عرب خواتین کا جنسی ہراس کے واقعات کا اظہار

عرب خواتین کا جنسی ہراس کے واقعات کا اظہار

عرب خواتین کا جنسی ہراس کے واقعات کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا

گذشتہ سال عرب دنیا میں خواتین کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر جنسی زیادتیوں کی کئی کہانیاں شیئر کیں اور اس بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عرب ممالک میں خواتین کے لیے جنسی ہراسانی کے تجربے کے بارے میں بات کرنا اب بے شرمی نہیں سمجھی جاتی۔

مصر، تیونس اور کویت سمیت متعدد ممالک میں آن لائن تحریکوں نے ان ممالک میں جنسی تشدد کے شکار افراد میں یکجہتی کا احساس پیدا کیا ہے اور بعض معاملات میں مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔

اقوام متحدہ‌ کے مطابق تقریباً 37 فیصد عرب خواتین نے اپنی زندگی میں گھریلو تشدد یا جنسی طور پر ہراساں ہونے کی صورت میں اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کے تشدد کا سامنا کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ‘عرب دنیا میں اگر کوئی زیادتی کرنے والا خود ہی اپنی زیادتی کے شکار سے شادی کر لیتا ہے تو اسے اکثر عام معافی دیدی جاتی ہے۔’

ان ممالک میں سے ایک مراکش ہے جہاں 2014 میں ایک ایسی خاتون نے خودکشی کر لی تھی جسے اپنے ساتھ ریپ کرنے والے شخص کے ساتھ شادی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا تھا۔

‘مصری خواتین کے حقوق کہاں ہیں’

مصر کو ایک ایسا ملک کہا جاتا ہے جہاں جنسی زیادتی بڑے پیمانے پر رپورٹ کی جاتی ہے۔ تاہم اس ملک میں غیر معمولی سوشل میڈیا مہمات بھی دیکھنے میں آئیں جن کا مقصد جنسی حملوں کے متاثرین کو انصاف دلانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کی 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سروے میں شامل 99 فیصد مصری خواتین نے بتایا کہ انھیں زبانی تشدد سمیت کسی نہ کسی طرح جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔

ٹوئٹر
سوشل میڈیا پر خواتین اپنے تجربات شیئیر کرتی ہیں

2010 کے وسط میں احمد بسام ذکی نامی طالب علم کے خلاف مہم کے بعد مزید خواتین کو جنسی تشدد کے اپنے تجربات کا اظہار کرنے کی ترغیب دی گئی، جسے ریپ کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

احمد بسام ذکی کو جنسی زیادتی اور بھتہ خوری کے دوسرے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

‘مجرموں کی شناخت کو ظاہر کریں’، ‘مصری خواتین کی آواز سنیں’ اور ‘مصری خواتین کے حقوق کہاں ہیں’ وہ ہیش ٹیگ ہیں جو اس وقت سے ملک میں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کی کہانیاں سنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور جس سے سوشل میڈیا پر مہم چلائی جاسکتی ہے۔

ذکی کی سزا کے فوراً بعد ہی جنسی زیادتی کا ایک اور کیس سامنے آیا جسے مقامی میڈیا نے ‘فیئرمونٹ واقعہ’ کا نام دیا۔

دارالحکومت قاہرہ کے پرتعیش فیئرمونٹ ہوٹل میں 2014 میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والے نوجوانوں کے ایک گروہ کو سزا کی وجہ سے سوشل میڈیا پر ہلچل مچ گئی۔

مصر کی خواتین نے بھی المدونا نامی ایک بلاگ پر اپنے تجربات شیئر کرکے ملک میں کچھ نامور شخصیات پر جنسی تشدد کا الزام عائد کیا ہے جو مصر میں جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ریپ کو بے نقاب کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔

وایل عباس، بلاگر ، اسلام الازازی، فلمساز اور صحافی، ان اہم شخصیات میں شامل ہیں جن پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا گیا ہے۔ تاہم ویل عباس اور اسلام العزازی دونوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

تصویر
اقوام متحدہ ‌ کے مطابق ، تقریبا 37 فیصد عرب خواتین نے اپنی زندگی میں کسی مہ کسی طرح کے تشدد کا سامنا کیا ہے

ایک بڑھتی ہوئی تحریک جس نے عملی شکل اختیار کی

مصری خواتین کی جنسی تشدد کے خاتمے کے مطالبے کی اس قدر حمایت کی گئی کہ حکومت نے گذشتہ سال آٹھ جولائی کو مجرمانہ طریقہ کار کے قواعد کو تبدیل کرنے کے لیے ووٹ دیا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ جنسی تشدد کا نشانہ بننے والوں کی شناخت خفیہ رہے۔

مصر کی قومی کونسل برائے خواتین نے بھی خواتین کو جنسی تشدد کے واقعات کی رپورٹ کرنے کی ترغیب دی اور ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔

اسی طرح جامع الازہر اور دار الفتاح جیسے اسلامی اداروں کے مصری مذہبی عہدے داروں نے جنسی زیادتی کو ‘جرم’ قرار دیتے ہوئے خواتین کے تحفظ پر زور دیا ہے۔ تاہم ابھی بھی ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ خواتین کو اپنے برتاؤ اور لباس کی وجہ سے ہراساں کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔

مرد بھی جنسی طور پر ہراساں کرنے کے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے اس تحریک میں شامل ہوئے ہیں۔

ان معاملات میں سے ایک دانتوں کا ڈاکٹر بھی شامل ہے جس پر چار مردوں پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

‘خاموشی ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئی’

تیونس ایک اور ایسا ملک ہے جہاں خواتین جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف مہم چلانے آزادانہ طور پر تجربات اور مباحثوں کے لیے سوشل میڈیا کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

دنیا بھر میں چلنے والی ’می ٹو‘ کی تحریک نے تیونس کی خواتین کو نومبر 2019 میں ہیش ٹیگ ‘انازاداہ’ کے ذریعے سوشل میڈیا پر اپنی مہم چلانے اور اپنے تجربات شیئر کرنے کی بھی ترغیب دی۔ تیونس عربی میں انزادے‘ کے معنی ‘میں بھی’ یعنی ’می ٹو‘ ہیں۔

ٹوئٹر اور فیس بک پیج پر وزیر داخلہ سمیت ہزاروں خواتین اس مہم میں شامل ہوگئیں جس نے اب تک 70،000 سے زیادہ لوگوں کو راغب کیا ہے۔

یہ مہم اکتوبر 2019 میں تیونس کے رکن پارلیمنٹ ظہیر مخلوف پر جنسی سکینڈل کے انکشاف اور جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد شروع کی گئی تھی۔

‘انازاداہ’ کا ہیش ٹیگ ان واقعات کے جواب میں تیار کیا گیا تھا اور پھر اس کے لیے فیس بک پر ایک صفحہ شائع کیا گیا تھا۔

اس ہیش ٹیگ کے آغاز کے بعد سے اب تک میڈیا میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے متعدد واقعات کی اطلاع ملی ہے۔

تیونس کی خواتین کام، اسکول، یا عوامی نقل و حمل کے موقع پر ہراساں کرنے، حملے اور ریپ کے اپنے تجربات کو وسیع پیمانے پر شائع کرتی رہتی ہیں اور ان کی تحریروں سے معاشرے میں عام شائستگی کے اصولوں پر شرمندگی یا پابندی کا کوئی عالم نہیں ہے۔

سوشل میڈیا
خواتین سوشل میڈیا پر جنسی طرو پر حراساں کیے جانے کے خلاف تحریکیں چلا رہی ہیں

ان میں سے ایک نادیہ نامی خاتون ہیں جنھوں نے اپنی جنسی طور پر ہراساں ہونے کے اپنے تجربات کے بارے میں دل کھول کر بات کی ہے۔

انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا ‘میں آپ کو ایک ایسے ریپسٹ کے بارے میں بتا سکتی ہوں جس نے جب میں سات سال کی تھی، تو میرے ہونٹوں کو زبردستی بوسہ دیا۔ ایک آدمی جس نے پر ہجوم سب وے میں میری ٹانگوں کے درمیان ہاتھ رکھا جب میں 12 یا 13 سال کی تھی۔‘

یہاں تک کہ سابقہ ملازمت اور پیشہ ورانہ تعلیم کے وزیر، سیدی اونیسی قدامت پسند اسلام پسند جماعت سے وابستگی کے باوجود اس تحریک میں شامل ہوئیں اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے اپنے ذاتی تجربے کو شیئر کیا۔

جب سیاستدان ظہیر مخلوف نے پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت سے حلف لیا تو ‘جارح قانون ساز نہیں ہوسکتا’ کے نام سے ایک سوشل میڈیا مہم چلائی گئی اور اس دوران جنسی تشدد کے خلاف ہونے والے واقعات اور مظاہروں کی تصاویر کو فیس بک پر شیئر کیا گیا۔

مہم شروع ہونے کے چند ماہ بعد ایک ماہر حقوق نسواں اور خواتین کے حقوق کی کارکن امل بینٹونڈیہ نے ایک انٹرویو میں اس مہم کی کامیابی کا خلاصہ پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا ’اس بار خاموشی ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *