عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کمزور پاکستانی معیشت کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟
پاکستان میں منگل کے روز تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج اور پرتشدد واقعات سے جہاں ملک میں سیاسی کشیدگی اور بحران میں اضافہ ہوا تو وہیں اس صورتحال نے ملک کے معاشی شعبے کو بھی بظاہر متاثر کیا۔
معاشی ماہرین کے مطابق اگرچہ معاشی شعبے کی صورتحال عالمی مالیاتی فنڈ، آئی ایم ایف، کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کی وجہ سے پہلے ہی بہت پتلی تھی مگر گذشتہ 48 گھنٹے میں پیدا ہونے والی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
اور اس کا منفی اثر ملکی سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کے رجحان کے ساتھ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی میں ہونے والی تاریخی کمی کی صورت میں نکلا ہے، جس کے باعث ڈالر اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 300 روپے پر موجود ہے۔
ملک میں سونے کی قیمت بھی گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو اس کے ساتھ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بھی شدید طور پر متاثر ہوئی ہیں۔
ملکی معیشت سے جڑے افراد اور ماہرین کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بہت زیادہ کم ہوا، جو پہلے ہی خراب ہوتی معاشی صورتحال کی وجہ سے نچلے درجے پر ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی معیشت جہاں سیاسی صورتحال کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے تو اس کے ساتھ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام بحالی میں مزید تاخیر نے بھی مارکیٹ کے اعتماد کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔
حالیہ واقعات نے ڈالر، سونے کی قیمت اور سٹاک مارکیٹ کو کیسے متاثر کیا؟
منگل کے روز عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا منفی اثر سب سے پہلے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ پر پڑتا نظر آیا۔
اگرچہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں معاشی شعبے میں کسی حوصلہ افزا پیشرفت نہ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی کاروباری رجحان منفی تھا تاہم سابق وزیراعظم کی گرفتاری اور اس کے بعد جاری احتجاج میں پرتشدد واقعات نے ان منفی رجحانات کو مزید فروغ دیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے ایک گھنٹے بعد کراچی سٹاک مارکیٹ کا انڈیکس ساڑھے چار سو پوائنٹس سے گِر گیا اور بدھ کے روز اس میں مزید تین سو پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔
دوسری جانب ملک میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید کمی ریکارڈ کی گئی۔ منگل کے روز ڈالر کے ریٹ میں ایک گھنٹے میں ہونے والے اضافے کے بعد بدھ کے روز روپے کی قدر میں بہت زیادہ کمی دیکھی گئی، جب ایک ڈالر پانچ روپے کے اضافے کے بعد 290 روپے پر بند ہوا جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔
پاکستان میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان جمعرات کو بھی جاری ہے اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ملکی تاریخ میں پہلی بار تین سو روپے کی حد عبور کر گیا۔
کرنسی مارکیٹ سے منسلک ماہرین کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر اس وقت 305 روپے میں فروخت ہو رہا ہے جبکہ انٹر بینک میں بھی ڈالر کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 295 روپے سے اوپر ٹریڈ ہو رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی سونے کی قیمت میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا اورایک تولہ سونے کی قیمت بدھ کے روز دو لاکھ چالیس ہزار روپے پر بند ہوئی جو ملکی تاریخ میں فی تولہ سونے کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں چلنے والی خبروں کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے جہاں معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں تو اس کے ساتھ ٹیلی کام کمپنیوں کو دو دن میں 82 کروڑ روپے کا نقصان ہوا جبکہ دوسری جانب حکومت کو ٹیکس آمدن کی مد میں 28 کروڑ کا نقصان ہوا۔
معاشی تجزیہ کار اور بینک آف پنجاب کے چیف اکنامسٹ سید صائم علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا گذشتہ دو روز کے واقعات نے یقینی طور پر ملکی معیشت کو منفی طور پر متاثر کیا، جس کا منفی اثر آئندہ آنے والے دنوں میں عام آدمی پر پڑتا نظر آئے گا۔
انھوں نے کہا کہ ڈالر کے ریٹ میں اضافے سے مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا ہو گی اور اس کا منفی اثر ایک عام پاکستانی پر زیادہ پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ دو دن کے واقعات بہت زیادہ تکلیف دہ ہیں اور ان کی وجہ سے معیشت پر مزید منفی اثرات حالات کو مزید خراب کریں گے۔
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں معیشت کی ماہر ڈاکٹر حفصہ حنا نے کیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک میں گذشتہ دو دن کے واقعات نے غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھایا اور اس کا پہلا نشانہ ملکی معیشت بنی۔
انھوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ اور ایکسچینج ریٹ میں ردوبدل معاشی پیمانے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ’ان میں بہتری ملکی معیشت میں بہتری جبکہ ان میں کمی ملکی معیشت میں منفی رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہے۔‘
کیا معیشت کی اس صورتحال کے ذمہ دار صرف سیاسی حالات ہیں؟
پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے تو معیشت کو منفی طور پر متاثر کیا ہی ہے تاہم اس کے ساتھ کچھ دوسری وجوہات نے بھی اس دوران معاشی اشاریوں کومتاثر کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔
اس سلسلے میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر نے بھی سٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر میں کمی کی۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کی وجہ سے بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کے بغیر پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرے کے خدشات کا اظہار کیا۔
موڈیز کے مطابق اگر پاکستان کے لیے یہ پروگرام بحال نہ ہو سکا تو اگلے مالی سال میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
ڈاکٹر حفصہ نے کہا کہ موڈیز کی جانب سے ان خدشات کا اظہار آئی ایم ایف کی جانب سے اس کے شیڈول کے جاری ہونے کے بعد کیا گیا جس میں پاکستان کے نویں نظر ثانی جائزے کو شامل نہیں کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر نے غیریقینی صورتحال کو بڑھایا، جس نے مارکیٹ میں منفی رجحان کو جنم دیا
لیکن صائم علی کا کہنا ہے کہ موڈیز کوئی نئی بات نہیں کر رہا کیونکہ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوتا اور پاکستان کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ کی کھڑکی نہیں کھلتی تو یقینی طور پر مسائل ہوں گے کیونکہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ ذخائر کم ہیں اور اس کے اخراجات زیادہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ صورتحال بھی گذشتہ کچھ عرصے سے معاشی اشاریوں پر منفی اثر ڈال رہی ہے اور پھر ملک میں حالیہ واقعات نے اس میں مزید اضافہ کر دیا۔
ملک کی موجودہ سیاسی کشیدگی نے کاروباری اعتماد کو کیسے متاثر کیا؟
پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی کشیدہ صورتحال کی وجہ سے ملک میں کاروباری طبقات کے اعتماد کے متاثر ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے صائم علی نے کہا کہ یقینی طور پر کاروباری اعتماد کم ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کو یقین نہیں کہ سیاسی اور معاشی طور پر معاملات کیسے سنبھلیں گے۔
انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو بھی اعتماد نہیں، اس لیے پروگرام بحالی میں تاخیر ہے تو دوسری جانب ملک کے اندر بھی کاروباری اعتماد نچلی سطح پر موجود ہے۔
ڈاکٹرحفصہ کے مطابق بزنس کانفیڈنس بہت زیادہ خراب ہوا۔ انھوں نے کہا کہ ’بڑے سرمایہ کاروں کی کیا بات کی جائے، یہاں تو چھوٹا دکاندار بھی پریشان ہے کہ ان حالات میں اپنی دکان کھولوں یا نہیں۔‘
پاکستان میں تاجروں اور صنعت کاروں کی ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر شبیر منشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کاروباری نظام اعتماد کے بل بوتے پر چلتا ہے۔
’مثلاً اگر کوئی ایکسپورٹ اور امپورٹ کا آرڈر ہے تو اس کے لیے ایک کمٹمنٹ ہوتی ہے کہ اسے کب تک پورا کرنا ہے لیکن اب ایسی صورتحال بن چکی ہے کہ یہ کمٹمنٹ پوری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ کاروباری اعتماد پہلے سے متاثر ہے اور دو دن کے واقعات نے یقینی طور پر اسے مزید متاثر کیا تاہم کوئی ایسا پیمانہ نہیں جس کی مدد سے بتایا جا سکے کہ یہ کتنا نیچے آیا۔
’سرمایہ کسی چڑیا کی طرح ہوتا ہے، جو خطرہ بھانپ کر فوری طور پر اڑ جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت ملک کی جو صورتحال بنی ہوئی ہے اس میں غیر یقینی کے عنصر نے سرمایہ کاری اور کاروبار کو بری طرح زک پہنچائی اور دو دن کے واقعات کا منفی اثر دیکھنا ہو تو صرف اسٹاک مارکیٹ اور روپے کی قدر کو دیکھ لیں جو بہت تیزی سے نیچے آئی ہیں۔