عمران خان کی مذاکرات کی پیشکش کیا سیاسی بحران سے نکلنے کے لیے بات چیت ممکن؟
سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے وفاق میں حکمراں اتحاد پی ڈی ایم کو الیکشن شیڈول پر مذاکرات کی پیشکش کی ہے جس سے یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ سیاسی بحران کے خاتمے اور رواں سال پورے ملک میں انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے سیاسی مخالفین بات چیت کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
جمعرات کو وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک کو معاشی و سیاسی چیلنجز سے نکالنے کے لیے ’تمام سیاسی قیادت‘ کو مل بیٹھنے کی دعوت دی تو وہیں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ٹوئٹر پر یہ پیغام دیا کہ وہ ’جمہوریت کے لیے کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
ادھر مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے تحریک انصاف اور عمران خان سے ’کسی کالعدم جماعت کی طرح ڈیل‘ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی اتحاد کا ایک حصہ بات چیت سے زیادہ پُرامید نہیں۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ملک میں سیاسی بحران کے پیشِ نظر تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات ناگزیر ہیں اور یہ وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے نگران حکومت، اصلاحات اور انتخابات کے حوالے سے اتفاق پیدا ہوسکتا ہے تاہم اس کے امکانات تاحال واضح نہیں۔
تحریک انصاف اور پی ڈی ایم دونوں، ان مذاکرات سے کیا چاہتے ہیں؟
تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی وضاحت کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت سے الیکشن شیڈول پر بات ہو سکتی ہے مگر کرپشن کیسز پر نہیں۔ حتیٰ کہ انھوں نے حکومتی اتحاد سے بات چیت کے لیے مقام اور تاریخ کا بھی مطالبہ کر لیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’عمران خان نے یہ پیغام دیا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی سینیٹ میں اپنی تقریر کے دوران مذاکرات پر زور دے چکے ہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی یہی رائے دی کہ تمام جماعتوں کو بات چیت کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت اس پیشرفت کا خیر مقدم کرتی ہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ باقاعدہ طور پر اسے آگے بڑھایا جائے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ ’امید ہے شہباز شریف پی ٹی آئی کو الیکشن شیڈول پر مذاکرات کے لیے بلائیں گے۔‘ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ تحریک انصاف بدعنوانی کے مقدمات پر بات چیت نہیں کرے گی اور یہ موضوع ’بات چیت کا حصہ نہیں ہوگا۔‘
انھوں نے معاشی بحران کے حل اور انتخابات کے پُرامن انعقاد کے لیے ان مذاکرات کو ضروری قرار دیا ہے۔
دوسری طرف سینیٹ کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’تمام سیاسی قوتوں کو ایک جگہ پر اکٹھے بیٹھ کر، سر جوڑ کر اس ملک کی سیاسی و معاشی استحکام کے لیے روڈ میپ تیار کرنا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ایک دوسرے کا گریبان پکڑنے سے ادارے اور ریاست کمزور ہوں گے۔ برداشت سے ایک دوسرے کی بات سننا چاہیے۔‘
وزیر قانون نے اجلاس میں کہا کہ ’سیاست گفت وشنید سے آگے بڑھتی ہے۔ منطق سے بات کریں، دلائل سے دوسرے کو قائل کریں۔۔۔ دوستوں کو پیغام پہنچانا چاہتا ہوں آئیں مل کر بیٹھیں، اس ملک کے لیے اچھائیاں چنیں اور برائیوں کے خاتمے کے لیے کوشش کریں۔‘
’پاکستان کی معاشی صورتحال، کرنسی، معاشی نمو اُتار چڑھائو کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید سیاسی عدم استحکام ہے اور سیاسی عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ غیر آئینی مداخلت رہی ہے۔‘
خیال رہے کہ جمعرات کو سینیٹ کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے ’تمام سیاسی قیادت کو‘ مل بیٹھنے کی دعوت دی تھی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کر کے مل بیٹھ کر فیصلے کر کے اس پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ قومی اور عوامی مفاد کو داؤ پر نہیں لگنے دیں گے، ہم ملکی حالات خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے، آئی ایم ایف کا پروگرام جلد ہونے کی توقع ہے تاہم یہ مستقل حل نہیں۔‘
انھوں نے نام لیے بغیر سیاسی مخالفین کو یہ پیغام دیا کہ ’آئیں سب مل بیٹھ کر پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے نکالیں، سازشوں کی بجائے کاوشوں کا راستہ اختیار کریں۔‘
تاہم حکمراں اتحاد کی جماعتوں کے بعض رہنما عمران خان سے بات چیت کی مخالفت کرتے ہیں۔ جیسے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے اپنی جمعے کی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’جس طرح کسی کالعدم تنظیم کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں اسی طرح عمران خان کے ساتھ ڈیل کرنا چاہیے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف ایک غیر سیاسی قوت ہے جس نے پے در پے ناکامیوں کے بعد اب بات چیت کی پیشکش کی ہے۔
’وہ تمام حربے آزما چکے ہیں۔ ان کی لانگ مارچ، جیل بھرو تحریک اور حملے ناکام رہے۔ اب اس کے بعد وہ حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ ان سے ایسے ہی ڈیل کرنا چاہیے جیسے کالعدم تنظیم کے ساتھ بات چیت کی جاتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اسے ایک عسکری اور دہشتگرد جماعت کے طور پر دیکھنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو مجھے بہت افسوس ہو گا۔‘
’بحران، افراتفری سے نکلنے کا واحد راستہ‘
تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ تیسری قوت سیاسی فریقین کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کے لیے تیار نہیں تاہم یہ الیکشن اور معیشت پر بات چیت واحد راستہ ہے ’ورنہ افراتفری اور بحران جاری رہیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ’الیکشن کی تاریخ آچکی ہے لیکن اس میں متفقہ طور پر تاخیر ہوسکتی ہے اگر پورے ملک میں عام انتخابات کی طرف بڑھنا ہے۔‘
ان کی رائے میں تحریک انصاف بظاہر مذاکرات کے لیے تیار ہے اور حکومت کو بھی اس پر سنجیدگی دکھانی چاہیے۔
’مذاکرات اس لیے ناگزیر ہیں کیونکہ دونوں کے لیے آگے راستہ بند ہے۔ الیکشن میں اسی طرح گئے تو ن لیگ کے لیے آگے ہار ہے اور پی ٹی آئی کو اقتدار نظر نہیں آ رہا۔‘
اس سوال پر کیا ان مذاکرات میں کیا طے ہوسکتا ہے، تو انھوں نے بتایا کہ اس وقت اصل تنازع انتخابات کا ہی ہے کہ یہ ’کب ہوں گے، کیسے کرائے جائیں گے اور کون سے ادارے حصہ لیں گے۔ یہ ساری چیزیں اور نگران سیٹ اپ طے ہونا چاہیے جیسا کہ آئین میں لکھا ہے۔‘
تو کیا یہ مذاکرات ممکن ہیں، اس پر سہیل وڑائچ نے رائے دی کہ بات چیت کے لیے تحریک انصاف کو ’اسمبلی میں واپس جانا چاہیے جہاں آسانی سے معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ اگر دونوں فریقین رضامند ہوجائیں تو یہ مذاکرات آج ہی ممکن ہیں۔‘
اسی بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی عاصمہ شیرازی نے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے امکان کو رد کیا ہے۔
عاصمہ شیرازی نے کہا کہ عمران خان ’کیرٹ اینڈ سٹک‘ (گاجر اور چھڑی) کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ ’ایک جانب تو وہ دھمکی دیتے ہیں، آرمی چیف کا نام لیتے ہیں اوردوسری جانب مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ جب انھیں لگتا ہے کہ ان کے گرد دائرہ تنگ ہو رہا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بات چیت کرنی چاہیے۔ جیسے انھوں نے اسلام آباد سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹویٹ کی کہ وہ ہر کسی سے بات کرنے کو تیار ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بظاہر عمران خان اب بیچ کی کوئی راہ نکالنا چاہتے ہیں مگر ان کی پالیسی یہ رہی ہے کہ وہ ایک طرف چھڑی دکھاتے ہیں تو دوسری طرف گاجر۔ ’ماضی میں بھی وہ ایسا کئی بار کر چکے ہیں اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔‘
’بحران حل نہیں بلکہ بڑھ سکتا ہے‘
عاصمہ شیرازی نے وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا نہیں کہ عمران خان کے ساتھ بات چیت ہو گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’شہباز شریف نے ایک طرف گرفتاری کا عندیہ دیا اور دوسری جانب یہ کہا کہ ہم بات چیت کو تیار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ (تحریک انصاف سے) مائنس عمران بات کرنے کو تیار ہوں گے۔‘
عاصمہ شیرازی نے آصف علی زرداری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے کہا کہ ہم عمران خان کو سیاست دان نہیں سمجھتے اور ہم ان سے بات نہیں کریں گے۔ مریم نواز بھی یہی بات کر رہی ہیں، نواز شریف بھی یہی بات کر رہے ہیں۔ شہباز شریف اور ان کی کابینہ کا بھی کم و بیش یہی خیال ہے کہ عمران خان سے بات نہیں ہو سکتی۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق ’جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو وہ بھی لگتا ہے کہ اپنے سپورٹرز کو مایوسی سے بچانے اور اپنے ووٹ بینک کو بچانے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں کیونکہ ان کا بیانیہ ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں سے بات نہیں ہو سکتی۔‘
’میرے خیال میں عمران خان خود اس بات چیت میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ اپنی پارٹی کی دیگر قیادت کو آگے کر دیں گے، جو بات کر سکتے ہیں۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اور موجودہ حکومت کے درمیان ’الیکشن پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ الیکشن کے معاملے پر عمران خان کتنا پیچھے ہوتے ہیں، موجودہ حکومت کتنا آگے جاتی ہے، اس حوالے سے بات کرنے کے لیے بیٹھا جا سکتا ہے لیکن مجھے اس کے امکانات بھی بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ بات بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔‘
عاصمہ شیرازی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز بار بار ترازو کے توازن کو برابر کرنے کی بات کرتی ہیں جس سے ’یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے وہ کہتی ہیں کہ جس طرح نواز شریف کو گیم سے آؤٹ کیا گیا ویسے ہی عمران خان کو بھی آؤٹ کیا جائے۔‘
’نہ صرف آوٹ کیا جائے بلکہ نون لیگ اور پی ڈی ایم کے نزدیک عمران خان کے خلاف کیسز، جیسے توشہ خانہ کیس میں سزا نہیں ہوتی اور جب تک حکومت یا پی ڈی ایم کو نہیں لگتا کہ ادارے نیوٹرل ہیں تو اس بات پر بحران بڑھ سکتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ بحران فوری طور پر کسی حل کی طرف جائے گا۔‘