عمران ریاض خان کی گرفتاری پنجاب سے ہوئی، لہذا لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے: اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اینکر عمران ریاض خان کی وفاقی دارالحکومت سے گرفتاری کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی گرفتاری پنجاب سے ہوئی، لہذا لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔
مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے اور لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اٹک میں عمران ریاض خان کی گرفتاری ہوئی، جو اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا۔ یہ کورٹ پنجاب کی تفتیش تو نہیں کر سکتی۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ شب صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کی پولیس نے اینکر پرسن عمران ریاض خان کو حراست میں لیا تھا جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران ریاض کی گرفتاری پر آئی جی اسلام آباد سے وضاحت طلب کی تھی۔
’اگر لاہور ہائیکورٹ کہے کہ گرفتاری اسلام آباد سے ہوئی تو وہ آرڈر اس عدالت میں لے آئیں‘
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ رات کو رپورٹ آئی تھی کہ عمران ریاض کو پنجاب سے گرفتار کیا گیا ہے، جس پر عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ ’عمران ریاض نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ اسلام آباد ٹال پلازہ پر ہیں۔ لہذا ان کی گرفتاری اسلام آباد کی حدود سے ہوئی۔‘
سماعت کے دوران اینکر و صحافی عمران خان ریاض کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے واضح احکامات دیے تھے، جن کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
عدالت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے عمران ریاض خان کی گرفتاری نہیں کی بلکہ پنجاب پولیس نے انھیں گرفتار کیا۔
جس پر اینکر عمران ریاض خان کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اسلام آباد پولیس کہہ رہی ہے گرفتاری پنجاب سے ہوئی، ہم کہہ رہے ہیں اسلام آباد سے ہوئی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آئیے گا، ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے۔
صحافی و اینکر عمران ریاض خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔
انھوں نے عدالت میں کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کو رات کی ایف آئی آر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا اور وہ چھپائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ میں پولیس نے 17 مقدمات درج ہونے کی رپورٹ دی تھی۔‘
واضح رہے کہ وزیرِ قانون پنجاب ملک احمد خان نے عمران ریاض کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں پنجاب میں درج متعدد مقدمات کی بنیاد پر پنجاب کی حدود سے گرفتار کیا گیا۔
عمران ریاض خان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عمران ریاض خان جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے آئے تھے تو انھوں نے اٹک میں درج مقدمات کا ذکر کیا تھا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ’اٹک اس عدالت (اسلام آباد ہائیکورٹ) کے دائرہ سماعت میں نہیں اس لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔‘
نامہ نگار کے مطابق منگل کی شب عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد بھی ان کے وکلا کی جانب سے رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا اور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی جس میں پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے سربراہوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
’کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں‘
عمران ریاض نے گرفتاری دینے سے قبل گاڑی میں بیٹھ کر ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنی ضمانت کے لیے اسلام آباد آ رہا تھا اور یہ بالکل اسلام آباد کی حدود ہیں جہاں سے مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے۔‘
اس ویڈیو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’(چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) اطہر من اللہ نے مجھے ضمانت دے رکھی ہے اور ایسی صورتحال میں مجھے گرفتار کرنا غلط ہے۔ کل صبح مجھے اُن ہی کی عدالت میں پیش ہونا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت میں توسیع حاصل کرنی تھی۔‘
عمران ریاض کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں، یہ کچھ بھی کر دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے خیال میں ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جو صحافی باہر ہیں ان سب سے میری گزارش ہے کہ آواز اٹھائیں، بات کریں اور اپنا کام کرتے رہیں، کام نہیں چھوڑنا آپ نے، میں جرات کے ساتھ گرفتاری دینے جا رہا ہوں۔ یہ پیچھے پڑ گئے ہیں بلاوجہ بولنے ہی نہیں دے رہے۔‘
ان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والی پہلے سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں عمران ریاض خان کہتے ہیں کہ ’اگر اب سے پانچ گھنٹے کے بعد انھوں نے مجھے نہ چھوڑا تو میرے چینل پر ایک ایسی ویڈیو اپ لوڈ ہو گی کہ تہلکہ مچ جائے گا۔‘
’ان کو پتا چل جائے گا جنھوں نے میرے خلاف کارروائی کی ہے، سب کا نام لوں گا۔ ان ایجنسیوں کا بھی، ان اداروں کا بھی اور ان بندوں کا بھی جنھوں نے یہ سب کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ منگل کی صبح ہی لاہور میں عدالت نے عمران ریاض کے اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے اور انھیں بلٹ پروف گاڑی رکھنے کے اجازت واپس لینے کے احکامات بھی معطل کیے تھے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کا عمران ریاض کی گرفتاری کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان
پاکستان تحریکِ انصاف نے اینکر کی گرفتاری کے خلاف بدھ کو پریس کلبز کے سامنے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
عمران ریاض تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس جماعت کے بیانیے کے بڑے حامی اینکر کے طور پر سامنے آئے تھے اور ان کے ذاتی یو ٹیوب چینل کی ویڈیوز کی بنیاد پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کے خلاف ’اداروں کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کرنے‘ اور ’عوام کو افواج پاکستان کے خلاف اکسانے‘ جیسے الزامات کے تحت متعدد مقدمات درج ہوئے ہیں۔
ملک احمد خان کے مطابق ضلع اٹک کے دو تھانوں میں بھی اُن کے خلاف مقدمات درج ہیں اور انھی کی بنیاد پر اٹک پولیس ان کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔
یاد رہے کہ اینکر عمران ریاض پر اٹک کے علاوہ لاہور، بہاولپور، مظفر گڑھ، بھکر، سرگودھا، کالا باغ، گوجرانوالہ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور متعدد دیگر شہروں میں ایف آئی آرز درج ہیں۔
عمران ریاض کی گرفتاری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصا ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس حوالے سے مختلف ٹرینڈ بھی چل رہے ہیں۔
اس بارے میں ردِ عمل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں عمران ریاض کی بلاجواز گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’قوم کو امپورٹڈحکومت کے سامنے جھکانے کے لیے ملک فسطائیت کے سپردکیا جارہا ہے اور یہی وقت ہےکہ ہر شخص خصوصاً میڈیا یکجا ہو کر اس فسطائیت کے خلاف کھڑے ہوں‘۔
سابق وزیرِ اطلاعات اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’آج ہی (سابق وزیر اعظم) عمران خان نے پاکستان میں صحافیوں پر پابندیوں کے حوالے سے تفصیلی بات کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں فاشسٹ حکومت اپنے خلاف تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے تیسرے درجے کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔‘
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف عمران ریاض کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہے۔ امید ہے عدالتیں کُھلیں گی اور انصاف ہو گا۔‘