غلام قادر رائیل نیوی آف عمان کے لاپتہ پاکستانی انجنینئر، جن کے بچے نو سال سے انھیں تلاش کر رہے ہیں
’ابو کے لاپتہ ہونے کے بعد میری دادی، دو پھوپھیاں اور امی ان کو یاد کرتے کرتے دم توڑ چکے ہیں۔ نو سال ہوئے ہمیں نہیں معلوم وہ کس حال میں ہیں۔‘
یہ الفاظ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی لاہور کی رہائشی سعدیہ کے ہیں جن کے والد غلام قادر رائیل نیوی آف عمان میں خدمات انجام دیتے ہوئے سنہ 2013 میں لاپتہ ہوئے ہیں۔ غلام قادر 1988 سے عمان نیوی میں بحثیت میکینکل انجیئر خدمات انجام دے رہے تھے۔
غلام قادر آٹھ بچوں، جن میں پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے، اپنی اہلیہ کے علاوہ اپنی والدہ اور دو بہنوں کے بھی کفیل تھے۔
عمان نیوی کا جواب
غلام قادر کے اہل خانہ کی جانب سے لکھے گے ایک خط کے جواب میں سال 2013 میں رائل نیوی آف عمان نے اپنے ایک خط میں تصدیق کی تھی کہ غلام قادر کو ان کے کام کی جگہ پر آخری مرتبہ جنوری 2013 کے آخر میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی کام کی جگہ پر نہیں پہنچے ہیں۔
خط میں کہا گیا کہ ’ان کی تلاش اور تفتیش کا کام جاری ہے۔ جیسے ہی کوئی معلومات دستیاب ہوئیں آپ کو فوراً مطلع کیا جائے گا۔‘
تاہم سنہ 2018 میں انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے لکھے گے ایک خط میں کہ گیا ہے کہ مسقط میں موجود پاکستانی سفارت خانے کو عمان کی حکومت نے بتایا ہے کہ غلام قادر سال 2014 میں مسقط سے باہر سفر کر چکے ہیں۔ ان کے خلاف مسقط کے ایک پولیس سٹیشن میں سول کیس بھی دائر کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ سفارت خانے نے عمان کے حکام سے کیس کی مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔
غلام قادر کے صاحبزادے محمد نوید انجم کا کہنا تھا کہ انھیں 2018 میں بتایا گیا کہ وہ عمان سے باہر سفر کرچکے ہیں پھر جس تاریخ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے اس تاریخ کو ان کا ویزہ ختم ہو رہا تھا۔ اس کے بعد ہم نے متعدد بار گزارش کی کہ اگر وہ واقعی عمان سے باہر سفر کرچکے ہیں تو ہمیں ان کی ٹریول ہسٹری دی جائے تاکہ ہم ان کی تلاش کا کام کرسکیں۔
بہن کا رشتہ ہی ٹوٹ گیا
محمد نوید انجم کا کہنا ہے کہ ہماری دو بہنوں کی شادیاں مارچ 2013 میں طے تھیں۔ اس کے لیے کافی تیاریاں ہو رہی تھیں۔
بہنوں کی شادی کی تیاریوں کی وجہ سے سال 2013 کے جنوری کے میں معمول سے ہٹ کر رابطے ہوتے تھے۔جس میں شادیوں کی تیاریوں کا جائزہ لیا جارہا تھا۔ ابو اپنی دونوں بیٹیوں کے لیے زیادہ خریداری مسقط سے کر رہے تھے۔ اور تقریباً روزانہ ہی خریدی گئی اشیاء ہمیں دکھاتے تھے۔
محمد نوید انجم کا کہنا تھا کہ مجھے اور میرے گھر والوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ 28 جنوری کو ہم سب کی ابو سے بات ہوئی تھی۔ اس میں کئی اہم چیزیں شادی کارڈ، مہمانوں کی فہرست وغیرہ کو فائنل کیا گیا تھا۔ ہمارے درمیان طے ہوا تھا کہ کل 29 جنوری کو دوبارہ ہماری ویڈیو کال کے ذریعے بات ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ 29 جنوری کو ہم لوگ وقت مقررہ پر کال کا انتظار کرتے رہے مگر کال نہ آئی تو سب نے اس بات کو محسوس کیا کہ کال کیوں نہیں آئی کیونکہ ابو جب بھی بتاتے تھے کال لازمی کرتے تھے۔ بہر حال تھوڑی دیر بعد سب ادھر ادھر ہوگے تھے۔
محمد نوید انجم کا کہنا تھا کہ مجھے کسی پل چین نصیب نہیں ہو رہا تھا۔ جس پر امی سے بات کی تو انھوں نے ان کے سوشل میڈیا پر خود کال کرنے کا مشورہ دیا مگر وہ آن لائن نہیں تھے۔ امی ہی نے فون پر کال کرنے کا کہا تو فون نمبر بھی بند تھا۔ جس کے بعد میں اور امی دونوں پریشان ہوئے۔ ہم نے ان کے ایک ساتھی اور دوست کو فون کیا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ خود غلام قادر کے لیے پریشان ہیں۔ وہ مقررہ اوقات میں کام والی جگہ پر نہیں پہنچے۔ ان کے نمبر پر کال کی تو کسی اور نے فون اٹھایا اور کہا کہ غلام قادر ٹھیک نہیں ہیں۔ اس لیے میں نے فون اٹھایا ہے۔ جب ان سے تعارف پوچھا تو نمبر بند کر دیا تھا۔
محمد نوید انجم کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہم لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ ہم لوگ پاگلوں کی طرح کبھی ایک دفتر رابطے کرتے تو کبھی عمان میں مختلف جگہوں پر فون کرتے مگر ابو کا کوئی پتا نہیں چل سکا۔
ہم لوگ شادیوں کو تو بھول ہی چکے تھے۔ کچھ دن بعد بہنوں کے سسرال والوں سے رابطہ قائم ہوا۔ ان کو صورتحال بتائی تو ایک بہن کے سسرال نے تو ہمدری کا رویہ اختیار کیا۔ ہماری گزارش پر انھوں نے وقت بھی دے دیا مگر ایک بہن کے سسرال والوں نے تو رشتہ ہی ختم کردیا تھا۔
بدترین مالی بحران کا شکار ہوئے
محمد نوید انجم کا کہنا تھا ہمارے والد اچھی ملازمت کرتے تھے۔ مگر انھوں نے کبھی پیسے اکھٹے نہیں کیے تھے۔ وہ رشتہ داروں میں کئی خاندانوں کی کفالت بھی کرتے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ سال 2015 میں ہمیں عمان کی حکومت ان کے بینک اکاوئنٹ میں موجود سات لاکھ روپیہ بھجوائے تھے۔ بینک کا کہنا تھاکہ ان کے اکاوئنٹ میں یہ ہی رقم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم بہن بھائی پڑھ رہے تھے۔ آمدن کا ذریعہ بند ہوا تو ہم لوگ کئی سال تک بدترین مالی بحران کا شکار رہے تھے۔
سعدیہ غلام قادر کا کہنا تھا کہ والد کے لاپتہ ہونے کے بعد کئی رشتہ داروں نے بتایا کہ ابو کی جانب سے پیسے نہ بھجوانے کی وجہ سے وہ لوگ فاقہ کشی کا بھی شکار رہے ہیں۔ ہمارے اپنے مالی حالات بہت برے ہوگے تھے۔ گھر میں شادیاں بھی ہونا تھیں جن کو زیادہ عرصہ تک نہیں ٹالا جاسکتا تھا۔
ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کا بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا۔ بھائیوں نے ملازمتیں کرکے گھر کو سہارا دیا اور زندگی کو کسی نہ کسی طرح آگے بڑھایا تھا۔
دادی، پھوپھیاں اور امی یاد کرکے تڑپتی رہیں
سعدیہ غلام قادر کا کہنا تھا کہ ابو صرف ہمارے ہی کفیل نہیں تھے بلکہ وہ اپنی دو بہنوں ، اپنی والدہ ہماری دادی کے علاوہ غریب رشتہ داروں کے بھی کفیل تھے۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اور اپنی والدہ ہماری دادی کے انتہائی لاڈلے تھے۔
سعدیہ غلام قادر کا کہنا تھا کہ ہماری دادی اور امی ہماری ابو کے لاپتہ ہونے کے بعد بلکل بستر سے لگ گئی تھیں۔
عمر کے آخری دونوں میں دادی کی یاداشت کمزور ہوگئی تھی مگر وہ ہر وقت ابو کو یادکرتی تھیں ان کے بارے میں ان کو ہر تفصیل یاد تھی۔ امی ابو کے لاپتہ ہونے کے بعد پہلے ڈپریشن اور پھر کینسر کا شکار ہوئیں تھیں۔
سعدیہ غلام قادر کا کہنا تھا کہ ہماری دادی اور امی دونوں ابو کو یاد کرتے ہوئے سال 2019 میں چند دن کے وقفے سے زندگی کی بازی ہار گئیں تھیں۔
سعدیہ غلام قادر کا کہنا تھا کہ ہم نے ابو کی تلاش کے لیے جو کچھ کرسکتے ہیں کر رہے ہیں۔ بھائی روزانہ ہی پاکستان اور عمان کے مختلف اداروں کو خط لکھ رہے ہوتے ہیں۔ کتنے ہی سال گزر چکے ہیں ہم بہن بھائی ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملاتے بات نہیں کرتے کہ اگر ابو کے لاپتہ ہونے ، امی، دادی اور پھوپھیوں کی المناک موت پر بات ہوئی تو شاید کوئی بہن یا بہن غمگیں نہ ہوجائے۔
اس دوران ہماری ابو کے وقت میں طے کی ہوئی شادیاں بھی ہوئی ہیں۔ مگر ان شادیوں میں خوشی سے زیادہ ابو کے لاپتہ ہونے کا غم مناتے رہے تھے۔ ہماری پاکستان عمان کے حکام سےگذارش ہے کہ ہمیں ہمارے ابو کے بارے میں بتایا جائے۔