قطر میں خواتین کی ’مردانہ سرپرستی‘ کا نظام کیسے کام کرتا ہے؟
اب جبکہ ورلڈ کپ کا سیزن جاری ہے تو غروب آفتاب کے بعد قطر میں ’دوحہ بے‘ نامی علاقہ مختلف ثقافتوں کے میلاپ کے لیے پسندیدہ مقامات میں سے ایک بن چکا ہے۔
شام کے اوقات میں جیسے ہی درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک گِرتا ہے تو فیملیز، فٹبال پرستار اور متجسس افراد قطر کے درالحکومت دوحہ کی ساحلی سڑک ’ال کورنیشے ایونیو‘ کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں مغربی سیاحوں اور مقامی قطری خاندانوں کے درمیان تضاد کو واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ قطری خاندان غیر ملکی سیاحوں کو حیرت سے دیکھتے ہیں۔
30 لاکھ باشندوں کی اس مسلم ریاست یعنی قطر میں قطری باشندوں کی تعداد فقط ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
یہاں اسلامی اصولوں کی تشریحات کا ایک پورا ماحول موجود ہے مگر یہاں پر قدامت پسند، روایتی خاندان اور ترقی پسند لبرل بھی ہیں۔
کورنیشے ایونیو پر ایک طرف آپ کو کالے رنگ کے برقعوں میں مکمل طور پر ڈھکی ہوئی خواتین نظر آتی ہیں اور ساتھ ساتھ سکارف سے سر اور گردن کو ڈھانپے خواتین بھی نظر آئیں گی۔
لیکن جو مسائل انھیں متاثر کرتے ہیں وہ ان کے لباس سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔
قطر میں خواتین کی ’مردانہ سرپرستی‘ کے نام سے جانا جاتا ایک نظام ہے، جسے اس نظام کے مخالفین ’ساری زندگی نابالغ کی طرح رہنے‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
بی بی سی نے برطانیہ میں مقیم ’زینب‘ سے بات کی، جو اگرچہ قطر کی شہری ہیں مگر اپنے ملک سے باہر رہنے کے باوجود وہ اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
زینب کا کہنا ہے کہ قطری قانون کے اندر بعض قدامت پسند مذہبی عناصر نے اُن کی ذہنی صحت کو اس حد تک متاثر کیا کہ انھوں نے خودکشی کا بھی سوچا۔
زینب کہتی ہیں: ’زندگی کے ہر بڑے فیصلے کے لیے آپ کو ایک مرد سرپرست کی واضح تحریری اجازت درکار ہوتی ہے۔ اگر آپ کو یہ اجازت نہ ملے تو آپ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے، چاہے وہ کالج میں داخلہ لینا ہو، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنی ہو، سفر کرنا ہو، شادی کرنی ہو یا طلاق۔‘
تاہم، تمام خاندان مردانہ سرپرستی کے اس پیچیدہ نظام کی پیروی نہیں کرتے ہیں۔
شائمہ شیرف ایک ثقافتی تنظم ’ایمبریس دوحہ‘ کی شریک بانی ہیں جو قطر میں مقیم غیر ملکی کمیونٹی اور سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ملک کی ثقافت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
شیرف نے بی بی سی کو بتایا کہ سرپرستی کا اطلاق بذات خود کسی قانون کا نعم البدل نہیں ہے بلکہ خاندانی اصولوں میں رہتا ہے جو اس بات پر منحصر ہے کہ خاندان کتنا قدامت پسند ہے۔ شیرف سکے کے ایک اور رُخ کی نمائندگی کرتی ہیں، یعنی لبرل قطری ماحول جہاں خواتین کو بااختیار بنایا جاتا ہے۔
دوحہ کی بن خلیفہ یونیورسٹی میں قانون اور انسانی حقوق کی پروفیسر ایلینی پولی مینو پولو نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناطے قطر کے آئین کا ماخذ اسلامی شریعت ہے۔
’لیکن شریعت ایک بہت متنوع ضابطہ ہے، جس میں بہت سے مکاتب فکر ہیں، کچھ سخت اور کچھ زیادہ لبرل، چند جدید اور کچھ اصلاح پسند۔‘
قطری آئین کے آرٹیکل 35 کے مطابق تمام لوگ قانون کے سامنے برابر ہیں اور ان کے ساتھ جنس، نسل، زبان یا مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا۔
سنہ 2019 میں ہیومن رائٹس واچ نے قطر میں مردانہ سرپرستی کے نظام پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی جس میں زینب کے کیس سے ملتی جلتی درجنوں شہادتیں اکٹھی کی گئیں۔
ہومین رائٹس واچ کے مطابق مردانہ سرپرستی کا کوئی واضح قانونی نظام نہیں ہے ’بلکہ یہ قوانین، پالیسیوں اور طریقوں کا مرکب ہے جس میں بالغ خواتین کو مخصوص سرگرمیوں کے لیے اپنے مرد سرپرست سے اجازت لینا ضروری ہے۔‘
یہ نظام ان لوگوں کے لیے ایک چیلنج ہے جو اس کا شکار ہیں کیونکہ ’ان امتیازی قوانین اور انتظامی تقاضوں‘ کے دائرہ کار کے بارے میں کوئی وضاحت یا معلومات نہیں ہے۔
مرد سرپرست باپ، بھائی، چچا، یا شوہر ہو سکتا ہے۔
قطری حکومت نے ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کو ’غلط‘ قرار دیا اور کہا کہ بیان کردہ شہادتیں اس کے قوانین کے مطابق نہیں ہیں۔ قطری حکومت نے مقدمات کی تحقیقات اور قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا تھا۔
قطر میں قانون کی استاد پولی مینوپولو کا کہنا ہے کہ ’آزاد خیال خاندانوں کی بہت سی خواتین کو بہت سے کام کرنے کی اجازت ہے، لیکن پھر کچھ ایسے خاندان بھی ہیں جہاں خواتین کو باہر جانے کے لیے سرپرست کی اجازت درکار ہوتی ہے۔ یہ واقعی خاندان پر منحصر ہے۔‘
پولی مینوپولو کہتی ہیں کہ ’میرے بہت سے طالب علم ہمیشہ قانون کو تبدیل کرنے کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ یہ اس طرح کیوں کام کرتا ہے، ان پر پابندیاں کیوں ہے اور ان قوانین میں کیا اصلاحات کی جا سکتی ہیں۔ مگر چند طالبعلم زیادہ قدامت پسند ہیں اور وہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔‘
بی بی سی نے پولی مینو پولو کے کچھ طالب علموں کا انٹرویو کرنے کی درخواست کی، لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے آئے ہوئے صحافیوں کے لیے مقامی قطری شہریوں کو انٹرویو کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔
’مغربی ایجنڈہ‘
قدامت پسند والد ہونے کا مطلب یہ تھا کہ زینب نے اپنی زندگی ایسے نہیں گزاری جیسے وہ چاہتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ایسی خواتین جن کے آزاد خیال قطری خاندان ان پر پابندیاں نہیں لگاتے، انھیں احساس ہی نہیں ہے کہ سرپرستی کا نظام کتنا نقصان دہ ہے۔
زینب کہتی ہیں کہ یہ نظام ایسے خاندانوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی خواتین کو کنٹرول کر کے رکھنا چاہتے ہیں اور یہ قدامت پسند قبائلی خاندانوں کو مطمئن کرنے کے لیے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ عورت کے حقوق ایک مغربی نظریہ ہے اور یہ اسلامی اقدار، روایت اور ثقافت سے متصادم ہے۔‘
تاہم قطر میں ورلڈ کپ کے حکام کا کہنا ہے کہ مردانہ سرپرستی اور دیگر مسائل پر جو تنقید ہو رہی ہے وہ درست نہیں ہے۔
دوحہ کے سٹی آف ایجوکیشن سے تعلق رکھنے والے طالب علم موسیلے کا خیال ہے کہ ’ہمیں مغربی تنظیموں کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ آئیں اور ہمیں بتائیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارا ملک ہے۔ ہمارے پاس اس طریقے سے ترقی کرنے کا موقع ہے جس طرح ہم یقین رکھتے ہیں نہ کہ اس طریقے سے جس کا ہم پر حکم چلایا جائے۔‘
یہ نقطہ نظر کہ وہ خواتین قدامت پسند ہیں جو ان اصولوں کی پاسداری کرتی ہیں اور ان پر یقین رکھتی ہیں جنھیں مغربی لوگ ’پابندی‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، اس حقیقت کا ایک اور چہرہ ہے۔
کولمبیا کی ایک خاتون جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے قطر میں مقیم ہیں، نے بی بی سی کو ان حالات کے بارے میں بتایا جن کی طرف ان کی توجہ قدامت پسند قطری خواتین نے دلائی ہے یا ان کی مخصوص جگہوں تک رسائی محدود کر دی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا لباس مناسب نہیں ہیں۔
’حکام عام طور پر ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ قدامت پسند اسے اپنی اقدار کے خلاف ایک جرم کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
کولمبیا کی خاتون نے شناخت ظاہر نہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’بطور رہائشی ہمیں اس پر زیادہ بات نہیں کرنی چاہیے۔‘
بااختیار نسل
جب قطری حکومت نے ہیوین رائٹس واچ کی رپورٹ کا جواب دیا تو اس نے کہا کہ ’خواتین کو بااختیار بنانا اس کے وژن اور کامیابی کا مرکز ہے۔‘
’قطر میں، خواتین سیاسی اور معاشی فیصلہ سازی سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ قطر صنفی مساوات کے تقریباً تمام اشاریوں میں خطے کے ممالک سے بہتر ہے۔ ان میں لیبر فورس میں خواتین کی سب سے زیادہ شرکت کی شرح، سرکاری شعبے میں مساوی تنخواہیں، اور یونیورسٹی کے پروگراموں میں داخلہ لینے والی خواتین کی سب سے زیادہ شرح شامل ہے۔‘
یہ اس قسم کی کامیابی ہے جس کے بارےمیں شائمہ شیرف سمجھتی ہیں کہ زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
’میرے خیال میں بہت سارے لوگوں کی غلط فہمیاں یہاں آنے پر بدل جاتی ہیں۔ خواتین کے اعداد و شمار خود ہی بولتے ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آئیوی لیگ کی یونیورسٹیوں میں بھی بہت سی قطری خواتین موجود ہیں۔
’یہاں ناقابل یقین حد تک سمارٹ خواتین ہیں اور گذشتہ پانچ برسوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ قطر میں صنفی فرق کو کم کرنے اور خواتین کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جا رہا ہے۔ ہمیں ماں بننے کے لیے بھی وہ سپورٹ حاصل ہے، جو کچھ مغربی ممالک میں بھی نہیں ہوتا ہے۔‘
آرکیالوجی کی گریجویٹ اور کاروباری دنیا سے تعلق رکھنے والی شائمہ کہتی ہیں کہ غیرملکی پریس قطر میں خواتین کے حقوق اور آزادیوں کے بارے میں بات کرتے وقت اس قسم کی چیزوں کو بھی دیکھیں۔
’یقیناً، یہاں سب کچھ پرفیکٹ نہیں ہے اور ہمارے پاس بہتری کی بہت گنجائش ہے۔ لیکن ہمارے پاس لیڈر شپ کے عہدوں پر بہت سی بااختیار خواتین ہیں جو ان مسائل کو بھی سامنے لا رہی ہیں۔‘