لیاقت علی چٹھہ کا انتخابات میں دھاندلی کا الزام

لیاقت علی چٹھہ کا انتخابات میں دھاندلی کا الزام

لیاقت علی چٹھہ کا انتخابات میں دھاندلی کا الزام: کیا کمشنر کا انتخابات کے انعقاد میں کوئی کردار ہوتا ہے؟

’میں نے راولپنڈی ڈویژن کے لوگوں کے ساتھ جو غلط کام کیا ہے، اس پر مجھے پنڈی کے کچہری چوک میں پھانسی کی سزا دینی چاہیے۔‘

سنیچر کی دوپہر راولپنڈی کے سٹیڈیم روڈ پر موجود کرکٹ سٹیڈیم میں ہونے والی ایک عام سی پریس کانفرنس کے دوران شہر کے کمشنر کے منھ سے یہ الفاظ سُن کر وہاں موجود صحافیوں میں اچانک کھلبلی مچ گئی۔

یہ پریس کانفرنس راولپنڈی کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ کی جانب سے شہر میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میچوں کے انعقاد کی تفصیل سے متعلق آگاہ کرنے کے لیے بلائی گئی تھی۔ لیکن پھر اس پریس کانفرنس نے وہ رُخ اختیار کیا جس نے پاکستان میں پہلے سے موجود غیریقینی سیاسی صورتحال کو مزید گہرا کر دیا۔

ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد کوئی بھی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر پائی اور کوئی بھی جماعت اپنے طور پر وفاق میں حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ دوسری جانب مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں متعدد سیاسی جماعتیں احتجاج میں مصروف ہیں۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے غیر سرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی 75 نشستوں پر کامیاب ہو پائی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54، ایم کیو ایم پاکستان کے 17 اور دیگر جماعتوں کے 25 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی 93 نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔

تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ مبینہ دھاندلی کے ذریعے انھیں جیتی ہوئی نشستیں ہروائی گئی ہیں۔

اس سب کے دوران سنیچر کے روز کمشنر راولپنڈی نے اپنی ڈویژن میں قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے ’اعتراف جرم‘ کیا اور سزا کے طلبگار ہوئے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے معاملے کے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

خیال رہے کہ راولپنڈی ڈویژن میں قومی اسمبلی کی کل 13 میں سے 11 نشستوں پر ن لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

سابق کمشنر راولپنڈی نے پریس کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں میں سکون کی موت مروں میں اس طرح کی زندگی نہیں جینا چاہتا۔ میں نے بڑا جرم کیا ہے۔ میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں۔ مجھے اس کی بھرپور طریقے سے سزا دینی چاہیے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ راولپنڈی ڈویژن میں ’70، 70 ہزار کی لیڈ‘ سے ہارنے والے انتخابی امیدواروں کو مبینہ طور پر جعلی مہریں لگا کر جتوایا گیا ہے۔

انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ’اس ساری غلط کاری کی ذمہ داری میں اپنے اوپر لے رہا ہوں اور ساتھ بتا رہا ہوں جو چیف الیکشن کمشنر ہیں، چیف جسٹس ہیں وہ اس کام میں پورے شریک ہیں۔‘

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے اور ثبوت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کے کسی عہدیدار نے الیکشن نتائج کی تبدیلی کے لیے کمشنر راولپنڈی کو کبھی بھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔‘

الیکشن کمیشن کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی ڈویژن کا کمشنر نہ تو ڈپٹی ریٹرنگ افسر، ریٹرنگ افسر یا پریزائڈنگ افسر ہوتا ہے اور نہ ہی الیکشن کے کنڈکٹ میں اس کا کوئی براہ راست تعلق ہوتا ہے۔‘

بعد ازاں لیاقت علی چٹھہ کو راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔

لیاقت علی چٹھہ کے دعوے کو پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے دھاندلی کے موقف کی تائید بنا کر پیش کیا اور ان کے رہنما علی محمد خان نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن نے لیاقت علی چٹھہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے اور ان کے خلاف تحقیقات کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ انتخابات کا انعقاد کمشنر کی نہیں بلکہ ریٹرنگ افسران اور ڈپٹی ریٹرنگ افسران کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کمشنر نہ تو ریٹرنگ افسر ہوتا ہے اور نہ ہی ڈپٹی ریٹرنگ افسر ہوتا ہے۔‘

اسی طرح روالپنڈی ڈویژن کے چند ریٹرننگ اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران کی جانب سے رات گئے کی گئی پریس کانفرنس میں کمشنر راولپنڈی کے الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

انتخابات کے انعقاد میں کسی ڈویژن کے کمشنر کا کیا کردار ہوتا ہے؟

voting

الیکشن کمیشن اور ن لیگ کی جانب سے وضاحت اور تحریک انصاف کی جانب سے کیے جانے والے دعوؤں کے بعد سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا کمشنر کا انتخابی عمل سے کوئی براہِ راست تعلق ہوتا ہے؟

پاکستان کے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر سنیچر کی صبح سے ہی یہ بحث کی جا رہی ہے کہ انتخابی عمل میں کسی بھی ڈویژن کے کمشنر کا کیا کردار ہوتا ہے۔

بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے پتن ترقیاتی تنظیم کے نیشنل کوآرڈینیٹر اور انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے آبزرور سرور باری کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ کمشنر کا انتخابی عمل یا الیکشن ڈیوٹی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر انتخابات کے دوران بطور ریٹرنگ افسران اور ڈپٹی ریٹرنگ افسران کام کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم سرور باری کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں کیونکہ کسی بھی ڈویژن میں تعینات ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کمشنر کو ہی رپورٹ کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان کا باس ہوتا ہے۔

سرور باری کا کہنا تھا کہ ’بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ الیکشن ڈیوٹی کے بعد انھیں دوبارہ اپنے باس کمشنر کے ساتھ ہی کام کے لیے جانا ہوتا ہے۔‘

انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی صوبے میں پہلے وزیراعلیٰ ہوتا ہے جس کے ماتحت صوبائی چیف سیکریٹری ہوتا ہے اور پھر اس کا رابطہ تمام ڈویژنز کے کمشنرز سے ہوتا ہے اور اس طرح کسی بھی صوبے کا کام چلتا ہے۔‘

سنہ 2013 میں پنجاب کے نگران وزیرِ اعلیٰ اور سیاسی تجزیہ کار نجم سیٹھی نے اپنے پروگرام میں اس حوالے سے تفصیل سے بات کی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہر ڈویژن کے اندر ایک انٹیلیجنس کمیٹی بنتی ہے جو انتخابات کی نگرانی یا مانیٹرنگ کرتی ہے جسے ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹی کہا جاتا ہے۔ اس میں آئی ایس آئی، آئی بی، سپیشل برانچ کے لوگ ہوتے ہیں اور ڈی پی او اور ڈپٹی کمشنر بھی موجود ہوتے ہیں۔‘

’اس کمیٹی میں کمشنر نہیں ہوتا، نہ ہی آر اوز یا ڈی آر اوز ہوتے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس کمیٹی میں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ کمشنر کے علم میں ہوتے ہیں کیونکہ ڈپٹی کمشنر رپورٹنگ کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے کمشنر کو سب پتا ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

’یہ (کمشنر راولپنڈی) جھوٹ بول رہے ہیں یا سچ، یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے لیکن انھیں معاملات کا کچھ نہ کچھ علم ضرور ہو گا۔‘

دوسری جانب سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کی جگہ پر کمشنر راولپنڈی کا چارج سنبھالنے والے سیف انور جپہ نے بھی جہلم، اٹک اور چکوال کے ڈی آر اوز کے ہمراہ سنیچر کو رات گئے ایک پریس کانفرنس کی۔

اپنی پریس کانفرنس میں راولپنڈی کے نئے کشمنر سیف انور جپہ کا کہنا تھا کہ ’سابق کمشنر کی جانب سے دھاندلی کے الزامات کی تردید کرتا ہوں، حالیہ انتخابات سے کمشنر کا کوآرڈینیشن کے علاوہ کوئی تعلق نہیں تھا۔‘

اس پریس کانفرنس میں موجود ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسران نے کمشنر کے الزامات کی تردید کی اور دعویٰ کیا کہ الیکشن کا انعقاد صاف اور شفاف انداز میں ہوا ہے اور اس ضمن میں ان پر کوئی دباؤ نہیں تھا۔

خیال رہے کہ سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا جب سابق ایڈیشنل سیکریٹری الیکشن کمیشن افضل خان کی جانب سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان کی جانب سے پنجاب الیکشن کمیشن کے اس وقت کے ایڈیشنل سیکریٹری ریاض کیانی، چیف جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس تصدق حسین جیلانی پر بھی الزام عائد کیا تھا۔ ان الزامات کے جواب میں ریاض کیانی نے افضل خان پر دو کروڑ روپے کے ہتکِ عزت کا کیس کیا تھا تاہم افضل خان نے سنہ 2016 میں اپنے الزامات واپس لیتے ہوئے ایڈیشنل سیکریٹری سے معافی مانگ لی تھی۔

لیاقت علی چٹھہ کون ہیں؟

chatta

لیاقت علی چٹھہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سروس میں آنے والے آفیسر ہیں۔ ۔

بطور کمشنر راولپنڈی تعیناتی سے قبل وہ ڈیرہ غازی خان میں بحیثیت کمشنر تعینات تھے۔ راولپنڈی میں ان کا تبادلہ ڈیرہ غازی خان سے ہوا ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں وہ دو مرتبہ کمشنر رہے چکے ہیں۔

ماضی میں وہ گجرات اور فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنر بھی تعنیات رہ چکے ہیں۔ ان کے کریئر کو جانے والے ایک حاضر سروس افسر کے مطابق چٹھہ اپنی سروس کے دوران صوبہ پنجاب میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

وہ پنجاب ہاؤسنگ ٹاؤن پلائنگ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، ہاؤسنگ اربن ڈویلپنمنٹ اینڈ پبلک ہیلتھ انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ ساؤتھ پنجاب اور لاہور کے سیکریٹری کے علاوہ پبلک پراسیوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بھی تعنیات رہے ہیں۔

لیاقت علی چھٹہ کا تعلق حافظ آباد کے ایک زمیندار گھرانے سے ہے۔

لیاقت علی چھٹہ کے بہنوئی شعیب حیات نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لیاقت علی چٹھہ نفیس انسان ہیں۔ ان کے والد پڑھے لکھے نہیں تھے۔ ان کی والدہ انتہائی ملنسار اور سمجھدار خاتون تھیں۔ بنیادی طور پر یہ ان کی والدہ کی تربیت تھی کہ لیاقت علی چٹھہ سوئیاں والا علاقے کے پہلے افسر بنے تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمٹ ہائی سکول سوئیاں والا سے حاصل کی اور اس کے بعد باقی تعلیم گورنمٹ کالج گوجرانوالہ سے حاصل کی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد یہ ماسٹرز کے لیے پنجاب یونیورسٹی چلے گئے تھے۔ ماسٹرز کے بعد انھوں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان دیا اور یہ امتحان تیسری کوشش میں پاس کر کے وہ 1992 میں بطور ایگزیکٹیو مجسٹریٹ تعنیات ہوئے تھے۔‘

ان کے بہنوئی کا کہنا تھا کہ ’جب انھوں نے امتحان پاس کیا تو پورے گاؤں میں خوشیاں منائی گئی تھیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *