عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر انڈیا میں ردِعمل ’پاکستان

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر انڈیا میں ردِعمل ’پاکستان

عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پر انڈیا میں ردِعمل ’پاکستان نے نیٹ فلکس کو پیچھے چھوڑ دیا

پاکستان کی قومی اسمبلی میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم کے نتیجے میں ان کی حکومت کے خاتمے اور موجودہ سیاسی منظر نامے کے دوران انڈین سوشل میڈیا صارفین اور خاص کر انڈین الیکٹرانک میڈیا کی پوری توجہ پاکستان میں جاری سرگرمیوں پر رہی۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال پر انڈین الیکٹرانک میڈیا کی توجہ اور سرحد پار بدلتی صورتحال کی خبروں کی ٹی وی سکرینوں پر بھرمار نے انڈین عوام کو ایک ہیجان میں مبتلا کر دیا اور انڈین سوشل میڈیا صارفین نے اس کا کھل کر اظہار بھی کیا۔

امت جیسوال نامی صارف نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’’ٹی وی چلا کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم انڈین نہیں پاکستانی ہیں۔‘

اس دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کے قوم سے خطابات کے دوران انڈیا اور اس کی خارجہ پالیسی کا ذکر بھی ہوا جس میں انھوں نے انڈیا کو ’خود دار ملک‘ کہا اور انڈیا کی آزادانہ خارجہ پالیسی کی تعریف پر انڈیا میں بحث کا موضوع رہے۔

یہاں تک کہ عمران خان کی جانب سے انڈیا کی تعریف و توصیف پر پاکستان میں حزب اختلاف کا نمایاں چہرہ مریم نواز کے بیان کی بھی بازگزشت رہی کہ ’اگر آپ کو انڈیا اتنا ہی پسند ہے تو آپ وہیں چلے جائیں۔۔۔پاکستان چھوڑ دیں۔‘

انڈیا میں سوشل میڈیا پر پاکستان کے حوالے سے جہاں ’پاکستان‘، ’عمران خان‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتے رہے وہیں ’پاکستان پولیٹیکل کرائسس‘، ’نو کنفیڈنس موشن‘ اور ’امپورٹڈ حکومت نامنظور‘ جیسے ہیش ٹیگ بھی نظر آئے۔

انڈیا میں پاکستان میں ہونے والی سیاسی ہلچل پر لطف اٹھانے کا مزاج رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ برکھا دت جیسی سنجیدہ صحافی کی ٹائم لائن پر پاکستان کے حوالے سے سنجیدہ ٹویٹس کے ساتھ ایسے ٹویٹس بھی ہیں جس میں انھوں نے کہا کہ ‘پاکستان نے نیٹ فلکس کو پیچھے چھوڑ دیا۔‘

ان کے اس ٹویٹ کو جہاں 12 ہزار سے زیادہ لائکس ملے وہیں دو ہزار سے زیادہ بار ری ٹویٹ کیا گیا اور 300 سے زیادہ کمنٹس آئے۔ بہت سے پاکستانی صارفین نے اس کے جواب میں انڈیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے ایچ بی او کے مترادف کہا۔

بہر حال برکھا دت نے پاکستان میں جاری بحران کے حوالے سے یکے بعد دیگرے چار ٹویٹس کیے۔ اپنے آخری ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ ‘کسی بھی چیز سے زیادہ عمران خان خراب سپورٹس مین رہے۔ ووٹ کا سامنا نہ کرنا اور اپنا چہرہ نہ دکھانا ایسا ہی ہے جیسے کہ کپتان اپنی ٹیم کے لیے نہ کھڑا ہو اور کوئی جنرل میدان جنگ میں اپنے لوگوں کو چھوڑ جائے۔‘

بہت سے سوشل میڈیا صارفین اس بات کا خصوصی طور پر ذکر کر رہے ہیں کہ کسی بھی منتخب پاکستانی رہنما نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی ہے اور عمران خان بھی اس روایت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بہت سے لوگوں نے یہ بھی لکھا کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بن گئے جنھیں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹایا گیا۔

اس کے ساتھ ہی پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری کی بات بھی کی جا رہی ہے۔

جموں سے کامران علی میر نامی ایک صارف نے لکھا: ’پاکستان میں جمہوریت مذاق ہے۔ پاکستان کے 21 سابق وزرائے اعظم میں سے کسی نے بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی۔ ورلڈ ریکارڈ کی کتاب گنیز بک کو ان کی مستقل مزاجی پر توجہ دینی چاہیے۔‘

معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے پاکستان میں سنیچر کی شب پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال کے تناظر میں انڈیا اور پاکستان کا موازنہ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’اس ملک میں حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن تبدیلی ہمیشہ پر امن رہی ہے (سنہ 75 کی ایمرجنسی واحد استثنی ہے) واجپائی جی نے ایک ووٹ سے پارلیمان میں شکست کھائی اور وقار کے ساتھ مستعفی ہوئے۔ لیکن پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ (انڈیا کے) برعکس افسوس ناک اور خطرناک ہے۔‘

کچھ افراد پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا موازنہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجریوال سے بھی کرتے دکھائی دیے۔

زینب نامی صارف نے ٹویٹ کیا ’عمران خان پاکستان کے کیجریوال ہیں۔‘

انڈیا میں بہت سے سوشل میڈیا صارفین سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی تعریف بھی کرتے نظر آئے۔

سورج یادو نامی ایک صارف نے ان کی حمایت میں ٹویٹ کیا کہ ’ایک ہندوستانی کی حیثیت سے جس نے ان (عمران خان) کی تقاریر اور انٹرویوز سنے میں ایک بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عمران کے خلاف کوئی بدعنوانی کا مقدمہ نہیں ہے۔ وہ پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ وہ پاکستان کے عوام کے لیے کام کر رہا ہے۔ ایک ایماندار شخص کے ساتھ جو ہو رہا اسے دیکھ کر افسردہ ہوں۔‘

اکرور سنگھ کووڈ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انڈیا اور زیادہ تر پاکستان میں اگر آپ آزاد خارجی پالیسی پر عمل کرتے ہیں تو آپ کو اسی چیز کا سامنا ہوتا ہے جس کا عمران خان کو ہوا۔ اب انڈین اور پاکستانی دونوں کو عمران خان کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ مغرب ہمیشہ سے ہماری پالیسی کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے اور ہم انھیں راستہ دیتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ میں انڈیا کے سابق مستقل نمائندے سید اکبرالدین نے لکھا کہ ’ان دنوں پاکستان کی سیاست میں انڈیا کا ذکر بار بار ہو رہا ہے۔ عمران خان نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کی تعریف کی ہے تو حزب اختلاف کی مریم نواز شریف نے وزیر اعظم واجپائی کی مثال دی ہے۔ کیا یہ ہے نیا پاکستان؟‘

بہت سے لوگوں نے عمران خان کے بیان کے حوالے سے انڈیا کے وزیر اعظم مودی کی تعریف کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا اور لکھا کہ دنیا میں انڈیا کی یہ پوزیشن وزیر اعظم مودی کی وجہ سے ہے جبکہ کئی صارفین نے یہ بھی لکھا کہ اگر یہ بات عمران اس وقت کہتے جب غیر بی جے پی حکومت ہوتی تو یہ بی جے پی والے انھیں پاکستان کا ایجنٹ اور ملک کا غدار قرار دیتے۔

صحافی اور مصنف مرزا وحید نے لکھا کہ ’اپنی تقریر میں عمران خان نے انڈیا کی ایک قوم کے طور پر اٹھنے کی کہانی میں کشمیر کے جابرانہ الحاق کو کسی استثنی کی طرح درکنار کر دیا۔ کشمیر کے سفیر کی جانب سے ایسی باتیں پریشان کن ہیں۔‘

ٹویٹ

اس کے جواب میں انڈین صحافی اور مصنف غزالہ وہاب نے لکھا کہ ‘صاف طور پر کہوں تو عمران خان ایک ہی چیز کے لیے کھڑے ہوئے۔ اپنی فینٹاسی۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ‘مجھے نہیں معلوم کہ انھوں نے پاکستان کی سیاست کو کتنا سمجھا ہے لیکن یہ طے ہے کہ وہ انڈیا اور انڈین سیاست کو بالکل نہیں سمجھتے۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *