عمران خان کے لیے اٹک جیل کے انتخاب کی وجہ ’سکیورٹی‘ ہے یا ’سیاسی انتقام‘؟
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تین برس قید کی سزا سنائے جانے کے کچھ دیر بعد ہی لاہور میں ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کیا گیا تو اکثر افراد کا اندازہ یہی تھا کہ قانون کے مطابق انھیں اڈیالہ جیل میں رکھا جائے گا تاہم جب بذریعہ موٹروے عمران خان کو اسلام آباد لایا گیا تو کچھ دیر بعد خبر آئی کہ انھیں اٹک جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔
عمران خان قید کے لیے اٹک لے جائے جانے والے پاکستان کے پہلے سابق وزیراعظم نہیں۔ ان سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اٹک میں قید رہ چکے ہیں۔
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے شوہر اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری بھی مبینہ کرپشن کے الزامات میں کئی برس قید رہے اور اس قید کا ایک بڑا حصہ انھوں نے پنجاب کے شہر اٹک میں گزارا۔
تاہم عمران خان وہ پہلے سابق وزیراعظم ہیں جنھیں اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل میں قید کیا گیا ہے۔ ان سے پہلے نواز شریف اور آصف زرداری کو اٹک قلعے میں بنے قید خانوں میں رکھا گیا تھا۔
اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل ایک مختلف جگہ ہے جو اٹک قلعے سے چند کلو میٹر دور شہر کے اندر واقع ہے تاہم اٹک میں واقع ان دونوں قید خانوں کی شہرت اور سیاسی تاریخ میں ان کا کردار ایک جیسا نظر آتا ہے۔
پاکستان بننے سے پہلے بھی یہاں اُن قیدیوں کو لایا جاتا تھا جن پر ’بغاوت‘ کا الزام ہوتا یا وہ جنھیں ناقابل اصلاح مجرم قرار دیا جاتا اور انھیں ’سخت حالات‘ میں سخت حصار میں بند کرنا ضروری ہوتا۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی اٹک میں سیاسی مخالفین یا ’خطرناک‘ مجرموں کو قید کرنے کا یہ سلسلہ تھما نہیں۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے سنہ 1997 میں بھاری اکثریت سے حکومت حاصل کرنے کے بعد اپنی اس وقت کی سیاسی حریف پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف مبینہ کرپشن کے کئی مقدمات قائم کیے۔
ان مقدمات میں انھیں سزا ہوئی، وہ گرفتار ہوئے اور سزا کا ایک بڑا حصہ انھوں نے اٹک قلعے کے قید خانے میں گزارا۔ اسی قلعے کے اندر احتساب عدالت لگتی جس میں انھیں پیش کیا جاتا تاہم چند ہی برس بعد نواز شریف خود بھی اسی قید خانے میں پہنچ گئے۔
سنہ 1999 میں اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف نے ان کی حکومت کا تختہ الٹا، ان پر مبینہ کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے، انھیں سزا ہوئی اور سنہ 2000 میں انھیں اٹک قلعے منتقل کر دیا گیا۔ ان کے لیے بھی احتساب عدالت قلعے کے اندر لگائی جاتی۔
اور اب ایک اور سابق وزیراعظم عمران خان ’فراڈ اور اثاثے چھپانے‘ کے الزام میں تین برس کی قید پا کر اٹک ڈسرکٹ جیل پہنچ چکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان بھی ’سیاسی حریف‘ کے خلاف ’انتقامی کارروائی‘ کا نشانہ بنے یا انھیں اٹک بھیجنے کی وجہ کچھ اور ہے کیونکہ قانون کے مطابق تو انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل بھیجا جانا چاہیے تھا۔
اٹک ہی کیوں؟
اٹک پنجاب کی حد پر واقع آخری شہر ہے جس کے بعد دریائے سندھ اور اس کے دوسری طرف خیبرپختونخواہ کا شہر نوشہرہ شروع ہو جاتا ہے۔
ان دونوں شہروں کو دریا پر بنا ایک طویل پل جوڑتا ہے۔ اٹک راولپنڈی سے لگ بھگ 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
یہ شہر زیادہ پرانا نہیں۔ اس کی بنیادیں بیسویں صدی کے آغاز میں ابھریں جس سے قبل کئی برسوں تک اس جگہ پر برطانوی فوج نے اپنا کنٹونمنٹ قائم کیے رکھا۔ اسے کیمبل پور کا نام دیا گیا۔ اٹک کا پرانا شہر اٹک خورد کہلاتا تھا جو دریائے سندھ کے کنارے پر ایک وسیع و عریض قلعے کے گرد آباد ہے۔
اٹک کا یہ قلعہ سترھویں صدی میِں مغل دورِ حکومت میں تعمیر کیا گیا۔ مخلتف ادوار میں اس وقت کے حکمرانوں کے لیے یہ قلعہ افغانستان کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں کے خلاف ایک دفاعی لائن کا کام دیتا رہا ہے۔
دریائے کابل کو ساتھ ملانے کے بعد دریائے سندھ اس مقام پر اٹک قلعے کی دیواروں سے تقریباً منھ جوڑ کر چلتا ہوا گزرتا ہے۔ یہاں سے قلعہ پہاڑ پر اوپر کی طرف پھیلتا جاتا ہے۔ اس کے ارد گرد اٹک خورد کا پہاڑی علاقہ ہے جو کافی حد تک جنگل پر مشتمل ہے۔
’یہ ایک نفسیاتی کھیل ہے‘
صحافی اور تجزیہ نگار راشد رحمان کہتے ہیں کہ بظاہر اٹک کی دونوں جیلیں ایسی جگہیں ہیں جنھیں سخت جیلیں تصور کیا جاتا ہے۔
’یہ ایک نفسیاتی کھیل ہے۔ ایسی جیلیں جو سخت مشہور ہوں وہاں بھیجنے کا مقصد بندے کو توڑنا ہوتا ہے۔ جیل کی ان سختیوں سے اس کے اعصاب کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کی مزاحمت کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ بہت سے لوگ جیل کی سختیاں زیادہ دیر برداشت نہیں کر پائے اور ہار مان گئے۔
’جیل ویسے ہی کوئی خوشگوار جگہ نہیں ہوتی اور اگر وہ زیادہ سخت ہو تو اس کو برداشت کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘
راشد رحمان کہتے ہیں کہ ماضی میں خاص طور پر فوجی آمروں کے دورِ حکومت میں بہت سے ایسے مواقع آئے جہاں سیاستدانوں سے لے کر کئی صحافیوں اور دانشوروں کو بھی ’حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش‘ جیسے الزامات میں اٹک قلعے میں قید رکھا گیا۔
اٹک کے جیل خانوں میں ایسا کیا ہے؟
اگر آپ سیاحت کی غرض سے اس مقام پر موجود ہیں تو یہ ایک خوبصورت جگہ ہے لیکن اگر آپ قلعے کے اندر عقوبت خانے میں قید ہیں تو اس مقام کا تصور یکسر بدل جائے گا۔ جنگل میں الگ تھلگ دریا کنارے یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں زیادہ تر خاموشی کا راج ہو گا۔
پاکستان بننے کے بعد اٹک قلعہ پاکستان کی فوج کے کنٹرول میں دے دیا گیا جو گذشتہ کئی دہائیوں سے فوج کے ایلیٹ گروپ یعنی سپیشل سروسز گروپ کے کنٹرول میں ہے۔
اٹک خورد میں واقع اٹک کا قلعہ ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے اونچائی پر بیٹھا یہ وسیع و عریض قلعہ سترھویں صدی میں مغلوں نے تعمیر کیا۔
اپنی تعمیر کے بعد سے کئی سو برسوں میں اس قلعے نے بھی اپنی چاردیواری میں سینکڑوں سیاسی اسیروں کو قید ہوتے دیکھا ہے جنھیں اس وقت کے حاکم کا ’دشمن‘ تصور کیا جاتا تھا۔
اسی طرح اٹک جیل کو بھی پاکستان کی چند ’سخت‘ جیلوں میں گنا جاتا ہے۔ یہاں وہ سہولیات پہلے سے تو موجود نہیں ہیں جو سابق وزیراعظم کے رتبے کے قیدی کو عموماً دی جاتی ہیں تاہم قیدی کی جانب سے درِخواست پر یہ فراہم ضرور کی جا سکتی ہیں جیسا کہ ائیرکنڈیشنر، الگ کمرے وغیرہ۔
اٹک پولیس کے ایک آفیسر کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل میں خطرناک مجرم بھی قید ہیں اور کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
پولیس افسر نے یہ بھی بتایا کہ اٹک جیل کی نسبت اٹک قلعے میں بہتر سہولیات موجود ہیں اور فراہم بھی کی جا سکتی ہیں۔
انھوں کہا کہ اٹک ڈسٹرکٹ جیل انگریز دور میں بنائی گئی جیل ہے جس میں چھوٹے سیل ہیں اور سہولیات بھی زیادہ میسر نہیں۔
تو ایک سابق وزیراعظم کو اٹک جیل کیوں بھیجا گیا؟
صحافی راشد رحمان کہتے ہیں کہ اس بات کی حکومت کی طرف سے کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آئی سوائے ایک مبہم توجیہہ یہ کہ سکیورٹی کے خدشات کے پیش نظر ان کو اڈیالہ کے بجائے اٹک جیل بھیجا گیا۔
’بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سکیورٹی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ بظاہر سکیورٹی صورتحال یہ ہی پیدا ہو سکتی تھی کہ عمران خان کی جماعت کے کارکنان کوئی بڑی تعداد میں احتجاج کرنے وہاں پہنچ جاتے۔‘
راشد رحمان کے مطابق نو مئی کا واقعہ ابھی تازہ تھا تو ہو سکتا ہے کہ حکومت کوئی رسک نہ لینا چاہتی ہو تاہم وہ کہتے ہیں کہ دیکھنے میں یہ آیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پرامن احتجان کرنے کی کال پر بھی بہت کم لوگ باہر نکلے۔
ان کے خیال میں اس لیے بظاہر سکیورٹی کو وجہ بنا کر سابق وزیراعظم کو اٹک جیل منتقل کرنے کی توجیح سمجھ میں نہیں آئی۔
کیا عمران خان بھی ’انتقامی کارروائی‘ کا نشانہ بنے؟
صحافی راشد رحمان کہتے ہیں کہ اگر ماضی میں سیاستدانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک اور اس میں اٹک جیل کے کردار کو دیکھیں ’توعمران خان کو اٹک جیل منتقل کرنے میں بظاہر کچھ انتقامی کارروائی کا عنصر نظر آتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اٹک جیل کی شہرت ایک سخت جیل کی ہے جہاں عمران خان کو وہ سہولیات میسر نہیں جس کے وہ سابق وزیراعظم ہونے کی وجہ سے حقدار ہیں۔
تاہم راشد رحمان کہتے ہیں کہ اب تک عمران خان کو جیل میں مشکل حالات میں رکھنے اور کوئی سہولت نہ ملنے کے حوالے سے صرف ان کے وکیل کی طرف سے بیان سامنے آئے ہیں جو یکطرفہ ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وکیل تو یکطرفہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے بیان پر مکمل طور پر یقین تو نہیں کیا جا سکتا اور اس کو آزادانہ طور پر تصدیق کرنا مشکل ہے۔‘
’اٹک جیل میں بھی عمران خان کو سہولیات دی جا سکتی ہیں‘
وکیل اور قانونی ماہر حافظ احسن کھوکھر کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط محسوس ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو صرف اس لیے اٹک جیل منتقل کیا گیا کہ وہاں ان کو اے کیٹیگری کی سہولیات میسر نہیں ہوں گی اور وہ جیل سخت ہے۔
’اٹک کی جیل پاکستان کی سب سے سخت جیل نہیں۔ اس سے زیادہ سخت جیلیں موجود ہیں جن میں بلوچستان میں مچھ جیل اور پنجاب میں ساہیوال جیل شامل ہیں۔‘
حافظ احسن کھوکھر کے مطابق یہ تاثر بھی غلط ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو اٹک جیل میں وہ سہولیات اس لیے نہیں مل سکتیں جن کے وہ حقدار ہیں جیسا کہ مرضی کا کھانا، ائیر کنڈیشنر، مشقتی، الگ غسل خانہ وغیرہ کیونکہ جیل میں یہ سہولیات میسر ہی نہیں۔
’جیل سپرنٹنڈٹ کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ اگر اس کو درخواست دی جائے اور وہ اس کو درست سمجھے تو وہ اس جیل میں بھی وہ تمام سہولیات عمران خان کو فراہم کر سکتا ہے جن پر ان کا حق بنتا ہے۔‘
حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو راولپنڈی میں ممکنہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکنان کی طرف سے ردِ عمل کے خدشے کی وجہ سے اٹک جیل بھجوایا گیا ہو۔
کیا اسلام آباد کی عدالت سے سزا پانے والا اڈیالہ ہی جاتا ہے؟
وکیل اور قانونی ماہر حافظ احسن کھوکھر کہتے ہیں کہ قانونی طور پر جس جگہ پر ملزم کو عدالت سے سزا ہو اسے اسی شہر یا کم از کم صوبے کی جیل میں بھیجا جاتا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد کی عدالت کی طرف سے سزا دی گئی تاہم اسلام آباد میں کوئی جیل موجود ہی نہیں۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے جڑواں شہر راولپنڈی کی انتظامیہ کے ساتھ معاملات طے کر رکھے ہیں جن کے مطابق اسلام آباد کے تمام قیدی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بھیجے جاتے ہیں۔
احسن کھوکھر بتاتے ہیں کہ ’کیونکہ اسلام آباد کی اپنی تو کوئی جیل ہے نہیں تو ایسا ہو سکتا ہے کہ پہلی دفعہ مجرم کو اڈیالہ جیل کی بجائے سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر صوبہ پنجاب ہی کی قریب ترین کسی دوسری جیل منتقل کر دیا جائے۔‘
تاہم وہ کہتے ہیں کہ بعد ازاں قیدی عدالت سے رجوع کر کے یہ درخواست کر سکتا ہے کہ اسے اپنے شہر کی جیل منتقل کیا جائے جہاں اس کے گھر والے بھی قریب ہوں اور اس کے وکلا کو بھی ملنا آسان ہو تو عموماً عدالتیں یہ درخواست منظور کر لیتی ہیں۔‘
حافظ احسن کھوکھر کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی عدالت کی طرف سے سزا سنائی گئی تھی تو انھیں پہلے اڈیالیہ جیل منتقل کیا گیا تھا جہاں سے بعد میں انھیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔