عمران خان کی عدالت میں پیشی کا احوال

عمران خان کی عدالت میں پیشی کا احوال

عمران خان کی عدالت میں پیشی کا احوال جج تھری ورکنگ ڈیز کا کیوں کہہ رہا ہے

پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج ہونے والے مقدمات میں ضمانت میں توسیع اور نو مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی عمارت میں ہوئی۔

جب سے اسلام آباد ہائیکورٹ وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر ایک نئی عمارت میں منتقل ہوئی ہے، اس کے بعد عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ پہلی پیشی تھی۔

عمران خان کی جان کو خطرے کے پیش نظر وکلا کی جانب سے ان کی گاڑی کو احاطہ عدالت میں لیکر جانے کی استدعا کی گئی، جو مسترد کر دی گئی۔

عمران خان کو اسی راستے سے چل کر کمرہ عدالت تک جانا پڑا جہاں سے عام سائلین جاتے ہیں تاہم فرق صرف یہ تھا کہ عمران خان کی تلاشی نہیں لی گئی جبکہ عام سائلین کو احاطہ عدالت میں جانے سے پہلے چیک کیا جاتا ہے۔

عمران خان کی سکیورٹی پر تعینات عملے کو لوہے کی وہ شیلڈ ساتھ لے جانے کی اجازت دی گئی جو عمران خان عدالتوں میں پیشی کے موقع پر اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں حالانکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی عمارت ریڈ زون میں واقع ہے۔

کمرہ عدالت میں پہنچنے کے لیے عمران خان کو بھی دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا اور کمرے میں داخل ہونے کے بعد وہ اس سیٹ پر بیٹھ گئے جو ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے لیے مختص تھی۔ وہاں پر موجود وکلا نے عمران خان کو بتایا کہ وہ اس جانب جا کر بیٹھیں جہاں ملزمان کے وکلا بیٹھتے ہیں۔

عمران خان کے چہرے پر بظاہر تھکاوٹ کے اثرات نمایاں تھے۔ ان کی شیو بھی بڑھی ہوئی تھی اور وہ آج اس طرح ہشاش بشاش بھی نہیں لگ رہے تھے جس طرح وہ گزشتہ سماعتوں کے دوران کمرہ عدالت میں دکھائی دیتے تھے۔

پی ٹی آئی احتجاج

آج کی سماعت کے دوران عمران خان کے ہاتھ میں ایک نئی اور قدرے لمبی تسبیح تھی۔ اس سے پہلے وہ ایک چھوٹی تسبیح پکڑتے تھے۔

صحافیوں کے ساتھ کمرہ عدالت میں گفتگو کے دوران عمران خان نے سوالوں کے بھی مختصر جواب دیے۔ عمومی طور پر وہ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے پہلے پوری تمہید باندھتے تھے۔

جب صحافیوں نے پہلا سوال داغا کہ کیا آپ کے صدر مملکت عارف علوی سے اختلافات ہو گئے ہیں تو انھوں نے صرف ’نہیں‘ کہنے پر ہی اکتفا کیا۔ پھر انھوں نے کہا کہ اگر صدر مملکت پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے بل پر دستخط نہ کرتے تو وہ دو دن کے بعد خود ہی قانون کا درجہ حاصل کر لیتا۔

اس کے بعد جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت نے تو نومئی کے واقعہ کے بعد آپ سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے تو عمران خان نے صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ’نہیں کرتے تو نہ کریں۔‘

عمران خان کے خلاف مختلف مقدمات کی سماعت شروع ہوئی تو دو رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ملزم کی ضمانتوں سے متعلق جو گزشتہ حکنمامہ جاری کیا تھا اس میں واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ عمران خان کو جن مقدمات میں ضمانت دی گئی ہے وہ صرف اسلام آباد کی حد تک ہی ہے جبکہ میڈیا میں یہ رپورٹ ہوا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کو ان تمام مقدمات میں ضمانت دے دی ہے جو ملک بھر میں ان کے خلاف درج کیے گئے تھے۔

عدالت نے عمران خان کے خلاف درج مقدمات میں ضمانت میں مزید 10 دن کی توسیع کر دی اور اس کے بعد نو مئی کے واقعہ کے بعد جتنے مقدمات درج کیے گئے تھے ان میں بھی سابق وزیر اعظم کی عبوری ضمانت 10 روز کے لیے منظور کر لی۔ عدالت نے انھیں متعقلہ عدالتوں میں پیش ہونے کا حکم بھی دیا۔

عمران خان کے وکلا کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ چونکہ متعلقہ عدالت ایف ایٹ مرکز میں واقع ہے جہاں پر سکیورٹی کے خدشات ہیں، اس لیے اس عدالت کو کہیں محفوظ مقام پر عارضی طور پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کریں۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ اس حوالے سے مناسب بندوبست کریں۔

سماعت کے اختتام پر عمران خان کے وکلا اپنے مؤکل یعنی عمران خان کو بتانے کے لیے لپکے اور کہا کہ عدالت نے ان کی ضمانت میں 10 روز کی توسیع دے دی ہے۔

تین چار مرتبہ جب ان کے وکلا نے کہا کہ عدالت نے ان کی 10 روز کے لیے ضمانت منظور کرلی ہے تو پھر عمران خان نے اپنے وکلا سے استفسار کیا ’تو پھر جج تھری ورکنگ ڈیز کا کیوں کہہ رہا ہے‘ جس پر عمران خان کو بتایا گیا کہ عدالت نے القادر ٹرسٹ کیس میں عبوری ضمانت کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ اگلے تین دن میں متعقلہ احتساب عدالت سے اس مقدمے میں ضمانت کروائیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمات کی سماعت کے بعد عمران خان اسلام آباد کی احتساب عدالت میں گئے جہاں پر عدالت نے پانچ لاکھ روپے مچلکوں کے عوض ان کی 19 جون تک عبوری ضمانت منظور کر لی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *