارڑ گکھڑ منڈی گوجرانوالہ سے موجودہ ایم پی اے ہیں جبکہ ان کی چچی سائرہ افضل تارڑ وفاقی وزیر اور ایم این اے رہ چکی ہیں۔
بطور سرکاری ملازم وہ حمزہ شہباز شریف کے زیر نگرانی حکومت پنجاب کے پبلک افیئرز یونٹ میں کام کرتے رہے۔ پبلک افئیرز یونٹ کا مقصد عوامی مسائل کا حل اور ترقیاتی سکیموں کی بروقت تکمیل بتایا گیا تھا۔
بعد ازاں مسلم لیگ ن کی حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد عطاءاللہ تارڑ سرکاری ملازمت سے استعفی دیکر عملی سیاست میں سرگرم ہو گئے۔
سید حسن مرتضی
پنجابی زبان کا خوبصورتی سے استعمال کرتے ہوئے سیاسی مخالفین پر لفظی تیر اندازی کرنے والے سید حسن مرتضی رجوعہ سادات چنیوٹ کے مشہور سادات خاندان سے ہیں۔
انھیں پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ سیاسی حالات پر ان کی مزاحیہ پنجابی مثالوں اور فقرے بازی کو عوامی پذیرائی بھی ملتی ہے۔ موجودہ اسمبلی میں وہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔
انھوں نے بلدیاتی سیاست میں ممبر ضلع کونسل جھنگ کی حیثیت سے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں چئیرمین یونین کونسل کا الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔ 2002 میں پہلی مرتبہ اور 2008 میں دوسری بار ایم پی اے منتخب ہوئے۔
سنہ 2013 کا الیکشن سابق ایم این اے مولانا ذاکر کے بیٹے مولانا رحمت اللہ سے ہار گئے۔ 2018 میں تیسری مرتبہ جیت کر اسمبلی کا حصہ ہیں۔
ان کی سیاسی زندگی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ 1985 میں ان کے ماموں سید ظفر عباس نے ان کے والد سید غلام مرتضی کو ایم پی اے کے الیکشن میں شکست دی۔
یہی شکست سید حسن مرتضی کے سیاست میں آنے کا باعث بنی اور پھر 2002 میں وہ دن بھی آیا جب سید حسن مرتضیٰ اپنے اُنہی ماموں کو صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہرا کر ایم پی اے منتخب ہوئے۔
سید علی حیدر گیلانی
مئی کے مہینے میں صوبائی وزیر بننے والے سید علی حیدر گیلانی کو 9 سال پہلے مئی کے مہینے میں ہی اغوا کیا گیا تھا۔ اس وقت وہ 2013 کے الیکشن کی انتخابی مہم میں مصروف تھے۔
اغوا کے تین سال بعد ان کی بازیابی ممکن ہوئی۔ علی حیدر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے ہیں۔ جب علی حیدر گیلانی کے والد وزیراعظم تھے، اس وقت علی حیدر کے بھائی عبدالقادر گیلانی رحیم یار خان سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔
اس کے بعد انہوں نے استعفی دے کر ملتان سے ایم این اے کے ضمنی الیکشن لڑا اور اس میں بھی کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح علی حیدر گیلانی کے ایک اور بھائی علی موسی گیلانی بھی ضمنی الیکشن میں کامیاب ہو کر ایم این اے منتخب ہوئے۔
یوسف رضا گیلانی کے دو بیٹوں اور ایک بھائی کو ان کی وزارت عظمی میں انتخابات جیتنے کا موقع ملا لیکن اس کے بعد ابھی تک تینوں دوبارہ کامیاب نہ ہو سکے۔ پیپلز پارٹی دور میں یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمی ختم ہونے کے بعد گیلانی خاندان کی نوجوان نسل میں سے علی حیدر گیلانی 2018 میں پنجاب اسمبلی کا حصہ بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
بلال اصغر وڑائچ
صوبائی وزیر بلال اصغر وڑائچ ٹوبہ ٹیک سنگھ سے چوتھی مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے ہیں۔
ان کے والد چوہدری علی اصغر وڑائچ 1977 میں ایم پی اے رہے۔ ان کے بھائی امجد وڑائچ اور بھابی فرخندہ امجد وڑائچ دونوں ایم این اے رہ چکے ہیں۔
اسی طرح ان کے دوسرے بھائی خالد جاوید وڑائچ بھی ایم پی اے رہے اور اب دوسری مرتبہ مسلم لیگ ن سے ایم این اے ہیں۔ خاندان میں سیاسی اختلافات کے بعد بھائی نے بھائی کے خلاف، دیور نے بھابھی کے خلاف الیکشن لڑے۔
ان کے بھائی امجد وڑائچ 2013 میں اپنی جماعت نیشنل مسلم لیگ تشکیل دے کر سامنے آئے۔ بلال وڑائچ نے بھی اسی جماعت سے الیکشن میں حصہ لیا۔
پنجاب کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایسے ہوا کہ ایم این اے کی سیٹ پر دیور خالد جاوید وڑائچ نے اپنی بھابی فرخندہ امجد وڑائچ کو ہرایا جبکہ دوسرے دیور بلال وڑائچ دوسری بھابی فوزیہ خالد وڑائچ کو ہرا کر ایم پی اے منتخب ہوئے۔
سنہ 2018 میں بلال اصغر وڑائچ کے بھائی خالد جاوید وڑائچ نے ایم این اے اور ایم پی اے دونوں نشستیں جیت لیں۔ جس کے بعد ضمنی انتخاب میں بلال وڑائچ ایم پی اے منتخب ہوئے۔