فٹنس اور ورک لوڈ ’اگر حفیظ کے لیے فٹنس اتنی اہم تھی تو پھر اعظم خان کو کیوں چنا گیا؟‘

فٹنس اور ورک لوڈ ’اگر حفیظ کے لیے فٹنس اتنی اہم تھی تو پھر اعظم خان کو کیوں چنا گیا؟‘

فٹنس اور ورک لوڈ ’اگر حفیظ کے لیے فٹنس اتنی اہم تھی تو پھر اعظم خان کو کیوں چنا گیا؟‘

پاکستان کے سابق کپتان اور حال ہی میں ٹیم ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے محمد حفیظ نے پاکستان کرکٹ ٹیم میں فٹنس کے مسائل سے متعلق متعدد متنازع انکشافات کیے ہیں جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر اس بارے میں بحث زور پکڑ رہی ہے۔

محمد حفیظ کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے گذشتہ عہدے سے سبکدوش کر دیا تھا اور تاحال ان کی جگہ نئی کوچنگ ٹیم کا اعلان نہیں کیا گیا۔

حفیظ آج کل پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) پر اے سپورٹس کے پروگرام دی پویلین میں بطور تجزیہ نگار شریک ہیں جہاں گذشتہ دو روز کے دوران ان کی جانب سے پاکستان کرکٹ ٹیم میں فٹنس کلچر کے حوالے سے حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

گذشتہ چھ ماہ کے دوران مسلسل تنازعات میں گھری پاکستان ٹیم کو ساتھ ہی ساتھ مسلسل شکست کا بھی سامنا رہا ہے اور اس کی وجوہات کے حوالے سے اکثر تجزیہ نگار کھلاڑیوں کی ناقص فٹنس کو وجہ قرار دیتے رہے ہیں۔

حفیظ نے اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’میں نے جب ٹرینر سے پوچھا کہ کھلاڑیوں کی فٹنس کا کیا معیار ہے تو اس نے میرے سامنے ایک انکشاف کیا کہ ٹیم ڈائریکٹر (مکی آرتھر)، ہیڈ کوچ (گرانٹ بریڈبرن) اور کپتان (بابر اعظم) نے مجھ سے کہا کہ اس وقت فٹنس ہماری ترجیح نہیں اور آپ نے کھلاڑیوں کی فٹنس چیک نہیں کرنی۔‘

حفیظ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب میں نے چھ ماہ بعد کھلاڑیوں کے فیٹ لیولز (جسم میں چربی کی مقدار) کو چیک کیا تو معلوم ہوا کہ کھلاڑی اپنے سکن فولڈ سے ڈیڑھ، پونے دو گنا اوپر جا چکے ہیں۔

’اس کے بعد سٹیمنا چیک کرنے کے لیے ایک دو کلومیٹر کی دوڑ لگوائی جاتی ہے (جسے ایک مخصوص وقت میں مکمل کرنا ہوتا ہے)، وہ بھی کچھ کھلاڑی مکمل نہیں کر سکے، جو میرے لیے حیران کن تھا۔ آپ کیسے انٹرنیشنل لیول پر ایسے فیصلے کر سکتے ہیں، پھر آپ کو نتائج تو ایسے ملنے ہیں۔‘

یہی نہیں حفیظ کی جانب سے کھلاڑیوں کے لوڈ مینیجمنٹ کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ انھوں نے پروگرام میں ہی بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بڑی حیرانگی ہوئی کہ لوگ کے لیے ورک لوڈ مینجمینٹ کا مطلب مرضی ہے۔ میرا دل کرے گا تو میں کھیلوں گا، ورنہ نہیں کھیلوں گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’کسی بھی کھلاڑی کے جسم میں ہر وقت کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے لیکن آپ کرکٹ جذبے کے لیے کھیلتے ہیں، ہم نے ورک لوڈ مینجمینٹ کو اپنے آپ کو بچانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔‘

’ایسا کون سا ورک لوڈ ہے جو لیگ کھیلتے ہوئے ضروری نہیں ہوتا، صرف ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے ہی یہ یاد آتا ہے۔‘

اس بارے میں تاحال پی سی بی کی جانب سے کوئی ردِ عمل جاری نہیں دیا گیا اور پی سی بی ترجمان سے رابطہ کرنے پر بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

hafeez

فیٹ لیولز، سٹیمنا ٹیسٹ اور ورک لوڈ مینجمینٹ کیوں اہم ہیں؟

گذشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان کرکٹ ٹیم کو دو بڑے ٹورنامنٹس ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں شکست کا سامنا رہا۔ اس کے بعد آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز میں وائٹ واش کے بعد نیوزی لینڈ کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں 4-1 سے شکست کا سامنا رہا۔

تجزیہ نگار اس دوران یہ رائے دیتے رہے ہیں کہ پاکستان ٹیم کے کھلاڑیوں کے فٹنس لیولز انٹرنیشنل معیار کے مطابق نہیں اور اس کی وجہ گذشتہ برس کھلاڑیوں کا مختلف لیگز کھیلنے کے علاوہ ان کا تھکا دینے والا شیڈول بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔

تو کھلاڑیوں کی فٹنس کس طرح معلوم کی جاتی ہے اور ورک لوڈ مینجمینٹ سے کیا مراد ہے۔

فیٹ لیولز دراصل جسم میں چرپی کے تناسب کا ٹیسٹ ہوتا ہے جو جسم کے تین حصوں چھاتی، پیٹ اور ران کے پٹھوں پر جلد کے فولڈ کی پیمائش کر کے لیا جاتا ہے۔ عموماً ہر کھیل کے اعتبار سے یہ لیول مختلف ہوتا ہے لیکن عموماً چربی کی شرح 7 سے 13 فیصد کے درمیان ہونی چاہیے۔

اسی طرح سٹیمنا ٹیسٹ کے لیے کھلاڑیوں کو دو کلومیٹر کے لیے بھگایا جاتا ہے اور یہ عموماً لگ بھگ آٹھ منٹ 30 سیکنڈ کے اندر مکمل کرنا ہوتا۔

ورک لوڈ مینجمینٹ سے مراد دراصل کھلاڑیوں خصوصاً فاسٹ بولرز کو انجری سے بچانے کے لیے انھیں مختلف اوقات پر آرام کا موقع دینا ہوتا ہے۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی کے باعث کھلاڑیوں کے گراؤنڈ پر موجود وقت اور اس دوران انھوں نے کتنے کلومیٹر ٹریول کیا ہے اس کی پیمائش بھی کی جاتی ہے۔ یوں فٹنس کوچز اس کے بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا کھلاڑی کو مزید کھیلنے سے کسی قسم کی انجری تو نہیں ہو سکتی۔

دنیا بھر میں ٹیموں کی جانب سے نہ صرف بولرز بلکہ بلے بازوں کو بھی آرام کا موقع دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں گلین میکسویل کو ویسٹ انڈیز کے خلاف ون ڈے سیریز کے دوران آرام کا موقع دیا گیا تھا۔

پاکستان کرکٹ میں گذشتہ چند ماہ کے دوران فٹنس ایک اہم مسئلہ بن کر ابھرا ہے کیونکہ پاکستان ٹیم کے اکثر بولرز فٹنس مسائل کا شکار ہونے کے بعد ایک عرصے تک کرکٹ سے دور رہے ہیں جس کے باعث پاکستان کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے۔

پاکستان کی جانب سے آسٹریلیا سیریز کے تیسرے ٹیسٹ میں شاہین شاہ آفریدی کو آرام کا موقع دیا گیا تھا جس پر وقار یونس اور وسیم اکرم سمیت دیگر سابق کھلاڑیوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔ شاہین آفریدی ماضی میں بھی انجری کا شکار ہو چکے ہیں جس کے بعد سے ان کی کارکردگی زیادہ متاثر کن نہیں رہی ہے۔

اسی طرح حارث رؤف کی جانب سے آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز میں ٹیم کا حصہ بننے سے معذرت کر لی گئی تھی جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کا سینٹرل کنٹریکٹ ختم کرتے ہوئے انھیں جون تک کسی بھی لیگ کاحصہ نہ بننے کی ہدایت کی تھی۔

’پہلے منت سماجت کر کے کوچ بنو اور پھر ٹی وی پر بیٹھ کر ٹیم پر تنقید کرو‘

محمد حفیظ کی بطور ٹیم ڈائریکٹر تعیناتی پر خاصے سوالات اٹھائے جا چکے ہیں جن میں ان کے پاس کوچنگ کی وہ سرٹیفیکیشن موجود نہ ہونا بھی ہے جو پی سی بی کی جانب سے پاکستان ٹیم کے ہیڈ کوچ بننے کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ محمد حفیظ کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ٹیم ڈائریکٹر کا عہدہ دیا گیا تھا۔ حفیظ نے ڈریسنگ روم میں مختلف قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ عائد کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا تھا جس میں میچ کے دوران ڈریسنگ روم میں سونا شامل تھا۔

تاہم حفیظ کی جانب سے ٹاک شو پر دیے گیا بیانات کے بارے میں اکثر افراد کا خیال ہے کہ یہ خاصے سنگین بیانات ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس بارے میں تحقیقات کرنی چاہیے۔

تاہم ایک صارف نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے منت سماجت کر کے کوچ بنو اور پھر میڈیا چینل پر بیٹھ کر کھلاڑیوں پر تنقید کرو۔‘

ایک اور صارف نے جواب دیا کہ ’یہ حفیظ بھائی کا وطیرہ ہے بطور کھلاڑی بھی وہ ایسے انکشافات کرتے رہے ہیں۔‘

متعدد صارفین نے سوال کیا کہ ’اگر حفیظ کے لیے فٹنس اتنا ہی بڑا مسئلہ تھا تو اعظم خان کو کیسے سیلیکٹ کیا گیا؟‘

کچھ صارفین کی جانب سے حفیظ کا ماضی میں دیا گیا بیان بھی شیئر کیا جا رہا ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’جب میں ٹیم میں 2020 میں واپس آیا تو ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ یو یو ٹیسٹ (فٹنس ٹیسٹ) میں کیا سکور ہے؟ میں انھیں یہی کہتا تھا کہ جب میں ٹیم میں آیا تھا تو میرے سامنے انضمام، یوسسف اور دیگر بڑے کھلاڑیوں کو پاکستان کے لیے اچھی کارکردگی دکھاتے دیکھا۔‘

’آپ پاکستان کے لیے میچ جیتتے ہو یو یو ٹیسٹ نہیں۔ یہ اہم ہیں لیکن کرکٹ کا ایک حصہ ہے۔‘

تاہم علی بابر نامی صارف نے کہا کہ ’آپ حفیظ کے بارے میں کچھ بھی کہیں پاکستان ٹیم کی کارکردگی فٹنس کے معیار کے باعث نیچے گئی۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *