صدر بائیڈن کے بیان پر امریکی سفیر کو وضاحت

صدر بائیڈن کے بیان پر امریکی سفیر کو وضاحت

صدر بائیڈن کے بیان پر امریکی سفیر کو وضاحت کے لیے دفتر خارجہ طلب کیا ہے: وزیر خارجہ

وفاقی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے پاکستان سے متعلق بیان پر وزیر اعظم شہباز شریف سے مشاورت کے بعد پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم کو بطور آفیشل ڈیمارش (احتجاج) پاکستان کے دفتر خارجہ طلب کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں پاکستان شاید ’دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے‘ جس کے پاس موجود ’جوہری ہتھیار غیر منظم‘ ہیں۔ انھوں نے پاکستان سے متعلق یہ تبصرہ ڈیموکریٹک کانگریشنل کیمپین کمیٹی کے استقبالیے میں کی گئی اپنی تقریر کے دوران کیا تھا جو جمعرات کے روز منعقد ہوئی تھی۔

سنیچر کی دوپہر کراچی میں نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک بات ہمارے جوہری اثاثوں کی سیفٹی اور سکیورٹی کی ہے تو ہم آئی اے ای اے (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) کی طرف سے وضع کردہ تمام بین الاقوامی معیاروں کی پیروی کرتے ہیں۔‘

انڈیا میں جوہری صلاحیت کی سیفٹی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ جوہری تحفظ کے حوالے سے انڈیا سے سوال کیا جانا چاہیے ’جس نے حادثاتی طور پر پاکستانی سرزمین کی جانب میزائل داغا تھا۔‘

پاکستان کے وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ صدر بائیڈن کے اس بیان کی وجہ غلط فہمی ہو سکتی ہے جو روابط کے فقدان سے جنم لیتی ہے۔ ’اگر یہ (جوہری ہتھیاروں کی سیفٹی) تشویش کا باعث ہوتا تو اسے میرے ساتھ میٹنگ میں اٹھایا جاتا۔ ہمارے پاس کئی مواقع ہوں گے جہاں روابط بہتر ہو سکیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ ’اپنے تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانے کے لیے کوششیں جاری‘ رکھے گا۔

بائیڈن

بلاول کا کہنا تھا کہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے وضاحت کا موقع دیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ایک غیر رسمی تقریب میں صدر بائیڈن نے یہ بیان دیا جو کہ کوئی قوم سے خطاب یا باقاعدہ تقریب نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں سازشی نظریات سے گریز کرنا چاہیے۔ ہم پاکستان کے مفاد کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ اگر ہم محسوس کرتے کہ ایسا کوئی دباؤ ہے تو اسے عوام کے سامنے لایا جائے گا۔ ہمارا اور امریکہ کا اپنا اپنا مؤقف ہے۔۔۔ ہمیں دنیا کے ساتھ مثبت انداز میں روابط قائم کرنے چاہییں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر یہ معاملہ امریکہ کی ترجیح ہوتا تو اسے امریکی وزیر خارجہ اور دیگر ملاقاتوں میں اٹھایا جانا چاہیے تھا۔۔۔ اگر سوال بنتے ہیں تو انڈیا سے بنتے ہیں۔ ہم پُراعتماد ہیں کہ ہمارا جوہری پروگرام تمام معیاروں پر پورا اترتا ہے۔’

جو بائیڈن نے کیا کہا تھا؟

ڈیموکریٹک کانگریشنل کیمپین کمیٹی کے استقبالیے میں جمعرات کو خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں پاکستان شاید ’دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے‘ جس کے پاس موجود ’جوہری ہتھیار غیر منظم‘ ہیں۔

اُن کی جانب سے اس موقع پر کیا گیا خطاب وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ پر شائع ہوا ہے۔ جس میں بائیڈن کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’۔۔۔ اور میرے نزدیک شاید دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک، پاکستان۔ اس کے پاس موجود جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘

امریکی صدر کے یہ ریمارکس بدلتے عالمی سیاسی منظرنامے کے تناظر میں دیے گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے سیاسی منظرنامے میں تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے اور متعدد ممالک اپنے اتحاد کے بارے میں نظرثانی کر رہے ہیں۔

بی بی سی کی جانب سے اس بارے میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ سے ردِعمل حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ تاہم اب سے کچھ دیر قبل پاکستان کے وفاقی وزیرِ توانائی خرم دستگیر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر نے ’پاکستان سے متعلق جن شکوک و شبہات کا ذکر کیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہیں۔ پاکستان کا جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بالکل محفوظ ہے۔‘

پاکستان، جوہری ہتھیار

خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان جو ایک عرصے تک امریکہ کا اہم شراکت دار رہا تھا اس کے بارے میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی سٹریٹیجی 2022 کی رپورٹ میں کوئی تذکرہ تک نہیں تھا جبکہ اس رپورٹ میں چین کو ’امریکہ کا سب سے اہم جیو پولیٹیکل چیلنج‘ قرار دیا گیا ہے۔

اس 48 صفحات پر مشتمل دستاویز میں جنوبی اور وسطی ایشیائی خطے میں دہشتگردی اور دیگر جیو سٹریٹیجک خطرات کا ذکر تو موجود ہے لیکن گذشتہ برسوں کے برعکس اس میں پاکستان کو ان خطرات سے نمٹنے کے لیے بطور اتحادی نہیں لکھا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کا نام سنہ 2021 کے سٹریٹجی پیپر میں بھی موجود نہیں تھا۔

بائیڈن کی جانب سے اس تقریر میں کہا گیا کہ ’اور سچ بات یہ ہے اور میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ مذاق ہرگز نہیں۔ ہمارے دشمن بھی ہماری جانب دیکھ رہے ہیں اور یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ ہم کیا کرتے ہیں، معاملات کا حل کیسے نکالتے ہیں۔‘

بائیڈن کا کہنا تھا کہ اس وقت بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ کے پاس دنیا کو ایک ایسی جگہ لے جانے کی صلاحیت جہاں وہ اس سے پہلے نہیں تھی۔

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’کیا آپ میں سے کسی نے کبھی یہ سوچا تھا کہ کیوبا میزائل بحران کے بعد سے کوئی ایسا روسی رہنما آئے گا جو ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے بارے میں دھمکی دے گا۔ (ٹیکٹیکل ہتھیار) جو تین سے چار ہزار افراد کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھنے والا محدود ہتھیار ہے۔‘

کیا کسی نے کبھی یہ سوچا تھا کہ ’چین ایک ایسی صورتحال میں ہو گا جہاں وہ روس، انڈیا اور پاکستان سے اپنے تعلقات کے حوالے سے نظرِ ثانی کر رہا ہو گا۔‘

بائیڈن نے اپنی تقریر میں اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی اور کہا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جنھیں معلوم ہے کہ انھیں کیا چاہیے لیکن انھیں ’غیرمعمولی‘ مشکلات کا سامنا ہے۔

تقریر جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا ’تو ہم ان کے ساتھ کیا معاملہ کریں؟ جو ہو رہا ہے ہم اسے روس کے تناظر میں کیسے دیکھیں؟ اور جو میرے خیال میں دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے، پاکستان۔ (جن کے پاس) جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔‘

حالیہ دنوں میں پاکستان اور امریکہ کے حکام کی جانب سے پاکستان امریکہ تعلقات کو افغانستان اور انڈیا کے تناظر سے ہٹ کر ایک علیحدہ شناخت دینے کی بات کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی جانب سے منگل کو کہا گیا تھا کہ امریکہ ’پاکستان سے طویل مدتی روابط کی قدر کرتا ہے‘ اور اس طرح کے متعدد شعبے ایسے میں جن میں دونوں ممالک کے مفاد یکساں ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *