عامر خان اور فریال مخدوم سے خصوصی انٹرویو ماضی میں مشکلات کا شکار جوڑا اپنی اصل شخصیات منظرِعام پر لانے کو بیتاب
آپ نے کبھی سوچا ہے کہ باکسنگ کے عالمی چیمپیئن کی روز مرہ زندگی کیسی ہوتی ہے؟
جہاں تک عامر خان کا تعلق ہے تو ان کی زندگی میں صاف ظاہر ہے بہت گلیمر ہے۔ ان کا ایک گھر دبئی میں ہے جہاں وہ چھٹیاں گزارتے ہیں، وہ ہر وقت کسی مشہور ڈیزائنر کے بنائے ہوئے کپڑوں میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں، لیکن وہ بچوں کی نیپی بدلتے وقت اپنی اہلیہ سے تکرار بھی کرتے ہیں اور انھیں ہر ہفتے گھر کے کوڑا کرکٹ والے پلاسٹک کے ڈرم اٹھا کر باہر بھی رکھنا پڑتے ہیں۔
لیکن ہمیں یہ سب کچھ کیسے معلوم ہوا؟
اصل میں ہوا یہ کہ کچھ دن پہلے عامر خان اور ان کی اہلیہ فریال مخدوم نے بی بی سی تھری کی ایک ٹیم کو بولٹن میں واقع اپنے پرتعیش گھر آنے کی دعوت دی۔
چونتیس سالہ عامر برطانیہ میں باکسنگ کا چہرہ ہیں، جنھوں نے نہ صرف سنہ 2004 کے اولمپکس میں ملک کو چاندی کا تمغہ جیت کر دیا بلکہ دو مرتبہ عالمی چیمپیئن بھی بنے۔
س کے علاوہ وہ ایک خیراتی تنظیم بھی چلاتے ہیں، باکسنگ کی ایک اکیڈمی بھی، اور مشرق وسطیٰ میں باکسنگ کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے گورنروں میں بھی شامل ہیں۔
اور فریال کا کاسمیٹکس کا ایک اپنا برانڈ ہے اور وہ جانی پہچانی انفلوئنسر بھی ہیں۔
عامر خان اور فریال مخدوم کی زندگی پر مبنی بی بی سی تھری کے پروگرام ’مِیٹ دا خانز‘ کے آئی پلیئر پر دکھائے جانے سے ایک ہفتہ قبل ہم نے ان دونوں سے گپ شپ کی اور پوچھا کہ ان کی روز مرہ کی زندگی میں کیا چل رہا ہے۔
ہم لوگوں کو اپنی اصل زندگی دکھانا چاہتے تھے‘
اس سیریز میں دکھایا جا رہا ہے کہ عامر اور فریال اپنے تین چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں کیسے پوری کر رہے ہیں۔
یہ دونوں یہ کام کیسے کر رہے ہیں، یہ چیز ہم میں سے اکثر کے لیے کوئی عجوبہ نہیں کیونکہ ہم بھی کم و بیش ایسا ہی کرتے۔
عامر کو بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ سیاہ بِن میں کون سا کوڑا ڈالنا ہے، ری سائیکلنگ والے بِن میں کیا جاتا ہے اور کھانے کی بچی کچھی چیزیں کس ڈبے میں ڈالنی ہیں۔ اور فریال بتاتی ہیں کہ گھر میں ان ہی کی چلتی ہے اور ان کی نظر میں ’عامر گھر کا چوتھا بچہ ہیں کیونکہ ان کے مطالبات میرے ایک سالہ بچے سے بھی زیادہ ہیں۔‘
بہت سے دوسرے جوڑوں کی طرح ان دونوں میں بھی تکرار ہوتی رہتی ہے کہ بچوں کو کس نے سنبھالنا ہے اور برتن کس نے خراب کیے ہیں۔
عامر الگ منصوبوں پر کام کر رہے ہیں اور فریال ایک ذاتی کاروبار چلا رہی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں کی زندگی سے بہت سے لوگوں کو آگے بڑھنے کا جذبہ مل سکتا ہے۔
فریال کہتی ہیں کہ ’میں محض عامر خان کی بیوی نہیں ہوں، میری ایک اپنی زندگی ہے اور اپنا کیریئر ہے۔‘
اس سیریز کی فلمبندی کے دوران ہم نے دیکھا کہ فریال کو مختلف کمپنیوں کی طرف سے نہایت مہنگی چیزیں بھیجی جاتی ہیں اور فریال کی خواہش ہے کہ لوگ اُس کام کو دیکھیں جو وہ بناؤ سنگھار کی شعبے میں کر رہی ہیں۔
عامر بھی کہتے ہیں کہ ’ہم چاہتے تھے کہ لوگ اور ہمارے مداح ہماری اصل زندگی دیکھیں۔‘
اس سیریز کی ایک اور قسط میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں دبئی میں ایک پرتعیش گھر خریدتے ہیں، جس کے بارے میں عامر نے بتایا کہ یہ ان کے مشرق وسطیٰ میں عالمی باکسنگ چیمپئن شِپ کے صدر بننے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
جب اس گھر کی خریداری کی خبریں منظر عام پر آئیں تو جوڑے کو ذرائع ابلاغ میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور ناقدین کا کہنا تھا کہ جب دنیا ایک عالمی وبا سے گزر رہی ہے تو عامر اور فریال کو زیب نہیں دیتا کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی دولت کی یوں نمائش کرتے پھریں۔
عامر اس تنقید سے زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ مثلاً ایک قسط میں وہ ایک برطانوی روزنامچے میں شائع ہونے والی ایک تصویر کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ ایک بہت مہنگی کار کے پاس کھڑے ہوئے ہیں۔ عامر کے بقول سچ تو یہ ہے کہ یہ کار ان کی ملکیت نہیں تھی بلکہ انھوں نے محض یہ کہا تھا کہ یہ کار انھیں پسند ہے۔
لیکن دوسری جانب اپنے بیٹے کو اس کی پہلی سالگرہ پر رولیکس گھڑی دینے پر ان کا اصرار تھا کہ بے بجا لاڈ پیار نے ان کے بچوں کو بگاڑا نہیں ہے۔
’میں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے محنت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ (بی بی سی) کی اس سیریز سے لوگوں میں جذبہ پیدا ہو گا کہ وہ بھی زندگی میں محنت کریں اور اپنے خواب پورے کریں۔‘
’میں نے خود کو ہمیشہ حقیقت کے قریب رکھا ہے‘
شہرت اور دولت کے ناز نخروں کے باوجود، ایک بات واضح ہے کہ عامر کے دل میں اپنے آبائی شہر بولٹن کی محبت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
’میرے دوست اب بھی وہی ہیں جو میرے ہائی سکول میں تھے، میں بالکل بھی نہیں بدلا، میں نے خود کو ہمیشہ اصلی رکھا۔‘
’میرے لیے میرا گھر برطانیہ ہے۔‘
فریال کا تعلق نیویارک سے ہے اور جب انھوں نے سنہ 2013 میں عامر سے شادی کی تو وہ بھی قانون کی تعلیم چھوڑ کر عامر کے ساتھ بولٹن آ گئیں۔
’میں نے کچھ غلطیاں کی ہیں‘
اس سیریز میں ہم عامر خان اور فریال مخدوم کے رشتے میں آنے والے اتار چڑھاؤ کے بارے میں سوال کرنے سے گھبرائے نہیں۔
سنہ 2017 میں وہ ایک دوسرے سے عارضی طور پر علیحدہ ہو گئے تھے اور فریال نے لوگوں کے سامنے عامر کو برا بھلا کہا تھا کیونکہ فریال پر الزام تھا کہ ان کے (باکسر) اینتھونی جوشوا کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں۔
جہاں تک جوشوا کا تعلق ہے تو ان کا کہنا تھا وہ فریال سے کبھی ’مِلے تک نہیں ہیں۔‘
اس حوالے سے فریال کا کہنا تھا کہ ’ہر کوئی جانتا ہے کہ میرے اور عامر کے درمیان کیا مسئلے تھے، لیکن اس وقت بہت دُکھ ہوتا ہے جب لوگ ہر دوسرے روز اس کا ذکر لے کر بیٹھ جاتے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب آپ زندگی کے اُس دور کو پیچھے چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔‘
لیکن ان دنوں کا ذکر کرنا کتنا آسان یا مشکل تھا؟
عامر کہتے ہیں کہ ’ہم سب نے غلطیاں کی ہیں۔ میں نے بھی کچھ غلطیاں کی ہیں اور میں چاہتا تھا کہ اس حوالے سے دیانتداری سے کام لوں۔‘
’اب میں ایک اچھے مقام پر ہوں اور میں لوگوں کو دکھانا چاہتا ہوں کہ آپ اس (قسم کی چیزوں) سے بھی نکل آتے ہیں۔‘
جب آپ عوامی شخصیت ہوتے ہیں تو آپ کو گلی سڑی سننا پڑتی ہیں‘
اس سیریز میں انٹرنیٹ پر گالم گلوچ کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔
فریال بتاتی ہیں کہ ’مجھے بہت نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ کبھی کہتے کہ تم اچھی مسلمان ہو، کبھی کہتے تم بری مسلمان ہو، کبھی میرے لباس پر تنقید، کبھی میری شادی کے حوالے سے، کبھی کہتے کہ تمہاری کوئی وقعت نہیں، اور کبھی کہا جاتا کہ تم بہت مطلبی ہو۔‘
انٹرنیٹ پر ایسے تبصرے کرنے والوں کو آپ کوشش کرتے ہیں کہ بلاک کر دیں یا بات ہی نہ کریں لیکن پھر بھی ’آپ کے موڈ کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔‘
عامر اس چیز سے کیسے نمٹتے ہیں؟
عامر کے مطابق ’جب آپ ایک عوامی شخصیت ہوتے ہیں تو آپ کو ایسی باتیں سننا پڑتی ہیں۔
’ایسے میں آپ کو کُھل کے بات کرنی پڑتی ہے۔ آپ لوگوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ انھیں کیا سوچنا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ یہ پروگرام دیکھیں اور مجھے یقین ہے کہ لوگ ہماری بات سمجھ جائیں گے۔‘
’میں ایک دو مرتبہ رِنگ میں واپس آنا چاہتا ہوں۔‘
اپنے دیگر منصوبوں اور دلچسپیوں کے باوجود بھی عامر کی خواہش ہے کہ انھیں ایک باکسر کے طور پر جانا جائے۔
ان کا آخری مقابلہ جولائی 2019 میں بِلّی ڈِب کے ساتھ ہوا تھا جس میں فتح کے بعد ان کے ریکارڈ کے مطابق عامر پروفیشل باکسنگ کے 39 مقابلوں میں سے 34 جیت چکے تھے۔
عامر کہتے ہیں کہ ’اگر میری زندگی سے باکسنگ ختم ہو گئی تو میں گُم ہو جاؤں گا۔‘
لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ بطور باکسر ان کی زندگی ختم نہیں ہوئی ہے۔
’میں چاہتا ہوں کہ ایک دو مرتبہ پھر رِنگ میں اتروں، مقابلہ کروں اور پھر باکسنگ کو خیرباد کہہ دوں۔‘