طالبان کے افغانستان میں مزار شریف سے جوزجان کا سفر ’طالبان عُشر اور چندے کے نام پر بھتہ وصول کرتے ہیں
افغانستان کے مختلف علاقوں میں طالبان لوگوں سے جو پیسے وصول کر رہے ہیں، مقامی لوگ اسے ’ٹیکس، عُشر اور چندے‘ کے بجائے ’بھتے‘ کا نام دیتے ہیں اور انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ سفر کرنے اور اپنے علاقوں میں رہنے کے لیے طالبان کو پیسے دینے پر مجبور ہیں۔
جبکہ کچھ اس نوعیت کے دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ افغانستان کے مختلف حصوں میں لوگ اپنے خاندانوں میں موجود بیوہ خواتین کو طالبان سے بچانے کے لیے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
اس تحریر میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنے والے افغانستان کے صوبہ جوزجان کے مکینوں سے گفتگو کو تحریر کیا گیا ہے۔
سکینہ (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے حال ہی میں مزار شریف سے جوزجان کا سفر کیا اور وہاں آنے والی تبدیلیوں اور لوگوں سے گفتگو کی تفصیل بی بی سی اردو کے ساتھ شیئر کی ہیں۔
میرا نام سکینہ ہے اور میں نے گذشتہ دنوں صوبہ جوزجان کے لیے اپنے سفر کا آغاز دوپہر دو بجے مزار شریف سے کیا۔ اب ہم افغان عورتیں محرم کے بنا گھر سے نہیں نکل سکتیں۔ میرے ساتھ سفر میں میری ایک خاتون رشتہ دار، اُن کے شوہر اور بیٹا تھے۔
آپ مزار شریف شہر کی حدود سے باہر نکلنے لگیں تو وہاں سکیورٹی چیک پوائنٹ ہے جہاں اب طالبان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ گاڑیوں کی تلاشی لیتے ہیں، اندر موجود مسافروں پر نظر ڈالتے ہیں، پوچھ گچھ کرتے ہیں اور پھر سامان کی تلاشی لیتے ہیں۔
تاہم چیک پوائنٹس پر ایک طالبان اہلکار ایسا ہوتا ہے جس کا کام ڈرائیور حضرات سے پیسے لینا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اسلحہ اٹھائے ایک طالب بھی ہوتا ہے۔ یہاں ہائی وے پر موٹر سائیکلوں پر طالبان گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جوزجان کے ضلع ادخوئے تک تین گھنٹے کے سفر میں، میں نے تقریباً گیارہ چیک پوسٹوں کو عبور کیا۔
ڈرائیور نادر (فرضی نام) کا تعلق مزار شریف سے ہے، انھوں نے بتایا کہ ’طالبان ہر گھر سے چندہ جمع کر رہے ہیں اور ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق انھیں پیسے دے رہا ہے۔ میں نے بھی 100 افغانی روپے دیے۔ کچھ کو اس سے زیادہ دینے پڑے اور کچھ کو کھانا دینا پڑا۔‘
تو کیا وہ آپ کے گھر پر دستک دیتے ہیں؟
’انھوں نے علاقے کے سرکردہ لوگوں کو اس کام کے لیے رکھا ہے اور وہ ہمارے گھروں میں آتے ہیں لیکن ان کے ہمراہ دو طالبان بھی ہوتے ہیں۔‘
میں کابل اور مزار شریف کے علاوہ جوزجان پہلے بھی کئی بار آ چکی ہوں۔ شبرغان جیل سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ وہاں کا مرکزی گیٹ کھلا تھا اور طالبان وہاں بھی پہرے داری کر رہے تھے۔
ہائی وے کی تمام چیک پوسٹیں لڑائی سے متاثر تھیں اور ان کی چھتوں پر اب طالبان کے پرچم لہرا رہے تھے۔
میں ادخوئے میں داخل ہوئی تو سب کچھ یکسر بدلا ہوا دکھائی دیا۔ ایسے لگا جیسے یہ کوئی بے آباد بستی ہے۔ سب دکانیں بند تھیں اور ہو کا عالم تھا۔
مجھے بتایا گیا کہ طالبان کے حکم کے مطابق شام پانچ بجے دکانیں بند کر دی جاتی ہیں۔ جب ہم وہاں داخل ہوئے تو چار بج چکے تھے۔ یہاں رات کو کرفیو نافذ ہوتا ہے جو مغرب سے شروع ہو جاتا ہے۔
گاڑیوں میں موسیقی ممنوع اور عورتوں کو پردہ کرنے کی ہدایت کے علاوہ سمارٹ فون کے استعمال سے گریز کرنے کو کہا جاتا ہے۔
یہاں میں اپنے رشتے کی خالہ کے ہاں ٹھہری جو مجھے بتانے لگیں کہ اس مرتبہ جب طالبان ان کے علاقے میں آئے تو لڑائی ہوئی۔ یہاں کابل اور مزار شریف یا دیگر بڑے شہروں سے مختلف صورتحال تھی۔
خالہ کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا تھا ہمارے گھر کے دروازے کے سامنے جنگ ہو رہی ہے، بہت سے رشتہ دار اپنے بچوں کو لے کر ہمارے گھر پناہ لینے کے لیے آئے۔‘
’بچے بہت خوفزدہ تھے وہ تہہ خانے میں اور اوپر کمروں میں گھر کے ایک کونے سے دوسرے تک خوف سے بھاگتے ہوئے چیخ و پکار کر رہے تھے۔‘
خالہ نے کہا کہ وہ جنگ کے ہولناک دن تھے۔ تین دن تک ایسا ہی ہوتا رہا اس لڑائی میں بہت سی دکانوں کو آگ لگی اور مارکیٹوں کے شیشے ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے۔
خالہ بتاتی ہیں کہ ’طالبان کے پہلے دور میں طالبان نے ہمارے گھر کے کونے کونے کی تلاشی لی تھی اور مردوں کو گرفتار کر لیا تھا۔ میرے پاس ایک سلائی مشین تھی جو ان کے لیے نئی تھی اور وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ یہ اصل میں ہے کیا۔‘
خالہ نے بتایا کہ اس روز طالبان نے ’ہمارے بیگ اور ہر چیز کی تلاشی لی لیکن کچھ نہ ملا۔ وہ ساتھ ایک جاگیردار کے گھر گئے اور خوب توڑ پھوڑ کی۔ ہمارے گھر کے مرد 10 روز بعد رہا ہوئے۔ ان پر بہت تشدد کیا گیا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب لڑائی ختم ہو گئی تو ’میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میرے ہمراہ بازار چلیں مجھے کچھ چیزیں لینی تھیں۔ میرے شوہر نے کہا جاؤ کچھ نہیں ہو گا لیکن میں نے دیکھا جن عورتوں نے جرابیں نہیں پہنی تھیں یا کھلے جوتے پہن رکھے تھے طالبان ان سے سختی سے پیش آ رہے تھے۔ میں اس کے بعد خوف سے باہر نہیں نکلی۔ پھر شبرغان میں لڑائی شروع ہوئی تو مزید عزیز و اقارب ہمارے گھر آ گئے۔‘
خالہ کہتی ہیں کہ طالبان کی بڑے شہروں میں آمد سے پہلے بھی دور دیہات میں وہ موجود تھے۔
وہ بتانے لگیں کہ اب ان کی عمر 65 برس ہو چکی ہے۔ ’جب میں چھوٹی تھی اور سکول جاتی تھی تو یہ نیلا برقعہ نہیں ہوتا تھا۔ ہمارا یونیفارم سکرٹ تھا جس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی تھی جس کے ساتھ ہم جرابیں پہنا کرتے تھے۔ لیکن پھر طالبان نے برقعے کا حکم دیا اور دن بدن ان کے احکامات سخت ہوتے گئے۔‘
جب میں باہر نکلی تو بازاروں میں خواتین کی تعداد میں نمایاں کمی دکھائی دی۔ یہاں اب طالبان کے حکم کے مطابق نیلے یا سیاہ برقعے میں پاؤں میں جرابیں پہن کر خواتین باہر نکل سکتی ہیں۔
چھوٹی چھوٹی بچیوں کو اب سکارف اوڑھنا ہوتا ہے جو طالبان کے دور سے پہلے نہ سکارف لیتی تھیں نہ ہی نقاب، وہ بچوں میں شمار ہوتی تھیں۔
جتنا علاقے میں آگے بڑھتے جائیں آپ محسوس کرتے ہیں کہ عورتیں معمول سے انتہائی کم دکھائی دیں گی اور سکول بند نظر آئیں گے جن کے داروغہ بھی اب طالبان ہیں۔
یہاں مجھے بہت سی نوجوان لڑکیوں سے ملنے کا موقع بھی ملا۔ کچھ یہاں سے فاصلے پر موجود جوزجان یونیورسٹی کے آخری سال میں تھیں اور اب گھروں میں محصور ہو کر رہ گئی ہیں۔
سکول کالج جانے والی بچیاں بھی مایوسی اور خوف کا شکار ہیں کہ ان کی تعلیم کا کیا بنے گا اور کیا قیمتی سال تباہ ہو جانے کے بعد اب مستقبل میں کوئی راستہ ہے، میرے پاس ان کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔
وہاں خواتین بتاتی ہیں کہ جنھیں کام پر بلا بھی لیا گیا ہے، ان کو بھی تنخواہ نہیں دی جا رہی۔
طالبان نے سکول یونیفارم کو گرے سے سیاہ رنگ میں تبدیل کر دیا ہے مگر لڑکیاں تو سکول سرے سے جا ہی نہیں پا رہیں۔
میری ملاقات یہاں مریم بی بی سے ہوئی جن کے کندھے اور گھٹنے میں برسوں پہلے ان کے گھر پر طالبان کی جانب سے پھینکے جانے والے گرنیڈ کے ٹکڑے موجود ہیں۔ اس روز انھوں نے اپنا ایک بیٹا بھی کھو دیا تھا۔
ان کے شوہر سکیورٹی اہلکار تھے اور اب ان کا بیٹا سکیورٹی اہلکار ہے جو اپنے گھر میں طالبان کے خوف کے باعث رہ نہیں سکتا۔
جوزجان میں مجھے متعدد گھرانوں نے یہ بتایا کہ طالبان نے ان سے صرف خوراک ہی نہیں پیسے بھی لیے ہیں۔ علاقے کے مکین کہتے ہیں کہ اب بجلی کے بل دگنے آ رہے ہیں اور لوڈ شیڈنگ بھی بہت ہو رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ مختلف لوگوں سے طالبان نے الگ الگ رقم لی جیسے اساتذہ سے ایک ہزار افغانی لیے اور اگر کوئی کاروباری شخص ہے تو اس سے پانچ ہزار افغانی لیے۔
مریم بی بی کی بہو سکول ٹیچر ہیں۔ مریم نے بتایا کہ ان کی بہو نے بھی طالبان کو ایک ہزار افغانی ادا کیے تھے لیکن انھوں نے کہا کہ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ چھٹی جماعت تک لڑکیاں پڑھ سکتی ہیں تو وہ کم از کم یہاں نہیں ہو رہا۔
اس علاقے میں لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ طالبان کے پہلے دور کو بھول چکے تھے لیکن اب بہت مشکل حالات ہیں۔
ان کے بقول اس علاقے میں پہلے بھی صورتحال خراب تھی اور یہ بہت غیر محفوظ علاقہ تھا۔ وہ بتانے لگیں کہ کئی گھروں میں طالبان نے لوٹ مار بھی کی۔
مریم بی بی کا کہنا تھا کہ کوئی عورت رکشے میں مجبوری میں بھی اکیلے سفر نہیں کر سکتی۔ ان کے مطابق دو عورتوں اور رکشہ ڈرائیور کو اس وجہ سے مار پڑی کہ ڈرائیور رکشے میں سوار عورتوں کا محرم نہیں تھا۔
جوزجان کے ضلع ادخوئے میں لوگوں کی پریشانی کی ایک اور وجہ خشک سالی کی وجہ سے فصلوں کی کاشت نہ ہونا بھی ہے۔
طالبان کی آمد سے پہلے یہاں لوگوں کو بین الاقوامی اداروں سے امداد میں آٹا تو مل جاتا تھا لیکن اس بار وہ بھی نہیں ملا۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ ان کی مدد کون کرے گا۔
یہاں کے غریب کسانوں کو بھی طالبان کو ٹیکس دینا ہوتا ہے۔ ہر تجارتی مرکز پر طالبان کے نمائندے کھڑے ہوتے ہیں اور مزار کابل ہائی وے اور ہرات کابل ہائی وے پر آپ کو ایسے ہی نمائندے دکھائی دیں گے۔ یہاں ان کا مختلف اشیا کے لیے مختلف ریٹ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تاجر اور امیر دکانداروں کو بھی طالبان کو بھتہ دینا ہوتا ہے۔
اب طالبان نے وہاں بھتہ وصول کرنے کا ایک نیا طریقہ نکالا ہے۔ اس میں وہ یہاں موجود گھرانوں سے پیسے اکٹھے کرتے ہیں یا پھر اپنے مجاہدین کے لیے کھانا لیتے ہیں۔
ادریس (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ یہاں طالبان نے کھانا لینے کے علاوہ ہر شادی شدہ شخص سے 150 افغانی وصول کیے ہیں۔ ان کے مطابق طالبان نے کہا ہے کہ وہ مدرسہ بنانا چاہتے ہیں۔
وہ کہنے لگے کہ خماب کے 18 دیہات میں پہلے ہی 30 مدرسے ہیں مگر طالبان پھر بھی مزید مدرسے بنانے کا اعلان کر رہے ہیں۔
’وہ نوجوانوں کو طالبان بننے پر ابھار رہے ہیں۔‘ ادریس بتاتے ہیں کہ دن بدن طالبان کی تنظیم میں نوجوان لڑکوں کی شمولیت بڑھتی جا رہی ہے۔
ایک دوسرے شخص نے مجھے بتایا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جن لوگوں کا فوج سے تعلق تھا طالبان نے ان سے پیسے بھی لیے، ان کا اسحلہ بھی لیا اور انھیں جیلوں میں بند بھی کر دیا۔
ادریس نے بتایا کہ یہاں یہ بھی اطلاعات ملیں ہیں کہ ملا ماجد نے جو ان کے ضلع میں طالبان کی نمائندگی کر رہے ہیں، ایک مقامی شخص کی بیوہ سے شادی کی ہے۔
صوبہ جوزجان کے ضلع آکچا میں بھی ایسی ہی صورتحال سننے کو ملی۔ میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ وہاں دو بیوہ عورتوں سے طالبان نے شادی کے لیے کہا لیکن ان کے بچے تھے اور وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لیے وہ خاندان سمیت وہاں سے فرار ہو گئیں۔
ادریس نے بی بی سی سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے والدین بھی جوزجان میں رہ رہے ہیں۔
’میرے گھر میں بھی ایک بیوہ بھابھی ہیں، ہم ہر وقت فکر مند رہتے ہیں کہ ان کا کیا ہو گا۔ ہمارے بوڑھے والدین اپنا علاقہ نہیں چھوڑنا چاہتے اور نہ ہی ہم کسی دوسرے علاقے میں رہنا معاشی طور پر برداشت کر سکتے ہیں۔‘
ادریس کہتے ہیں کہ ’یہاں آپ کو ایسے نوجوان بھی ملیں گے جو اپنی نوکریاں کھو چکے ہیں۔ وہ طالبان کا تشدد برداشت نہیں کرنا چاہتے اور بنا پاسپورٹ کسی بھی قیمت پر ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔‘
ایسے بھی لوگ ملیں گے جو اب بھی دل میں یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اردگرد کے سب مرد ان کے ساتھ مل جائیں اور طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں لیکن طالبان کا خوف انھیں ایسا کرنے سے روکتا ہے۔
جوزجان کے ضلع قارکن میں بھی طالبان عُشر اور ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ وہاں وہ 140 کلو گندم میں سے سات کلو وصول کرتے ہیں۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ یہ عُشر غریب لوگوں یا مقامی مسجد کو دیا جاتا تھا لیکن اب طالبان یہ خود لے رہے ہیں اور اگر کسان نہ دیں تو وہ انھیں دھمکاتے ہیں۔
سکینہ نے جوزجان کے سفر کے بعد فون کر کے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے مجھ سے کہا کہ شاید وہ وہاں کی عورتوں اور مردوں کے چہروں پر پھیلی اداسی اور مایوسی کو لفظوں میں ڈھال نہیں سکتیں لیکن جو انھوں نے دیکھا اور محسوس کیا وہ کرب ان کے دل میں ہمیشہ رہے گا۔
طالبان کا مؤقف
بی بی سی نے طالبان کی جانب سے لیے جانے والے ٹیکس اور اناج کے بارے میں جاننے کے لیے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کو سوالات بھجوائے اور پوچھا کہ کیا یہ الزامات درست ہیں اور یہ بھی کہ اب جبکہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے تو معاشی اور اقتصادی صورتحال سے کیسے نمٹا جا رہا ہے؟
طالبان کے متعلقہ دفتر کی جانب سے ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا تاہم افغانستان کے ایک صوبے میں ٹیکس کلیکٹر کی ذمہ داری سرانجام دینے والے ایک طالب نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں اس حوالے سے تفصیلات فراہم کی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کے ملک مدثر کو بتایا کہ دو قسم کے ٹیکس ہیں جو لیے جا رہے۔
’سرحدی علاقوں سے جو چیزیں آتی ہیں ان پر تاجر ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کی ادائیگی پر تاجروں کو رسید دی جاتی ہے اور یہ ہمارے ڈیٹا بیس میں چلی جاتی ہے۔ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے جیسے آٹے اور کھانا بنانے کے تیل کے لیے الگ الگ ٹیکس مقرر ہوتا ہے۔‘
طالبان کے ٹیکس کلیکٹر نے بتایا کہ جو عُشر اکھٹا کیا جا رہا ہے وہ اسے غریب لوگوں کو دے رہے ہیں۔
’ہم اسے اکٹھا کر رہے ہیں لیکن اپنے اداروں اور مجاہدین میں نہیں بلکہ غریب لوگوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ کسان انھیں نصف عُشر دیتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت وہی پرانا نظام چل رہا ہے۔
’ابھی ہمیں نیا نظام نہیں ملا۔ ہم پرانے سسٹم کے تحت ہی لوگوں سے ٹیکس لے رہے ہیں۔‘
طالب ٹیکس کلیکٹر کا کہنا تھا ’ہماری حکومت پورے افغانستان میں ایک ہی ہے۔ جب امارات اسلامی کے امیر کا حکم آتا ہے تو وہ سب کے لیے ہوتا ہے ہر کوئی اس پر عمل کرتا ہے۔ ہمارا پورے افغانستان پر کنٹرول ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’معیشت کا بہت مسئلہ ہے۔ امریکیوں اور اقوام متحدہ نے ہم پر پابندی لگائی ہے۔ افغانوں نے بہت پیسہ بنایا لیکن اب ہم انھیں پیسہ نہیں دے پا رہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس کا ہمیں سامنا ہے۔‘
ہم نے ان سے پوچھا کہ بیرونی طور پر کون سے ممالک مدد کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا ’ہمیں بین الاقوامی برادری سے مدد مل رہی ہے۔ پاکستان، ازبکستان اور دیگر ملکوں سے ہمیں مدد مل رہی ہے۔‘
’ہم نے وہ امداد اکٹھی کی ہے اور اسے آفات سے نمٹنے والے ادارے اور مہاجرین سے متعلق محکمے کو دیا۔ اس کے علاوہ ہم نے ادویات وزارت صحت کو دی ہیں۔ ادویات، آٹا اور کوکنگ آئل مختلف علاقوں میں غریبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔‘
غریبوں کی امداد سے متعلق طالبان کے دعوے اپنی جگہ لیکن افغانستان سے ایسے مناظر بھی سامنے آ رہے ہیں جہاں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے اپنے گھر کا معمولی سامان بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔