عثمان مرزا اسلام آباد میں لڑکا لڑکی پر تشدد کی ویڈیو

عثمان مرزا اسلام آباد میں لڑکا لڑکی پر تشدد کی ویڈیو

عثمان مرزا اسلام آباد میں لڑکا لڑکی پر تشدد کی ویڈیو وائرل، ملزم گرفتار، سوشل میڈیا پر بحث

پاکستان میں سوشل میڈیا پر لڑکا لڑکی پر تشدد اور انھیں ہراساں کرنے کی ویڈیو گذشتہ روز سے وائرل ہونے کے بعد دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے اس ویڈیو میں تشدد کرنے والے ملزم عثمان مرزا سمیت دیگر دو ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔

پولیس نے تینوں ملزمان کے خلاف دو روزہ ریمانڈ بھی حاصل کر لیا ہے۔ اس سے قبل، اسلام آباد پولیس نے تصدیق کی تھی کہ انھوں نے تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے کے بعد ‘تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے’ ملزمان کو گرفتار کیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق مذکورہ ویڈیو پُرانی ہے اور اس میں تشدد کرنے والے ملزم دارالحکومت اسلام آباد کے آئی نائن سیکٹر میں ایک کار شو روم کے مالک ہیں اور اس کے علاوہ ان کی ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ اسلحے کی نمائش کرتے نظر آ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کے کچھ کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم اور اس کے ساتھی ایک کمرے میں نوجوان لڑکے اور لڑکی پر تشدد کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں ملزم لڑکے اور لڑکی کو گالیاں دیتے ہیں اور ان کے چہرے پر بار بار تھپڑ مارتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ دونوں کے کپڑے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے متاثرہ افراد خوفزدہ ہیں اور بارہا ان سے درگزر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاتون سسکیاں لیتے ہوئی روتی ہے مگر ملزم مسلسل ان سے بدتمیزی سے پیش آتا ہے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان پر تشدد جاری رکھتا ہے۔

ویڈیو کے اختتام پر ملزم متاثرہ افراد کو اپنے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر انھیں ‘اچھے طریقے سے گڈ بائے’ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جب لڑکا کہتا ہے کہ اسے ‘چکر آ رہے ہیں’ تو ملزم اس سے مزید بدسلوکی کرتا ہے۔

اسلام آباد

پولیس تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی؟

اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ کے ایس ایچ او عاصم غفار نے بی بی سی کی نامہ نگار تابندہ کوکب کو بتایا کہ ویڈیو کے وائرل ہونے کے فوراً بعد پولیس نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ملزم عثمان مرزا اور اس کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ ایک شخص کی تلاش جاری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا چونکہ یہ ویڈیو چند ماہ پرانی ہے اور اس سے متعلق آج تک کسی نے شکایت نہیں کی تھی اس لیے ملزم کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور اب جبکہ ویڈیو سامنے آچکی ہے تو پولیس نے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر کے کارروائی کی ہے۔

ایس ایچ او گولڑہ عاصم غفار کا کہنا تھا ‘پولیس نے اس کیس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور نہ چھوڑے گی۔ ہم ملزم کو عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ حاصل کریں گے اور آگے مقدمے کے حوالے سے جو فیصلہ ہوگا وہ عدالت کا ہو گا۔’

معاملے کی تفتیش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘ملزم نے اب تک بتایا ہے کہ یہ اس کا اپارٹمنٹ تھا جس کی چابیاں اس کے کچھ دوستوں کے پاس بھی ہوتی تھیں۔ ایک شام وہاں جانے پر اسے وہاں یہ لڑکا اور لڑکی ملے۔ ملزم نے اعتراف کیا کہ اس وقت وہ شراب کے نشے میں تھا اس لیے اس نے جو کچھ کیا نشے کی حالت میں کیا۔’

ایس ایچ او عاصم غفار کے مطابق ملزم نے تشدد اور بدسلوکی کا اعتراف تو کیا ہے تاہم ریپ کے الزامات سے انکار کیا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق وہ متاثرہ لڑکی تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مزید تفصیلات لی جا سکیں اور ریپ کے الزمات کی تفتیش کی جا سکے اور اگر وہ خاتون مزید کارروائی چاہتی ہیں تو وہ کی جا سکے۔

پولیس کے مطابق ملزم عثمان مرزا سے متعلق سوشل میڈیا پر ان کے جرائم پیشہ ریکارڈ کے دعوؤں کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

‘اس بابت سی آئی اے سے ملزم کے تمام ممکنہ کرمنل ریکارڈ کو طلب کر لیا گیا ہے اور اگر یہ کسی مقدمے میں ملوث یا اشتہاری پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔’

عمار

پولیس حکام کے مطابق منگل کے روز ویڈیو وائرل ہونے کے بعد محکمے کو وزرات داخلہ کی جانب سے خصوصی ہدایات جاری کی گئی تھیں جس کے بعد اسلام آباد کے 22 تھانوں کے ایس ایچ اوز ملزمان اور جائے وقوعہ کی تلاش میں لگے رہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ماہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں 24 سالہ طالب علم کے ساتھ مبینہ گینگ ریپ کے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے کئی دن بعد بھی وفاقی پولیس ملزمان کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج سمیت کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہی تھی۔

اگرچہ یونیورسٹی انتظامیہ بھی اس واقعے کی تصدیق کی تھی اور میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی اس سے متعلق بہت زیادہ بحث ہوئی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایس پی انڈسٹریل ایریا زون فدا حسین ستی نے اس وقت بتایا تھا کہ پولیس اپنے تیئں اس واقعے کا مقدمہ درج نہیں کر سکتی کیونکہ ‘یہ جرم ایک شخص کے خلاف ہوا ہے اور اگر متاثرہ شخص درخواست دے تب ہی ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اس معاملے میں مدعی نہیں بن سکتی۔

ملزم گرفتار، واقعے پر ردعمل: یہ بدمعاشی کلچر ہے

گذشتہ روز سے سوشل میڈیا پر مسلسل زیر بحث رہنے اور ‘اریسٹ عثمان مزرا’ ٹرینڈ کرنے کے بعد اسلام آباد پولیس اور ڈپٹی کشمنر اسلام آباد نے ملزم کی گرفتاری کی نوید سنائی اور کہا کہ ویڈیو کچھ ماہ پُرانی ہے اور ملزم کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں صارفین سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ویڈیوز حذف کر دیں تاکہ متاثرہ افراد کی شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل اظہر مشوانی نے سوشل میڈیا صارفین سے گزارش کی ہے کہ ویڈیو شیئر یا فارورڈ کرنے سے گریز کریں کیونکہ ایسا کرنے سے ‘آپ متاثرین کی زندگی کو مزید نقصان پہنچائیں گے۔’

عثمان مرزا

پاکستان بھر میں سوشل میڈیا پر لوگ اس واقعے پر تشویش اور متاثرین سے ہمدردی ظاہر کر رہے ہیں، اور ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

عائشہ رحمت نامی صارف نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ واقعہ بہت پریشان کن ہے۔ انھوں نے ناراضی کااظہار کرے ہوئے لکھا کہ ‘حکام اس وقت تک سوئے رہتے ہیں جب تک سول سوسائٹی اس مسئلے پر روشنی نہ ڈالے اور گرفتاری کے لیے دباؤ نہ ڈالے۔ پھر بھی لوگ سوال کرتے ہیں کہ خواتین یہاں غیر محفوظ کیوں ہیں۔’

سمن جعفری پوچھتی ہیں کہ ‘ان جانوروں کی جرات کیسے ہوئی کہ لوگوں پر اس طرح حملہ کریں۔۔۔ ہر دن اس ملک میں خواتین کے لیے نیا خوف پیدا ہوتا ہے۔’

مریم نامی صارف کہتی ہیں کہ وہ یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد اس سے اپنا دھیان ہٹا نہیں پا رہیں۔ ‘یہ سب سے دردناک چیز ہے جو میں نے دیکھی اور میں آج رات سو نہیں سکوں گی۔’

عثمان مرزا

ٹوئٹر صارف ابراہیم قاضی کہتے ہیں کہ اس ویڈیو میں موجود ملزم پاکستان میں ‘بدمعاشی کلچر’ کی عکاسی کرتے ہیں۔ ‘پاکستان میں بدمعاشی کلچر بہت پرانا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کے ذریعے رپورٹ ہوتا ہے اور حکام عوام کے دباؤ پر کارروائی کرتے ہیں۔’

‘کئی سفاکانہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، اس لیے بدمعاشی کے خلاف ایسی اصلاحات درکار ہیں جن سے قانون کی عملداری یقینی بنائی جاسکے۔’

ملزم کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر بعض لوگ یہ بحث بھی کر رہے ہیں کہ ایسے واقعات کے باوجود جب خواتین اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہیں تو ان پر تنقید کی جاتی ہے۔

ماریہ عامر کہتی ہیں کہ ‘ظاہر ہے تمام مرد ایسا نہیں کریں گے مگر سماج میں خواتین کے زور پر مردوں کو ملنے والی حفاظت سے ایسے لوگ اتنے پُراعتماد ہوجاتے ہیں اور (خواتین کے خلاف جرائم کی) ویڈیو بنا لیتے ہیں۔’

عثمان مرزا

گلوکار علی گل پیر کہتے ہیں کہ ‘آپ نے ریپ پر خواتین کو ان کے کپڑوں کی وجہ سے قصوروار ٹھہرایا، گھریلو تشدد کے مجرموں کو سزا دینے کے لیے قانون مسترد کیا اور اب مرد اس طرح لڑکیوں کو ریپ کر کے ان کی ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ ‘صدر، وزیر اعظم عمران خان، تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔’

سماجی کارکن عمار علی جان کا کہنا تھا ‘ اوپر سے نیچے تک ، ہمارا معاشرہ ایسے غنڈے چلا رہے ہیں، عثمان مرزا جیسے عفریت اس ثقافت کی پیداوار ہیں جس میں وہ جانتے ہیں کہ وہ استثنیٰ کے ساتھ بھیانک تشدد کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے، خواتین کو ہمارے نظام کی درندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’

کچھ ایسے صارفین بھی تھے جو پولیس کے رویے سے نالاں یہ کہتے نظر آئے کہ پولیس خود سے اپنی ذمہ داری پوری کیوں نہیں کرتی۔ صحافی فیضان لاکھانی بھی انہی میں شامل ہیں۔

فیضان

ان کا کہنا تھا ‘معاشرے کی حیثیت سے یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے اگر جنسی زیادتی کا شکار کسی شخص کو انصاف کے حصول کے لیے ویڈیو وائرل ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کاش پولیس نے پہلے کارروائی کی ہوتی اور ویڈیو وائرل ہونے سے قبل عثمان مرزا کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔’

تاہم بیشتر سوشل میڈیا صارفین کی نظر میں صرف گرفتاری اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے کافی نہیں۔ کئی لوگ یہ کہتے نظر آئے کہ چند دن بعد ملزم رہا ہو جائے گا اور اگلے ریپ کے واقعے تک ہم اس قصے کو بھول جائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *