مستعفی ہونے کے باوجود بدعنوانی کے الزام میں سپریم کورٹ

مستعفی ہونے کے باوجود بدعنوانی کے الزام میں سپریم کورٹ

مستعفی ہونے کے باوجود بدعنوانی کے الزام میں سپریم کورٹ کے جج کے خلاف کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟

گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو سینیئر ججوں نے اپنی مدمت ملازمت پوری ہونے سے قبل ہی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ مستعفی ہونے والے جج سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے الزامات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری ہے جبکہ مستعفی ہونے والے دوسرے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے استعفے میں اُن وجوہات کا ذکر نہیں کیا جن کی بنا پر وہ مستعفی ہوئے ہیں۔

اگرچہ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے استعفے میں وجوہات کا ذکر نہیں کیا مگر ماضی قریب میں سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر کے طور پر انھوں نے اپنے ساتھی جج جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف کونسل میں ہونے والی کارروائی جلد از جلد نمٹانے کا الزام عائد کیا تھا۔

انھوں نے اس ضمن میں ایک خط بھی سپریم جوڈیشل کونسل کو تحریر کیا تھا اور بعدازاں وہ کونسل کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تھے جس کی وجہ سے جسٹس منصور علی شاہ کو کونسل کا رکن بنایا گیا تھا۔

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں عمومی طور پر یہ روایت رہی کہ اگر کسی جج کے خلاف مِس کنڈکٹ یا بدعنوانی کے الزامات عائد ہوتے ہیں اور الزامات ثابت ہونے سے قبل ہی متعلقہ جج مستعفی ہو جائے تو اُس کے خلاف شکایات پر مزید کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور کیس داخل دفتر ہو جاتا ہے۔

تاہم 11 جنوری (جمعرات) کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی جج پورے ادارے کی ساکھ تباہ کر کے استعفیٰ دے جائے اور ہم کوئی کارروائی نہ کریں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے، کوئی تو فائنڈنگ دینی ہے کہ شکایات جینوئن تھیں یا نہیں۔‘

قانونی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے جسٹس مظاہر کے مستعفی ہونے کے بعد بھی اِن ریمارکس کا آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی ماضی کی روایت کے برعکس کونسل اس معاملے پر کارروائی جاری رکھے گی اور اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے گی۔

تاہم اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے جج کے مستعفی ہونے کے بعد کیا اُن کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے؟ اور اگر مزید کارروائی کی جا سکتی ہے تو اس کا فورم کیا ہو گا؟

مظاہر علی اکبر نقوی
مستعفی ہونے والے جج سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف مبینہ بدعنوانی کے الزامات پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری ہے

سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ آئین میں اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کو قانونی کارروائی سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف ریفرنس اور اس کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں شروع ہونے والی کارروائی آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت عمل میں لائی جاتی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی حاضر سروس، مستعفی یا ریٹائر ہونے والے جج کے خلاف مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات شروع کر سکتا ہے۔

عرفان قادر کا کہنا تھا کہ سنہ 2004 میں جب وہ نیب کے پراسیکوٹر جنرل تھے اور اس دور میں اعلی عدلیہ کے دو ججوں شیخ ریاض اور ملک قیوم کے بارے میں بھی ایسا ہی معاملہ سامنے آیا تھا اور انھوں نے اس وقت بھی یہ رائے دی تھی کہ نیب کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ان ججز کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ نیب کی طرف سے مذکورہ ججز کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی تو عرفان قادر کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے نیب ججز کے خلاف کارروائی کرنے سے گھبرا رہا تھا ورنہ قانون کے مطابق ان کے پاس کارروائی کرنے کا اختیار ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر اس وقت نیب اعلی عدلیہ کے ان دو ججز کے خلاف کارروائی کو انجام تک پہنچاتا تو صورتحال آج مختلف ہوتی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس حمید الرحمن، جو ماضی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں، پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھرتیوں میں اثرانداز ہونے کا الزام تھا تاہم یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پہنچنے سے پہلے ہی انھوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔

اعجاز الاحسن
سابق جج جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے استعفے میں مستعفی ہونے کی وجوہات کا ذکر نہیں کیا ہے

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھرتیوں کے معاملے پر ایک آڈٹ پیرے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھرتیاں میرٹ پر نہیں ہوئیں جس کی بنیاد پر ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر ہوئی اور سنہ 2016 میں جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے اس درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی ان بھرتیوں میں بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔

اس عدالتی فیصلے کے بعد جسٹس حمید الرحمن اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔

جسٹس اعجاز الاحسن پر اگرچہ بدعنوانی کا تو کوئی الزام نہیں ہے تاہم ماضی قریب میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کیسوں پر بننے والے بینچوں میں ان کی شمولیت پر اعتراضات عائد کیے تھے۔ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی جسٹس اعجاز الاحسن کی اس بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا تھا جو ان کی طرف سے اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت کر رہا تھا۔

درخواست گزار کے طرف سے اٹھائے گئے اعتراض پر جسٹس اعجاز الاحسن اس بینچ سے تو الگ ہو گئے تھے لیکن انھوں نے بینچ سے علیحدگی پر خفگی کا اظہار کیا تھا۔

قانونی امور کے ماہر بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا ہے کہ اگر کسی بھی جج کے خلاف کوئی فوجداری کیس بنتا ہے تو اُس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے اور انھیں کسی قسم کا قانونی یا آئینی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجے گئے ریفرنس پر کارروائی سے پہلے مستعفی ہو جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ آرٹیکل 209 کے تحت سپریم کورٹ صرف حاضر سروس جج کے خلاف ہی کارروائی عمل میں لا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے عافیہ شہر بانو کی درخواست پر فیصلہ دیا تھا کہ جج کے مستعفی یا مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد اس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔

واضح رہے کہ عافیہ شہر بانو نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں درخواست دائر کی تھی تاہم بطور چیف جسٹس انھوں نے اس شکایت کو نہیں سنا تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی اور کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس سے تمام مراعات واپس لی جائیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا جو جج ریٹائرڈ یا مستعفی ہو جائے تو ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مستعفی ہونے والے جج جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف جمعے کے روز سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے دوران بتایا کہ وفاقی حکومت اس دو رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ آئین میں یا کسی عدالتی فیصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ اگر کوئی جج الزامات کا سامنے کرنے سے پہلے مستعفی ہو جائے تو اس سے وہ تمام مراعات اور پینشن بھی واپس لے لی جائے گی جب تک متعقلہ فورم انھیں ان الزامات سے بری نہیں کر دیتا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ ان ججز کے مستعفی ہونے کے باوجود بھی ان کا احتساب کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان دونوں ججز نے ماضی میں سیاسی معاملات میں مداخلت کی۔

انھوں نے کہا کہ اگر ان کی جماعت کی حکومت آئی تو وہ ان ججز کے خلاف متعقلہ فورم پر کارروائی کرنے کے لیے درخواست دیں گے تاہم مریم اورنگ زیب نے یہ نہیں بتایا کہ متعقلہ فورم کون سا ہو گا۔

یاد رہے کہ مستعفی یا ریٹائرڈ ہونے والے سپریم کورٹ کے جج کی پینشن وہی ہوتی ہے جو ریٹائرمنٹ کے وقت اسے تنخواہ مل رہی ہوتی ہے اور اس وقت سپریم کورٹ کے جج کی تنخواہ 15 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اس کے علاوہ پیٹرول، بجلی کے فری یونٹس کے علاوہ ٹیلی فون کا بل اور ڈرائیور اور خانسامے کی تنخواہ بھی حکومت ادا کرتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف دو ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی کرتے ہوئے انھیں اُن کے عہدوں سے برطرف کیا تھا جس کی وجہ سے وہ بعداز ریٹائرمنٹ مراعات سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی تھے اور دوسرے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی ہیں۔

جسٹس شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے اور عدالت نے ان کی اپیل کی سماعت کے دورا ن یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ ان کی پینشن اور دیگر مراعات بحال کر دے گی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *