نیٹ فلیکس کا وہ شو جو سن یاس یعنی مینوپاز پر

نیٹ فلیکس کا وہ شو جو سن یاس یعنی مینوپاز پر

نیٹ فلیکس کا وہ شو جو سن یاس یعنی مینوپاز پر توجہ دلاتا ہے

عام طور پر پاپ کلچر یا عموماً بنائی جانے والی انٹرٹینمنٹ سیریز کو نوجوانوں سے منسلک کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک نئی نیٹ فلیکس سیریز میں مرکزی کردار ایک 49 سالہ خاتون کا ہے جو اپنی عمر کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ اس سیریز نے عورتوں کی اپنے ہی جسم کے ساتھ عمر بھر ہونے والی جنگ پر ناظرین کی توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے۔

بمبئی بیگمز نامی اس سیریز میں مرکزی کردار رانی، بالی وڈ سٹار پوجا بھٹ ادا کر رہی ہیں۔ ایک سین میں وہ ایک بورڈ میٹنگ سے ایک دم اٹھ کر چلی جاتی ہیں۔

اگرچہ ان کے ساتھی یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا، کیمرا انھیں باتھ روم میں اپنے منہ پر پانی ڈالتے اور ہینڈ ڈرائر سے اپنی بغلوں کو خشک کرنے کی کوشش کرتے دکھاتا ہے۔

نیوز ویب سائٹ آرٹیکل 14 کے لیے صنفی امورکی ایڈیٹر نامیتا باندرے کہتی ہیں کہ ‘زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ انھیں دل کا دورہ پڑ رہا ہے۔ مگر مجھے بالکل صحیح سے پتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

رانی کو سن یاس ہو رہا تھا یعنی اختتام حیض یا مینوپاز۔

رانی ایک ذہین عقلمند اور خوش زبان خاتون ہیں جو کہ ایک بڑے بینک کی سی ای او ہیں۔

مگر جب ان کی اپنی ضروریات کی بات آتی ہے تو وہ سکتے میں چلی جاتی ہیں اور ایک نوجوان ساتھی کے نرم الفاظ کے جواب میں بھی حقیقت سے انکار کرنے لگتی ہیں۔

نامیتا باندرے کہتی ہیں کہ رانی اس بات کو چھپانا کیوں چاہیں گی، اس کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔

‘سن یاس والی خاتون باس کا ایک مخصوص تاثر پایا جاتا ہے، کہ یہ خاتون چڑچڑی ہوگی، غیر منطقی ہوگی۔ وہ (رانی) ایک پیشہ ور خاتون ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھیوں کو یہ بات معلوم ہو۔‘

‘ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے جسم کے بارے میں خود سیکھ رہی ہیں اور خواتین سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ اس سب سے خود ہی نمٹیں۔‘

Pallavi Joshi in a scene from Painful Pride

انڈین مینوپاز سوسائٹی (آئی ایم ایس) کے مطابق ملک میں 15 کروڑ خواتین مینوپاز کی حالت میں ہیں۔ مینوپاز کی اوسطً عمر 46.2 سال ہے جبکہ عالمی سطح پر یہ 51 سال ہے۔ اور اس کی علامات میں جسم میں خصوصاً چہرے پر یک دم شدید گرمی لگنا، رات کو پسینہ آنا، نیند میں خلل، تھکاوٹ، ڈپریشن، مزاج میں تبدیلی اور جنسی رغبت میں کمی شامل ہیں.

آئی ایم ایس کی سیکرٹری اور ماہرِ امراضِ نسواں ڈاکٹر انیتا شاہ کہتی ہیں کہ خواتین اپنی تقریباً ایک تہائی زندگی مینوپاز میں گزارتی ہیں مگر اس کے بارے آگاہی انتہائی کم ہے۔‘

مغربی شہر سورت میں تین دہائیوں سے پریکٹس کر رہی ڈاکٹر شاہ کا کہنا ان علامات کے ساتھ ان کے پاس آنے والی 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں سے نصف کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے جسم کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انڈیا میں مینوپاز پر بات کرنا سماجی طور پر شاید حیض پر بات کرنے سے بھی زیادہ برا تصور کیا جاتا ہے۔

نامیتا باندرے کہتی ہیں کہ ‘گذشتہ چند سالوں میں حیض کے بارے میں مہمات چلی ہیں، ہم نے اس موضوع پر ایک بالی وڈ فلم پیڈ مین بھی دیکھی ہے مگر مینوپاز ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر بات نہیں ہوتی۔

یہ ایک حیران کن بات ہے کہ ایک ایسی چیز جس سے دنیا کی تقریباً نصف آباد کو متاثر ہوتی ہے اس کے حوالے سے اس قدر رازداری اور خاموشی ہے۔

مغرب میں اس حوالے سے آگاہی بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔

گذشتہ ستمبر میں برطانیہ میں مینوپاز کو پہلی مرتبہ سکولوں کے نصاب میں شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ درجنوں مخصوص کلینک بھی ہیں جہاں خواتین مدد کے لیے جا سکتی ہیں۔

گذشتہ سال سابق امریکی خاتونِ اول مشیل اوباما نے بھی اس پر بات کی جب انھوں نے صدارتی ہیلی کاپٹر پر صدر اوباما کے ساتھ ایک تقریب میں جاتے ہوئے ہاٹ فیلشز یعنی یک دم شدید گرمی لگنے کا ذکر کیا۔

انھوں نے اپنے پوڈ کاسٹ میں کہا کہ ’یہ ایسا احساس تھا کہ کسی نے میرا جسم کسی تندور میں ڈال دیا ہے اور اس کو ہائی پر چلا دیا ہے۔ سب کچھ جیسے پگھلنے لگا تھا۔ میں نے سوچا یہ تو پاگل پن ہے میں یہ نہیں کر سکتی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ایک عورت کا جسم اس کو کن مشکلات سے گزار رہا ہے یہ اہم معلومات ہیں۔ اس پر معاشرے میں بات ہونی چاہیے کیونکہ ہم میں سے نصف اس سے گزر رہے ہیں اور ہم ایسے ظاہر کر رہے ہیں کہ جیسے یہ ہو ہی نہیں رہا۔‘

Michelle Obama is pictured at the 2019 Beating the Odds Summit

نامیتا باندرے کہتی ہیں کہ انڈیا میں ہم یقیناً ایسے جیتے ہیں کہ یہ ہو ہی نہیں رہا۔

‘ہمارے ہاں کاروباری دنیا میں اور سیاست میں بہت سی خواتین رہنما اس عمر کی ہیں مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ خواتین کو خاموش رہنا سیکھایا جاتا ہے اس لیے قیادت میں بھی خواتین اپنے جسم کے بارے میں بات نہیں کرتیں۔‘

یہ خاموشی دیکھ کر یہ بات حیران کن نہیں لگتی کہ ایک سروس میں نوجوان لڑکیوں میں سے 71 فیصد کا کہنا تھا کہ جب تک انھیں خود حیض کا سامنا نہیں ہوا، انھیں اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔

اس سلسلے میں کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ والدین اپنی بچیوں کو ایک ایسی چیز کے لیے تیار ہی نہیں کرتے جس کا انھیں پتا ہے کہ ہونا ہے۔ اور یہ تیاری نہ ہونا ہی بہت زیادہ خوف اور بےچینی کا سبب بنتی ہے۔

اور جب خواتین مینوپاز کا شکار ہوتی ہیں تو اس وقت بھی ایسا ہی خوف اور بےچینی طاری ہوتی ہے۔ جیسے کمر چوڑی ہوتی ہے، جلد ڈھلنے لگتی ہے، اور مزاج میں تبدیلی ہونے لگتی ہے تو بہت سی خواتین یہ سوچتی ہیں کہ انھیں اپنے بہترین وقت سے بعید یا پھر یہاں تک کہ غیر اہم تصور کیا جائے گا۔

نامیتا باندرے کا کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جسم تبدیل ہوتے ہیں، مگر ہماری ماؤں سمیت کوئی بھی ہمیں اس کے لیے تیار نہیں کرتا۔‘

ڈاکٹر شاہ کہتی ہیں کہ آئی ایم ایس اسے تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب ایک متوسط عمر کی خاتون میرے کلینک پر اپنی بیٹی یا بہو کے ساتھ آتی ہے تو میں اس موقعے پر انھیں مینوپاز کے بارے میں آگاہی دیتی ہوں۔‘

‘میں انھیں جسمانی اور نفسیاتی علامات کے بارے میں بتاتی ہوں۔ میں انھیں بتاتی ہوں کہ اس کا علاج موجود ہے۔ زیادہ تر خواتین کو سکرینگ پروگراموں کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔

معلومات کی کمی اور اس کے حوالے سے غلط تاثر ہی بڑی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں خواتین خاموشی سے مشکل وقت سے گزرتی ہیں۔

2019 میں پین فل پرائڈ نامی ایک شارٹ فلم بنائی گئی جس کی متعدد فیسٹیول پر نمائش کی گئی اور کئی ایوارڈ جیتے مگر اسے ابھی کمرشل بنیاد پر ریلیز ہونا ہے۔

28 سالہ ڈائریکٹر سمترا سنگھ کہتے ہیں کہ اس فلم کی ہدایتکاری کرنے تک انھیں مینوپاز کے بارے میں بالکل کچھ معلوم نہیں تھا۔

سمترا سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فلم میں بالی وڈ کی سٹار پلاوی جوشی ایک ایسی خاتون کا کردار ادا کر رہی ہیں جو کہ شدید گرمی لگنے، نیند میں خلل، خارش اور چڑچڑاہٹ سے گزر رہی ہے۔ جنسی رغبت میں کمی کی وجہ سے انھیں یہ بھی پریشانی ہے کہ ان کا شوہر انھیں چھوڑ دے گا۔

‘یہ کہانی ان کی اور ان کے خاندان کے اس تبدیلی کو تسلیم کرنے کے بارے میں اور اس احساس کے بارے میں ہے کہ مینوپاز ایک بیماری نہیں بلکہ ایک مرحلہ ہے۔‘

باندرے کہتی ہیں کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مینوپاز کے بارے میں بہت زیادہ بات کی جائے۔ اور ’بمبئی بیگمز‘ اور ’پین فل پرائڈ‘ جیسے شو اس میں مدد کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم نے حیض کے بارے میں ابھی بات کرنا شروع کی ہے۔ ہم مینوپاز کے بارے میں بات کرنے سے ابھی بہت دور ہیں۔ یہ ایسے ہے کہ 15 کروڑ خواتین کی ضروریات اور خدشات اہم ہیں ہی نہیں۔‘

‘مگر میں پرامید ہوں کہ چیزیں بدلیں گی۔ دیکھیں پانچ سال پہلے سینیٹری پیڈ یا حیض کے نشانات کے بارے میں کون بات کرتا تھا۔ مگر آج ہم اس کے بارے میں بات کرتے ہیں اور یہ ہی ایک اگلا قدم ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *