ممبئی حملے، 26/11 کیس کے پراسیکیوٹر کا قتل

ممبئی حملے، 26/11 کیس کے پراسیکیوٹر کا قتل

ممبئی حملے، 26/11 کیس کے پراسیکیوٹر کا قتل، نامکمل ٹرائل اور 19 ملزمان تاحال مفرور

یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ 26 نومبر 2020 میں شائع کی گئی تھی، جسے آج قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔

21 نومبر 2008 کی شام ڈھلتے ہی 10 نوجوانوں کو عزیز آباد کراچی سے 100 میل کے فاصلے پر ضلع ٹھٹہ میں واقع کیٹی بندرپورٹ کے قریب ایک گھر میں لایا گیا جہاں انھیں مبینہ ’مشن‘ کی تفصیل سے آگاہ کیا گیا۔ یہ نوجوان کئی ماہ کی مبینہ ٹرینگ کے بعد اب ‘مشن’ کی تکمیل کے لیے تیار تھے۔

ممبئی حملوں میں زندہ بچ جانے والے حملہ آور اجمل قصاب (جنھیں بعد میں پھانسی دے دی گئی تھی) کے اعترافی بیان کے مطابق اگلے ہی روز یعنی 22 نومبر کو ان نوجوانوں کو مختلف اہداف کے نقشے اور اُن کے متعلق آخری بریفنگ دی گئی اور اسی روز شام سات بجے انھیں کیٹی بندر پر موجود ایک بڑی کشتی میں پہنچایا گیا جہاں سے ان کا وہ سفر شروع ہوا جس سے وہ کبھی واپس نہ لوٹے۔

انڈیا کا دعویٰ ہے کہ یہی وہ مقام تھا جہاں اپنی منزل کی بابت رہنمائی کے لیے مبینہ حملہ آور اپنا جی پی ایس بھی آن کر لیتے ہیں۔

ممبئی حملوں میں سندھ کے شہر ٹھٹہ کا تذکرہ

سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے طارق کھوسہ نے ڈان اخبار میں مارچ 2015 میں چھپنے والے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ٹھٹہ ہی وہ مقام تھا جہاں پر ممبئی حملہ آوروں کو تربیت دی گئی اور یہیں سے انھیں مشن کے لیے روانہ کیا گیا۔

دوسری طرف ان دس حملہ آوروں کی شناخت ابھی تک متنازع رہی ہے کہ آیا یہ پاکستانی تھے بھی یا نہیں کیونکہ پاکستان اجمل قصاب کے اعترافی بیان کو درست تسلیم نہیں کرتا۔

پاکستان کے دعوے کے مطابق پاکستانی تفتیش کاروں کو کبھی بھی اجمل قصاب تک رسائی نہیں دی گئی جس سے اس کے اعترافی بیان کی حقیقت معلوم ہو سکتی۔

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا یہ مؤقف بھی ہے کہ انڈیا نے مرنے والے دیگر نو حملہ آوروں کی تفصیلات بھی کبھی پاکستان کو فراہم نہیں کیں جس کے بعد نادرا اور دیگر ذرائع سے ان کے پاکستانی ہونے کے دعوے کی تصدیق ہو پاتی۔

ممبئی حملے

اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے 12 فروری 2009 کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ممبئی دھماکوں میں ملوث حملہ آور پاکستان سے ہی انڈیا گئے تھے لیکن ان کے پاس ان کی شناخت اور خاندان کی تفصیلات دستیاب نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور کراچی سے ایک کشتی پر روانہ ہوئے تھے جو بلوچستان سے منگوائی گئی تھی۔انھوں نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حملہ آور ٹھٹہ، سندھ سے سمندر کے راستے انڈیا گئے لیکن اس کی ابھی تفتیش ہونی ہے کہ وہ وہاں (ممبئی) تک کیسے پہنچ گئے۔

پاکستان کے انتہائی مطلوب دہشت گردوں کے متعلق حال ہی میں چھپنے والی ایف آئی اے کی ریڈ بک میں ان ملزمان کی مکمل تفصیل موجود ہے جو سنہ 2008 میں ہونے والے ممبئی حملہ کیس میں مطلوب ہیں۔

بی بی سی نے اس ریڈ بک تک رسائی حاصل کی ہے۔ یہ ملزمان ممبئی حملہ کیس میں مجرمانہ سازش، دہشت گردوں کی مالی اور لاجسٹک مدد اور اعانت جرم جیسے الزامات میں مطلوب ہیں اور پچھلی ایک دہائی سے مطلوب دہشت گردوں کی اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے لیکن آج تک پاکستان کے تفتیش کار یا ادارے انھیں ایک بار بھی پکڑنے سے قاصر رہے ہیں۔

حملہ آوروں کا سمندری سفر

اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق سمندر میں چند گھنٹے سفر کرنے کے بعد تقریباً رات نو بجے کے قریب ان حملہ آوروں کو ’الحسینی‘ نامی چھوٹی کشتی میں منتقل کیا گیا اور اسلحہ، کھانے پینے کی اشیا، لائف جیکٹس اور دیگر ساز و سامان سے بھرے بیگز بھی مہیا کر دیے گئے جہاں سے ان کا بڑے معاشی مرکز اور دو کروڑ آبادی والے انڈیا کے سب سے بڑے شہر ممبئی پر حملہ کرنے کے لیے باقاعدہ سفر کا آغاز ہوا۔

اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق اگلے روز یعنی 23 نومبر کو دن بارہ بجے انھوں نے مچھلیاں پکڑنے والی انڈین کشتی ‘ایم وی کوبر’ کو اغوا کیا اور اس میں سوار پانچ افراد میں سے چار کو قتل کر کے کشتی کے کپتان امرسنگھ سولنکی کو زندہ چھوڑ دیا۔

الحسینی کشتی سے سارا سامان اس میں منتقل کرنے کے بعد امر سنگھ کو کہا گیا کہ وہ کشتی چلاتے رہیں اور انھیں ان کی منزل پر لے چلیں۔ طارق کھوسہ کے آرٹیکل کے مطابق الحسینی کشتی کو بعد میں پاکستانی تفتیش کاروں نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق 26 نومبر 2008 کی سہ پہر چار بجے کے قریب یہ دس حملہ آور انڈیا کی سمندری حدود میں داخل ہوگئے جس کے بعد ہدایات کے مطابق کشتی کے کپتان امر سنگھ سولنکی کو بھی قتل کر دیا گیا اور باقی سفر ان لوگوں نے جی پی ایس کی مدد سے خود طے کیا۔

26 نومبر کو رات آٹھ بج کر 20 منٹ پر یہ لوگ ساحل پر واقع مچھیروں کی ایک بستی بدھوار پارک کے قریب اترے اور اپنے اپنے اہداف کی طرف روانہ ہو گئے۔

cama hospital
ان حملوں میں ایک ہسپتال پر بھی حملہ کیا گیا تھا

دو، دو حملہ آوروں پر مشتمل پانچ گروہ

اجمل قصاب کے اعترافی بیان کے مطابق 10 حملہ آوروں کو دو، دو کے پانچ گروپس میں تقسیم کیا گیا تھا اور اسماعیل خان ان سارے حملہ آور گروپس کا لیڈر تھا اور اس کے ساتھ دوسرا حملہ آور اجمل قصاب ہی تھا۔

یہ دونوں ٹیکسی پر بیٹھ کر نو بج پر 20 منٹ کے لگ بھگ انڈیا کے سب سے مصروف ریلوے سٹیشن ‘سی ایس ٹی’، جہاں انڈیا کی سینٹرل ریلوے کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے، پہنچے اور ہینڈ گرنیڈز اور اے کے 47 رائفلوں سے حملہ کر دیا۔

اس سٹیشن سے لگ بھگ 35 لاکھ مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں۔ اس حملے کے نتیجے میں یہاں 58 لوگ مارے گئے اور درجنوں زخمی ہوگئے۔ اسماعیل خان اور اجمل قصاب نے اس کے بعد کوما ہسپتال پر حملہ کیا جہاں متعدد لوگوں کو قتل اور زخمی کرنے کے بعد گرگاؤم چوپاٹی پر پولیس کے ساتھ مٹھ بھیڑ میں اسماعیل خان مارے گئے جبکہ اجمل قصاب کو زخمی حالت میں زندہ گرفتار کر لیا گیا۔

اسی رات دس بجے کے قریب عبد الرحمٰن اور فہد اﷲ نامی حملہ آوروں نے اوبرائے ٹرائیڈینٹ ہوٹل پہ حملہ کیا جہاں 33 لوگوں کو قتل اور متعدد کو زخمی کیا گیا۔

دس بج کر 25 منٹ پر ایک یہودی سینٹر ’نریمان ہاؤس‘ پر بابر عمران اور نذیر نامی حملہ آوروں نے حملہ کیا اور چار افراد کو قتل اور متعدد کو زخمی کیا۔ لیوپولڈ کیفے اور بار پر حافظ ارشد اور نصیر نامی افراد نے حملہ کیا جہاں 10 لوگ مارے گئے۔

اسی طرح شعیب اور جاوید نے تاج ہوٹل پر حملہ کیا جہاں بعد میں حافظ ارشد اور نصیر نامی حملہ آوروں نے بھی انھیں جوائن کر لیا۔ تاج ہوٹل پر حملے کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔

منصوبے کے مطابق کئی جگہوں پہ حملہ آوروں نے لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا اس لیے انڈیا کی نیشنل سکیورٹی گارڈز کو نئی دہلی سے بلا لیا گیا۔ ممبئی حملہ 26 نومبر کی رات نو بج کر 15 منٹ پر شروع ہوا اور تین روز تک چلتا رہا جب انڈین فورسز نے آپریشن کے نتیجے میں 29 نومبر کی صبح نو بجے تک تمام حملہ آوروں کو مار کر اس آپریشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

اس حملے کے نتیجے میں 26 غیر ملکیوں سمیت 166 لوگ ہلاک اور 300 کے قریب زخمی بھی ہوئے۔

حافظ سعید
ممبئی حملوں کے بعد حافظ سعید کے خلاف انڈیا میں مظاہرے ہوئے تھے

انڈیا کے الزامات اور پاکستان کا جواب

انڈیا نے دعویٰ کیا اجمل قصاب سے تفتیش کے بعد پتا چلا کہ یہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور ان کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے تھا۔ انڈیا نے الزام لگایا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی لشکر طیبہ کے امیر حافظ سعید نے کی جسے انجام تک ان کی جماعت کے لوگوں نے پہنچایا۔

انڈیا نے حافظ سعید سمیت لشکر طیبہ کے متعدد لوگوں کے ناموں پر مشتمل 35 افراد کی لسٹ تیار کی اور پاکستان کو کہا کہ ان ملزمان کو انڈیا کے حوالے کیا جائے تاکہ ان کا ٹرائل کیا جا سکے۔

پاکستان کو انڈیا سے شدید تنقید کا سامنا تھا جس کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک جنگ کا ماحول بن رہا تھا۔ دوسری طرف پاکستان ابتدا میں انڈیا کے تمام الزامات کو مسترد کرتا رہااور کہتا رہا کہ الزامات کی بجائے ایسے تمام شواہد مہیا کیے جائیں جن سے ثابت ہو کہ ان حملوں میں پاکستانی ملوث ہیں یا ان کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی ہے تاکہ ان لوگوں کے خلاف یہاں کارروائی کی جا سکے۔

اسی دوران الزامات کی تحقیقات کے لیے پاکستان نے ایف آئی اے کی ٹیم پر مشتمل ایک جے آئی ٹی بنائی جس کی سربراہی سینیئر افسر خالد قریشی کو دی گئی جبکہ اس تفتیش کو سپروائز کرنے کی ذمہ داری اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کو سونپی گئی۔

دسمبر 2008 میں مغربی اتحادیوں اور انڈیا کی طرف سے دی جانے والی معلومات کے نتیجے میں ایف آئی اے نے ٹھٹہ میں لشکر طیبہ کے مبینہ ٹرینگ کیمپ پر چھاپہ مارا اور شواہد اپنے قبضے میں لیے۔

ممبئی حملوں کی سازش کے تانے بانے

ممبئی حملوں کے اڑھائی ماہ بعد یعنی 12 فروری 2009 کو پاکستان کے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرس کرتے ہوئے بتایا کہ ممبئی حملوں کی سازش کا کچھ حصہ پاکستان میں تیار ہوا تاہم اس کے کچھ سرے امریکہ، آسڑیا، سپین، اٹلی اور روس جیسے ممالک میں بھی ملے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ کے ذریعے بات کرنے کے لیے جو ڈومین استعمال کیا گیا وہ ہوسٹن (امریکہ) میں رجسٹرڈ تھا جبکہ اسے حاصل کرنے کے لیے 238 ڈالر سپین سے منتقل کیے گئے۔

انھوں نے کہا کہ جو دوسرا ڈومین استعمال کیا گیا وہ روس میں رجسٹرڈ تھا جبکہ ایک سیٹلائٹ فون مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں رجسٹرڈ تھا۔

رحمٰن ملک نے کہا کہ 238 ڈالر بھیجنے والا ملزم جاوید اقبال تھا جو اس وقت بارسلونا، سپین میں تھا اسے واپس لا کر مالی مدد دینے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔

رحمٰن ملک نے بتایا کہ اجمل قصاب کے بیان اور انڈیا کی طرف سے شیئر کی گئی معلومات کی روشنی میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس میں نو ملزمان کو نامزد کیا ہے جن میں اجمل قصاب عرف ابو مجاہد، ذکی الرحمٰن لکھوی، ابو حمزہ، ضرار شاہ، محمد امجد خان، شاہد جمیل، حماد امین صادق اور دیگر شامل ہیں۔

رحمٰن ملک نے بتایا کہ نامزد ملزمان میں سے پانچ کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں ممبئی حملہ کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمٰن لکھوی بھی شامل ہیں۔

اوکاڑہ کے رہائشی ذکی الرحمٰن لکھوی کو 18 فروری کو گرفتار کیا گیا، رحیم یار خان کے حماد امین صادق 15 فروری کو گرفتار ہوئے جن پر ممبئی حملہ کرنے والوں کے لیے فنڈز اور ان کے لیے پناہ گاہ کا بندوبست کرنے کے الزامات تھے۔

اسی طرح منڈی بہاالدین کے مظہر اقبال 18 فروری کو گرفتار ہوئے اور شیخوپورہ کے کمپیوٹر نیٹ ورکس میں ماہر عبد الواجد کو 18 فروری کو گرفتار کیا گیا۔گرفتار ہونے والے بہاولپور کے شاہد جمیل ریاض پر کشتیوں کے سواروں کے لیے سہولت کاری کا الزام تھا۔

اجمل قصاب
ممبئی حملوں میں زندہ بچ جانے والے حملہ آور اجمل قصاب جنھیں اعترافی بیان کے بعد پھانسی دے دی گئی تھی

تعلقات میں اُتار چڑھاؤ

کارگل کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا کافی بہتر تھی اور سنہ 2008 تک گذشتہ چار سالوں کے دوران دو طرفہ معاملات کو حل کر نے کے لیے اعتماد بھی بڑھا تھا۔

پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دوطرفہ سکیورٹی تعاون بڑھانے کے سلسلے میں اس وقت نئی دہلی میں موجود تھے جس رات ممبئی میں ان حملوں کے ذریعے تباہی مچائی گئی تھی۔ اس سے قبل 18 فروری2007 کو دونوں ملکوں کے درمیان چلنے والی ٹرین سمجھوتہ ایکسپریس پر بھی انڈیا میں پانی پت کے قریب حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری انڈیا میں موجود تھے۔

اس حملے میں 60 سے زیادہ مسافروں کو، جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے، ہلاک کر دیا گیا تھا جس کا الزام پاکستان نے انڈین شدت پسندوں پر عائد کیا تھا۔

ممبئی حملوں کی تفتیش سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کی نظر میں

سابق ڈی جی ایف آئی اے اور اس کیس کے سپروائزری افسر طارق کھوسہ نے سنہ 2015 میں ڈان اخبار میں چھپنے والے اپنے ایک آرٹیکل میں کیس کی تفتیش کے حوالے سے بڑا تفصیل سے لکھا اور متعدد اہم پہلوؤں پر روشنی بھی ڈالی تھی۔

طارق کھوسہ کے مطابق (پہلا) اجمل قصاب ایک پاکستانی تھا جس کی رہائش اور سکول جانے اور پھر شدت پسند تنظیم (لشکر طیبہ) میں شامل ہونے کا تفتیش کاروں نے پتا چلا لیا تھا۔

دوم) لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کو ٹھٹہ، سندھ کے قریب ٹرینگ دی گئی اور بعد میں وہیں سے انھیں سمندری راستے سے بھیجا گیا۔ اس ٹریننگ کیمپ کا سراغ تفتیش کاروں نے لگا لیا تھا۔اسی طرح ممبئی حملوں میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد کے سانچے ناصرف اس ٹریننگ کیمپ سے برآمد بھی کیے گئے بلکہ وہ میچ بھی کر گئے۔

تیسرا) مچھلیاں پکڑنے والی (الحسینی) کشتی جسے شدت پسندوں نے انڈین کشتی کو اغوا کرنے کے لیے استعمال کیا اور بعد میں ممبئی روانہ ہوئے تھے اسے واپس بندرگاہ پر لا کر پینٹ کر کے چھپا دیا گیا تھا وہ بھی برآمد کر لی گئی جو ملزمان کو اس کیس سے جوڑتی ہے۔

چوتھا) ممبئی بندرگاہ کے قریب شدت پسندوں کی جانب سے چھوڑی گئی چھوٹی کشتی کے انجن میں ایک پیٹنٹ نمبر موجود تھا جس کے ذریعے تفتیش کاروں نے اس کی جاپان سے لاہور درآمد کا پتہ لگایا جو وہاں سے کراچی کی ایک کھیلوں کی دکان میں پہنچایا گیا جہاں سے لشکر طیبہ سے منسلک ایک شدست پسند نے اسے چھوٹی کشتی کے ساتھ خریدا تھا۔ منی ٹریل کی پیروی کی گئی جس سے اس ملزم کا پتہ چلا کر اسے گرفتار کیا گیا۔

ممبئی حملہ

پانچواں) کراچی میں آپریشن روم جہاں سے( ممبئی) آپریشن کی ہدایت کی گئی تھی کو بھی تفتیش کاروں نے ڈھونڈ کر مخفوظ کر لیا اور وائس اوور انٹرنیٹ پروٹوکول کے ذریعے ہونے والی بات چیت کا بھی سراغ لگا لیا۔

چھٹا) مبینہ کمانڈر اور اس کے نائبین کی نشاندہی کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔

ساتواں) ایک ایسے جوڑے کو جس کے فائنانسر اور سہولت کار ملک سے باہر بیٹھے ہوئے تھے اسے گرفتار کر کے مقدمے کے لیے پیش کیا گیا۔

اپنے اس آرٹیکل میں طارق کھوسہ نے مزید لکھا کہ انڈیا نے اجمل قصاب کو زندہ پکڑ کے اس کے اعتراف جرم سے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچا دیا لیکن مختلف جگہوں پر ہوئی سازش ایک گھمبیر کام ہے جس کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر ایف آئی اے سابق ڈائریکٹر جنرل طارق کھوسہ نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا کہ انھوں نے جو کہنا تھا وہ اپنے آرٹیکل میں لکھ چکے ہیں اب کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔

ایف آئی اے کی ریڈ بک میں شامل ممبئی حملوں کے 19 ملزمان تاحال مفرور

ان 19 مطلوب ملزمان میں ملتان کے رہائشی محمد امجد خان ہیں جن پر الزام تھا کہ انھوں نے ممبئی حملوں میں استعمال ہونے والی ایک کشتی ‘الفعوز’ خریدی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے یاماہا موٹر بوٹ انجن ، لائف جیکیٹس کراچی سے خریدیں جو بعد میں ممبئی حملوں میں استعمال ہوئیں جنھیں انڈین حکام نے بعد میں بازیافت کروایا تھا۔ بہاولپور کے رہائشی شاہد غفور بھی اس لسٹ میں شامل ہیں جو الحسینی کشتی اور الفعوز کشتی کے کپتان تھے جو ممبئی حملوں میں استعمال ہوئیں۔

ایف آئی اے کی ریڈبک کے مطابق ملزم افتخار علی،عبد الرحمٰن، محمد عثمان، عتیق الرحمٰن، ریاض احمد، محمد مشتاق، عبد الشکور، محمد نعیم، محمد صابر سلفی اور شکیل احمد ممبئی حملوں میں استعمال ہونے والی دونوں کشتیاں الحسینی اور الفعوز کے سوار تھے۔

اسی طرح محمد عثمان ضیا، محمد عباس ناصر، جاوید اقبال، مختار احمد اور احمد سعید اس لسٹ میں شامل وہ ملزمان ہیں جنھوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفر آباد کے ایک نجی بنک سے ملزم حماد امین صادق اور شاہد جمیل ریاض کے کراچی میں واقع ایک نجی بنک کے اکاؤنٹ میں مجموعی طور پر 30 لاکھ سے زائد روپے جمع کروائے تھے۔

اس کے علاوہ دازین ضلع تربت سے تعلق رکھنے والے ملزم محمد خان بھی اس کیس میں ایف آئی اے کو مطلوب ہے جس پر الزام ہے کہ اس نے ممبئی حملے کے ملزمان کو الحسینی کشتی مہیا کی تھی۔

ریڈ بک کے مطابق ان تمام ملزمان کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے تھا۔ ایف آئی اے کے ریکارڈ سے یہ بات بھی پتا چلتی ہے کہ مطلوب ملزمان میں سے ایک کے سوا سب کا تعلق پنجاب کے مختلف اضلاع سے تھا۔

ممبئی حملہ

کیس کے پراسیکیوٹر کا قتل

اس کیس کی ایف آئی آر (1/2009) ایف آئی اے کے سپیشل انویسٹیگیشن یونٹ (ایس آئی یو) میں 12 فروری 2009 کو درج ہوئی اور تقریبا 12 سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس کیس کا ٹرائل ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔

اس عرصے کے دوران انسداد دہشت گردی کی عدالت کے کم از کم چھ ججز اور متعدد پراسیکیوٹرز تبدیل ہوئے۔

اس کیس کے پہلے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار علی، جو کہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں بھی پراسیکیوٹر تھے، کو مئی 2013 میں راوالپنڈی میں نامعلوم افرادنے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا جس کے بعد ایڈووکیٹ رب نواز کو اس کیس کا پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا۔

دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ایڈووکیٹ رب نواز کی اچانک موت کے بعد ایڈووکیٹ اظہر چوہدری کو ان کی جگہ پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا تھا لیکن 2018 میں انھیں بھی اچانک تبدیل کر دیا گیا جس کے بعد اب کیس میں ایڈووکیٹ اکرم قریشی کو پراسیکیوٹر تعینات کیا گیا ہے۔

کیس کے سپیشل پراسیکیوٹراکرم قریشی نے بی بی سی کو بتایا کہ کیس کا ٹرائل ان کیمرہ ہو رہا ہے اور عدالت نے انھیں بات کرنے سے منع کیا ہوا ہے اس لیے وہ بات نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے کہا کہ وہ بس اتنا ضرور کہیں گے کہ کیس کا ٹرائل جلد مکمل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

ذکی الرحمٰن لکھوی کے علاوہ باقی ملزمان جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں جبکہ لکھوی ضمانت پر ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حکم دیا تھا کہ کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے۔

کیس کا فیصلہ نامکمل شواہد کی بنیاد پر ہوگا؟

ممبئی حملہ کیس کے سابق پراسیکیوٹر ایڈووکیٹ اظہر چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ شہادتیں ریکارڈ کرنے دو مرتبہ انڈیا گئے تھے اور وہاں چار لوگوں کا بیان ریکارڈ کیا جن میں ممبئی حملہ کیس کے انکوائری افسر، اجمل قصاب کا اعترافی بیان ریکارڈ کرنے والی خاتون جج اور دو ڈاکٹر شامل تھے جنھوں نے پوسٹ مارٹم اور میڈیکو لیگل کیے شامل تھے۔

انھوں نے کہا کہ پراسیکیوشن نے 24 گواہوں کی درخواست کی تھی لیکن ہمیں انڈیا کی طرف سے چار لوگ ہی دیے گئے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا نے پاکستانی ٹیم کو جیل میں بند اجمل قصاب سے نہیں ملنے دیا جس سے اس کے اعترافی بیان پر شکوک و شبہات موجود ہیں۔

ایڈووکیٹ اظہر چوہدری نے دعویٰ کیا کہ وہاں مارے جانے والے باقی نو حملہ آوروں میں سے کسی کی شناخت کا ریکارڈ یہاں پاکستان سے نہیں ملا۔

انھوں نے کہا اسی لیے ہم نے انڈیا سے ان کی ڈی این اے رپورٹس، تصاویر، فنگر پرنٹس، اجمل قصاب کا اعترافی بیان، حملہ آوروں کی آپس میں بات چیت کا ریکارڈ، ان سات موبائل سموں کی تفصیلات جو حملہ آوروں کے زیر استعمال تھیں، آئی ڈی کارڈ، تمام حملہ آوروں کی تصاویر سمیت باقی معلومات مہیا کرنے کی استداعا کی لیکن ابھی تک ہمیں یہ ریکارڈ مہیا نہیں کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ اجمل قصاب کی شناخت بھی آج تک متنازع ہے کہ وہ پاکستانی تھا بھی یا نہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ اجمل قصاب کا انڈیا کا پاسپورٹ تھا، وہیں کا کارڈ تھا اور اس کی زبان بھی لوکل ہندی تھی۔

انھوں نے کہا کہ انڈیا نے ایسے کوئی شواہد فراہم نہیں کیے جس سے ملزمان پر اعانت قتل کا جرم ثابت ہو سکے۔ ‘یہ تو بس اب مجرمانہ سازش کا کیس رہ گیا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال ہے لیکن ملزمان پچھلے 11 سال سے اندر پڑے ہیں۔’

اظہر چوہدری کے مطابق اس کیس کا فیصلہ جب بھی ہوا تو وہ نامکمل شواہد کی بنیاد پر ہو گا اور اس کی وجہ صرف اور صرف انڈیا کا تعاون نہ کرنا ہو گا۔

ذکی الرحمن لکھوی
ذکی الرحمن لکھوی

انڈیا میں پاکستانی عدالتی کمیشن کے ساتھ کیا ہوا؟

ممبئی حملہ سازش تیار کرنے کے مقدمے کے مرکزی ملزم زکی الرحمن لکھوی کے سابق وکیل خواجہ حارث نے بی بی سی کو بتایا کہ سنہ 2012 میں وہ انڈیا جانے سے پہلے اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے تمام احکامات لے کر گئے تھے جس میں گواہوں کے بیانات کے علاوہ ان پر جرح کا حکم بھی شامل تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ انڈیا میں اس مقدمے کی کارروائی بھی ویسے ہی چلنی تھی جیسے پاکستان میں لیکن فرق صرف یہ تھا کہ اس عدالتی کارروائی کی نگرانی انڈین جج نے کرنی تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان انڈین کے بیانات ریکارڈ کرنے سے پہلے ہی اس وقت کے ممبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ ان افراد کے صرف بیانات قلمبند کیے جائیں گے جبکہ ان پر جرح نہیں ہو گی۔

اُنھوں نے کہا کہ جس مجسٹریٹ کی عدالت میں یہ کارروائی چل رہی تھی ان کو درخواست کی گئی کہ اجمل قصاب جس کو ممبئی حملوں کا مرکزی ملزم قرار دیا جا رہا ہے کو عدالت میں پیش کیا جائے لیکن یہ درخواست مسترد کر دی گئی جبکہ اس کے بعد اس مجسٹریٹ پر جرح کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی گئی جس نے اس حملے کے مرکزی کردار اجمل قصاب کا ضابطہ فوجداری کی دفعہ 164 کے تحت بیان ریکارڈ کیا تھا۔

واضح رہے کہ اس قانون کے تحت ملزم جرم کے ارتکاب کا اقرار کرتا ہے اس بیان کے بعد جس عدالت میں یہ مقدمہ چل رہا ہوتا ہے اس کو یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا ملزم نے یہ بیان اپنی رضامندی سے دیا ہے یا کوئی اور معاملہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ جتنے بھی گواہوں نے بیانات ریکارڈ کروائے ہر ایک کے بیان کے بعد وہ عدالت سے جرح کرنے کی استدعا کرتے تھے جو مسترد کر دی جاتی۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ قانون کی نظر میں اگر کسی گواہ پر جرح نہ کی گئی ہو تو اس کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس لیے پاکستان میں ابھی تک ان بیانات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ انڈین حکومت نے دوبارہ پاکستانی حکام کو انڈیا آ کر ان افراد، جن کے بیانات قلمبند کیے گئے تھے، پر جرح کرنے کی اجازت دی لیکن یہ اجازت اس وقت ملی جب اجمل قصاب کو سزائے موت دی جا چکی تھی۔

اُنھوں نے کہا کہ اس مقدمے میں انڈیا کے دو شہریوں کو بھی اجمل قصاب کے ساتھ مقدمے میں شامل کیا گیا تھا اور ان پر بھی مجرم کی اعانت کا الزام تھا تاہم بعدازاں انھیں اس مقدمے سے بری کر دیا گیا۔

رہا ہونے والوں میں فہیم انصاری اور صبا الدین احمد شامل ہیں۔

خواجہ حارث سے پہلے ان کے والد خواجہ سلطان ذکی الرحمن لکھوی کے پہلے وکیل تھے تاہم ان کی وفات کے بعد خواجہ حارث نے یہ ذمہ داریاں سنبھالی تھیں تاہم کچھ عرصے کے بعد اُنھوں نے بعض وجوہات کی بنا پر ذکی الرحمن لکھوی کے مقدے کی پیروی کرنے سے معذرت کر لی تھی۔

خواجہ حارث سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف محتلف عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی پیروی کر رہے ہیں۔

اس مقدمے کے سابق پراسیکیوٹر کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ان گواہوں کو پاکستانی عدالت میں پیش ہونے کے لیے پاکستانی وزارت خارجہ نے انڈیا کو جو 14 ڈوزئیر لکھے تھے ان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع تو ضرور کروا دیا گیا ہے لیکن اس کو مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔

ملزمان کے وکیل کا ردعمل

ممبئی حملوں کے ملزمان کے ایڈووکیٹ رضوان عباسی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک ‘زیرو ایویڈینس’ (یعنی جس میں کوئی شواہد نہیں ہیں) کیس ہے کیونکہ یہ ایک جھوٹا کیس ہے۔

انھوں نے کہا کہ ملزمان پر الزام بھی غلط ہیں اور جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی کیس بنایا گیا ہے جس سے میرے مؤکلوں کا کوئی لینا دینا نہیں۔

ایف آئی اے کے شواہد کے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمارے خلاف پراسیکیوشن نے 87 کے قریب گواہان پیش کیے ہیں لیکن کچھ ثابت نہیں کر سکے ابھی تک۔ جن جگہوں سے ایف آئی اے شواہد جمع کرنے کا دعویٰ کرتی ہے ان سے ان کے مؤکلوں کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ انڈیا سے بھی کئی ڈوزیئرز پاکستان منگوائے گئے جن میں ڈی این اے، کال ڈیٹا ریکارڈ وغیرہ شامل تھے لیکن ان میں سے کسی سے بھی ان کے مؤکلوں کا تعلق جوڑا نہیں جا سکا۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر ملزمان کے وائس سیمپل کی اجازت مل جاتی تو کیا ملزمان کے لیے مشکل ہو سکتی تھی جس پر انھوں نے کہا یہ تو بعد کی بات تھی پہلے پراسیکیوشن ان نمبرز اور لوکیشن کا تعلق تو ملزمان سے ثابت کرتے۔

انھوں نے کہا کہ وائس ریکارڈنگ کی اجازت ہمارے بنیادی حقوق کے خلاف تھی اسی لیے عدالت نے بھی اس چیز کی اجازت نہیں دی۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کے مؤکل ذکی الرحمٰن لکھوی کا لشکر طیبہ سے کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ ’ہم نے لشکر طیبہ کے خلاف ایک کیس کیا تھا کہ اس کا جماعت الدعوہٰ سے کوئی تعلق نہیں اور اس سلسلے میں ایک عدالتی فرمان ( ڈگری) بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ لشکر طیبہ ایک خالصتاً کشمیریوں کی جماعت ہے جس کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ ذکی الرحمٰن لکھوی کس مذہبی یا سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں تو ان کے وکیل نے بتایا کہ ان کا کم از کم لشکر طیبہ سے کوئی تعلق نہیں۔ان کا جماعت الدعوۃ سے کوئی تعلق ہے یا نہیں، ا س پر رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ اس بارے میں انھوں نے کبھی ان (لکھوی) سے پوچھا نہیں۔

’میرے مؤکلوں پر ممبئی حملے کی سازش اوراعانت جرم کے الزامات ہیں جس پر وہی سزا ملتی ہے جو اصل جرم کی ہوتی ہے اور اس میں چونکہ 166 لوگوں کی موت ہوئی تھی تو اس میں بھی زیادہ سے زیادہ موت کی سزا ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ اس کیس کے ساتھ سنہ 2013 سے منسلک ہیں اور یہ بات دعوے سے کہہ رہے ہیں کہ استغاثہ تو ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکی کہ اجمل قصاب ایک پاکستانی تھا یا نہیں کیونکہ ان کا کیس تھا کہ اجمل قصاب در اصل اجمل عزیز کھوکھر ہے اور ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ اجمل عزیز کھوکھر کوئی اور شخص تھا۔

انھوں نے بتایا کہ استغاثہ نے انڈیا جا کر کچھ گواہوں کے بیانات قلم بند کیے تھے اور اب وہ انھیں یہاں لانے کی کوشش میں ہے جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ’یہ اسغاثہ کا حق ہے کہ جہاں سے بھی وہ گواہ لائے اس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔‘

ان کے مطابق کیس کی اگلی شنوائی دسمبر میں ہوگی اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیس جلد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے اور ان مؤکل بے گناہ ثابت ہوں گے۔

مشاہد حسین سید
’ایسا کوئی کرین ایجاد نہیں ہوا جو انڈیا کو یا ہمیں اٹھا کر کہیں اور لے جائے، انھوں نے بھی یہیں رہنا ہے اور ہمیں بھی‘

مشاہد حسین سید کیا کہتے ہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے تحت یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ ہم اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور یہ اصول دونوں ممالک، انڈیا اور پاکستان پر لاگو ہوتا ہے۔

’ممبئی ہو، پٹھان کوٹ ہو یا سمجھوتہ ایکسپریس ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیں۔‘

مشاہد حسین سید کے بقول ممبئی حملوں کا معاملہ کافی حد تک نمٹ گیا تھا کیونکہ اس وقت ڈاکٹر من موہن سنگھ کی حکومت تھی اور انھوں نے ہمارے نئی دہلی میں موجود اس وقت کے ہائی کمشنر کے ذریعے پیغام بجھوایا تھا کہ اس معاملے کو وہ مزید بڑھنے نہیں دیں گے اور اس سے لڑائی بڑھائی نہیں جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ مودی کے سخت گیر رویے کی وجہ سے دوطرفہ تعلقات میں مسئلہ بڑھا ہے لیکن دونوں ملکوں کے پاس بات چیت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

’یہ ڈائیلاگ نہ صرف دو حکومتوں کے درمیان بلکہ دونوں ملکوں کی افواج اور سکیورٹی کے اداروں کے درمیان بھی ہونے چاہیں۔ ایسا کوئی کرین ایجاد نہیں ہوا جو انڈیا کو یا ہمیں اٹھا کر کہیں اور لے جائے، انھوں نے بھی یہیں رہنا ہے اور ہمیں بھی۔ اس لیے رو لز آف دی گیم بننے چاہیں دونوں اطراف میں۔‘

حکومتوں سمیت کسی کو بھی شدت پسندوں کو سپورٹ نہیں کرنا چاہیے

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کبھی بھی دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتا اور ’ممبئی والا بھی ہم نے تو نہیں کروایا۔‘

فواد چوہدری کے مطابق یہ تو چھوٹے موٹے واقعات ہیں جو بد قسمتی سے ہوتے رہتے ہیں اور ہم انھیں سپورٹ نہیں کرتے اور نہ ہی ایسے واقعات کو سپورٹ کیا جا سکتا ہے جس میں دونوں اطراف معصوم لوگ مرتے ہیں۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری
’ہمارے تعلقات انڈیا کے ساتھ ممبئی حملوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کشمیر کی وجہ سے خراب ہیں‘

’ہم دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتے لیکن انڈیا بھی اپنے لوگوں پر ظلم بند کرے۔ ہمارے تعلقات انڈیا کے ساتھ ممبئی حملوں کی وجہ سے نہیں بلکہ کشمیر کی وجہ سے خراب ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بنیادی مسئلہ دہشت گردی نہیں بلکہ کشمیر ہے۔ ’باقی چیزیں کبھی ہوتی ہیں کبھی نہیں ہوتیں۔کبھی حالات اچھے ہو جاتے ہیں اور کبھی پھر خراب ہو جاتے ہیں۔‘

فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے اندر زیادہ تر دہشت گردی انڈیا کرواتا ہے جس کی مثال کلبوشھن جادھو کی صورت میں موجود ہے جبکہ انڈیا میں زیادہ تر دہشت گردی میں اس کے اپنے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا پاکستان نے تو کشمیر سمیت ہر مسئلے پر بات کرنے کے لیے انڈیا کو کہا ہے لیکن اب کشمیر کے ساتھ انھوں نے جو کیا ہے اس کے بعد کیا بات ہوگی؟ اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے تو ساری چیزیں خود ہی حل ہو جائیں گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کے کئی پہلو ہیں جن میں سے دہشت گردی بھی ایک ہے۔ ان کے بقول ’یہ (امن) صرف ہماری خواہشوں پر نہیں ہونا، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جتنا ہندوتوا انڈیا میں بڑھ چکا ہے اب مجھے لگتا ہے دونوں ملکوں کے درمیان امن ایک خواب ہی رہے گا۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *