تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ پنجاب میں رینجرز تعینات

تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ پنجاب میں رینجرز تعینات

تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ پنجاب میں رینجرز تعینات، تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ کامونکی سے آگے روانہ

فرانسیسی سفیر کی بےدخلی کے معاہدے پر عملدرآمد اور اپنے امیر سعد رضوی کی رہائی کے مطالبات لیے کالعدم مذہبی تنظیم تحریکِ لبیک کا لانگ مارچ کامونکی میں قیام کے بعد جمعرات کی صبح ایک بار پھر اسلام آباد کی جانب روانہ ہو گیا ہے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے تحریک لبیک سے سختی سے اور بطور عسکریت پسند گروپ نمنٹنے کے اعلانات کے باوجود کامونکی سے روانگی کے بعد قافلے کے شرکا کو تاحال کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔

مارچ میں شامل قائدین کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اس قافلے کا اگلا پڑاؤ چند دا قلعہ بائی پاس ہو گا۔

مارچ میں شامل تحریکِ لبیک کے رہنما مفتی عمیر نے بی بی سی اردو کے شہزاد ملک کو بتایا کہ قافلہ گوجرانوالہ میں داخل ہو گیا ہے اور ان کے بقول راستے میں انھیں کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

مقامی صحافی راجہ حبیب کے مطابق گوجرانوالہ میں بھی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے تاہم وزیر آباد کے قریب سڑک پر خندقیں کھود دی گئی ہیں اور بظاہر وہاں لانگ مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

صوبہ پنجاب میں اس لانگ مارچ کے تناظر میں بدھ کی شام سے رینجرز کو تعینات تو کیا گیا ہے لیکن تاحال قافلے کے قریب یا دیگر مقامات پر رینجرز موجود نہیں ہیں۔

ادھر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ 27 اکتوبر کو لانگ مارچ کے شرکا سے جھڑپوں میں زخمی ہونے والے قصور پولیس کے کانسٹیبل غلام رسول مریدکے کے ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے ہیں۔

جمعے سے اب تک پولیس سے اس قافلے کے شرکا کی پرتشدد جھڑپوں میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

رینجرز
شیخ رشید کے مطابق صوبائی حکومت دو ماہ تک جہاں چاہے رینجرز کو استعمال کر سکتی ہے

دو ماہ کے لیے پنجاب میں رینجرز تعینات

پنجاب میں اس لانگ مارچ کی وجہ سے پیدا ہونے والی امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے دو ماہ کے عرصے کے لیے رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

رینجرز کی تعیناتی کا اعلان کرتے ہوئے بدھ کی شام وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 147 کے تحت حکومتِ پنجاب کی درخواست پر کیا گیا ہے اور صوبائی حکومت دو ماہ تک جہاں چاہے انھیں استعمال کر سکتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی شق پانچ کے استعمال کا بھی اختیار دے دیا گیا ہے جس کے تحت نیم عسکری اداروں کو ’دہشتگردی‘ کی روک تھام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

شیخ رشید نے تحریکِ لبیک سے احتجاج ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ایسا نہ ہو کہ اُن کی تنظیم پر بین الاقوامی پابندی لگ جائے اور وہ دہشتگردوں کی فہرست میں آ جائیں کیونکہ ایسا ہونے پر ان کے مقدمات پاکستان کے ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔

’ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے‘

شیخ رشید احمد نے تحریکِ لبیک پاکستان کی جانب سے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کے مطالبے پر کہا کہ پاکستان میں فرانس کا سفیر موجود نہیں ہے، تاہم ’ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ وہ اب بھی تحریکِ لبیک سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ لوگ واپس چلے جائیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پنجاب میں تعینات رینجرز کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ پانچ کے تحت پولیسنگ کے اختیارات بھی دیے گئے ہیں۔

اس قانون کے تحت مسلح افواج یا نیم عسکری ادارے (رینجرز، فرنٹیئر کور) کو پولیس کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں جنھیں استعمال کرتے ہوئے پولیس، فوجی یا نیم عسکری اہلکار ‘دہشتگردانہ اقدامات’ یا انسدادِ دہشتگردی ایکٹ میں موجود جرائم کو روکنے کے لیے فائرنگ کر سکتے ہیں، بغیر وارنٹ گرفتاری کر سکتے ہیں اور تلاشی، کسی کی گرفتاری یا اسلحے وغیرہ کی ضبطگی کے لیے بغیر وارنٹ کسی جگہ پر داخل ہو سکتے ہیں۔

پولیس
پنجاب پولیس کے مطابق اب تک تین پولیس اہلکار تحریکِ لبیک کے کارکنوں سے تصادم میں مارے گئے ہیں

’ٹی ایل پی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کر سکتی‘

اس سے قبل وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد حکومتی فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تحریکِ لبیک پاکستان سے ایک ‘عسکریت پسند گروہ’ کے طور پر نمٹا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کوئی سیاسی جماعت نہیں۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ کالعدم ٹی ایل پی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کر سکتی۔

اُنھوں نے بتایا کہ فوج، انٹیلیجنس اداروں اور متعلقہ حکام کی مشاورت سے ’واضح پالیسی فیصلہ‘ لیا گیا ہے کہ تحریکِ لبیک کو عسکریت پسند گروہ تصور کیا جائے گا۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ ’باقی دہشتگرد تنظیموں کا جیسا خاتمہ ہوا ہے‘ ٹی ایل پی کے ساتھ بھی وہی کیا جائے گا۔

اُنھوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے ٹی ایل پی کو الیکشن لڑنے کی اجازت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اداروں کا ’فرض ہے کہ اپنا کردار ادا کریں۔‘

’کہیں طاقت کا استعمال نہیں ہوا‘

وفاقی وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ حکومت نے برداشت کا مظاہرہ کیا ہے نہ ہی کہیں طاقت کا استعمال کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر جو لوگ مہم چلا رہے ہیں اور جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں وہ اپنے رویوں پر ابھی نظرِثانی کر لیں۔‘

تحریکِ لبیک کے زخمی کارکن
بدھ کو پولیس اہلکاروں اور تحریکِ لبیک کے کارکنوں کے درمیان پھر جھڑپیں ہوئی ہیں

اُنھوں نے کہا کہ ان میں کچھ لوگ میڈیا کے بھی ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جعلی خبروں کے کلچر کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ ’پاکستان کی ریاست کی عزت‘ اور ’شہریوں کی زندگی کا سوال ہے۔‘

’دہشتگردی کا ٹھپہ لگانے والے مقتدر حلقے اپنے گریبان میں جھانکیں‘

دوسری جانب تحریکِ لبیک پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ حکومت اپنے وعدوں سے پھر گئی اور پھر تشدد کا راستہ اپنایا ہے۔

پاکستانی وزرا کی پریس کانفرسوں پر ردعمل دیتے ہوئے ترجمان نے کہا ہے کہ ’تحریک پر دہشتگردی کا ٹھپہ لگانے والے مقتدر حلقے اپنے گریبان میں جھانکیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’قوم کو کہتے ہیں مذاکرات کر رہے ہیں ہمارے ساتھ رابطہ تک نہیں کیا جا رہا۔‘حکومت کی جانب سے تین پولیس اہلکاروں کی ہلاکت میں کلاشنکوف کے استعمال کے الزامات کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ وہ نہتے ہیں۔ اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان سے فرانسیسی سفیر کی بے دخلی اور فرانس سے پاکستان کے سفیر کو واپس بلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

پولیس
اسلام آباد میں فرانسیسی سفارتخانے کے باہر پولیس اہلکار تعینات ہیں

سڑکوں پر رکاوٹیں، راستے اور انٹرنیٹ بند

لانگ مارچ کی وجہ سے ضلع گوجرانوالہ سمیت پنجاب کے مختلف علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی ہے۔

اس قافلے کو روکنے کے لیے اسلام آباد کی جانب جانے والی شاہراہوں پر بھی جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ منگل کی شام سے ہی اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی وخارجی راستوں پر دوبارہ کینٹینرز اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ یہ رکاوٹیں اس وقت عارضی طور پر ہٹانے کے احکامات جاری کیے گئے تھے جب حکومت اور ٹی ایل پی میں مذاکرات کا آغاز ہوا تھا۔

وفاقی انتظامیہ کے مطابق اسلام آباد و راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد چوک کو چاروں جانب کنٹینرز لگا پر مکمل طور پر بند کر دیا گیا جبکہ راولپنڈی کی اہم شاہراہ مری روڈ پر بھی کنٹینرز لگا دیے گئے ہیں۔

دونوں شہروں میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق اسلام آباد میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے پولیس و رینجرز کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

شہری انتظامیہ کے مطابق بدھ کی صبح سے جڑواں شہروں میں میٹرو بس سروس بند کرنے اور موبائل فون سروس معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *