گیمنگ پاکستانی نوجوان ای سپورٹس

گیمنگ پاکستانی نوجوان ای سپورٹس

گیمنگ پاکستانی نوجوان ای سپورٹس سے لاکھوں کیسے کما رہے ہیں؟

آپ کی فیملی اس بات کو کبھی ہضم نہیں کر پاتی کہ کوئی لڑکی یوٹیوب پر فیس کیم (کیمرے) کے ساتھ سٹریم کر رہی ہے۔‘

فرض کیجیے آپ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد موجود ہے اور آپ خود بھی ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہیں، لیکن آپ اس پیشے کو چھوڑ کر اپنی دل کی سُنتی ہیں اور گیمنگ کو بطور تفریح نہیں بلکہ پیشہ اپنا لیتی ہیں۔

امبر جنھیں گیمنگ کی دنیا میں ’میڈک‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے بالکل ایسا ہی کیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’لوگوں کو یہ بات سمجھنا خاصا مشکل ہو رہا تھا، میری فیملی، بھابھیاں، اور والد سب ہی ڈاکٹر ہیں۔ میں بھی ہومیوپیتھک ڈاکٹر ہوں، اس لیے میرے والد کو یہ تھا کہ معاشرے میں ایک عزت ہوتی ہے، آپ کلینک پر بطور ڈاکٹر جا رہے ہیں۔‘

تاہم امبر کی شادی کے بعد زندگی بدل گئی کیونکہ اُن کے شوہر نے ان انھیں گیمنگ جاری رکھنے کا حوصلہ دیا۔ ’میرے شوہر نے میری بہت ہمت بندھائی، میرا گیمنگ کی طرف ذہن تھا اور انھوں نے میرا اس بارے میں ساتھ دیا۔‘

’تب میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ یوٹیوب سے پیسے بھی کمائے جا سکتے ہیں لیکن میرے شوہر نے مجھے اعتماد دیا۔‘

امبر عرف ’میڈک‘ ان گنی چنی خواتین میں سے ہیں جو پاکستان میں ای سپورٹس کی پھلتی پھولتی انڈسٹری کا حصہ ہیں اور گیمنگ کرنے کے علاوہ، سٹریمنگ اور ٹورنامنٹ کے انعقاد کے ذریعے پیسے کما رہی ہیں۔

امبر
’پاکستانی والدین اس بات سے آگے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ بیٹی ہے تو ڈاکٹر بنے گی اور بیٹا ہے تو انجینیئر بنے گا‘

’لوگ آپ کو مایوس کرتے ہیں‘

بطور خاتون ایک ایسی انڈسٹری میں قدم رکھنا جس میں لڑکوں کی بڑی تعداد موجود ہے، امبر کے لیے خاصا مشکل تھا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’لوگ آپ کو مایوس کرتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ مجھے تقریباً ڈیڑھ سال لگے بہتر ہونے میں اور پھر میری دیکھا دیکھی اتنی لڑکیاں اس شعبے میں آئیں جس کی مجھے بہت خوشی ہے۔‘

تاہم اس شعبے میں وہ اکیلی نہیں ہیں جو گھر بیٹھے اچھے پیسے بنا رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہنر انھوں نے کسی سے نہیں بلکہ خود سیکھا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہنر آپ میں ہوتا ہے، آپ کو پلیٹ فارم چاہیے ہوتا ہے، میرے ساتھ 12، 13 سال کے بچے بھی گیمنگ کر رہے ہوتے ہیں، وہ پڑھ بھی رہے ہیں اور ساتھ میں یہ گیمنگ بھی کر رہے ہیں۔‘

’وہ صرف پڑھاکو بچے نہیں ہیں بلکہ وہ زیادہ تیزی سے سوچنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔ آپ کا ذہن یہ کھیل کر بہت متحرک ہو جاتا ہے۔‘

امبر کو پاکستانی والدین سے شکوہ ہے کہ وہ اس بات سے آگے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں کہ ’بیٹی ہے تو ڈاکٹر بنے گی اور بیٹا ہے تو انجینیئر بنے گا۔‘

تاہم ان کے مطابق اب چھوٹے بچے جنھوں نے اپنے یوٹیوب اکاؤنٹ بنا لیے ہیں ’وہ بھی اتنا اچھا کما لیتے ہیں کہ انھیں کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیمنگ کے ذریعے آپ کتنا کما لیتے ہیں اور یہ ہنر سیکھنے کے لیے آپ کو کتنی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔

گیمنگ

ای سپورٹس سے آپ کتنا کما سکتا ہیں؟

یقیناً بچپن میں آپ کے والدین بھی آپ کو گیمنگ سینٹرز میں جانے سے روکتے ہوں گے لیکن اب ای سپورٹس عالمی طور پر اربوں ڈالر کی مارکیٹ بن گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2021 میں عالمی سطح پر ای سپورٹس کی مارکیٹ کا حجم ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا اور ڈوٹا 2 کا پرائز پول چار کروڑ 80 لاکھ ڈالر سے زیادہ تھا۔

پاکستان کے اب تک کے سب سے بڑے ای سپورٹس ایونٹ کا مجموعی پرائز پول دو کروڑ روپے تھا۔ پاکستانی ای سپورٹس پلیئرز سمائل حسن اور ان کے بھائی یاور حسن کل ملا کر 45 لاکھ ڈالر کما چکے ہیں جبکہ ٹیکن 7 کھیلنے والے ارسلان ایش اب تک ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کما چکے ہیں۔

امبر بتاتی ہیں کہ کچھ یوٹیوبر گیمرز جو اس چیز میں بہت زیادہ آگے نکل چکے ہوئے ہیں ’وہ مہینے کا 15 سے 20 لاکھ کما رہے ہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’پہلے پاکستان میں ای سپورٹس کو کوئی کچھ سمجھتا ہی نہیں تھا لیکن اب ہم لوگوں کو تھوڑی سی آگاہی آئی ہے، اس کی وجہ پب جی اور فری فائر جیسی گیمز بھی ہیں۔‘

خیال رہے کہ ای سپورٹس میں اس سے قبل موجود گیمز میں زیادہ مقبولیت ٹیکن، ڈوٹا اور فیفا جیسی گیمز کو حاصل تھی جو کنسول کے ذریعے کھیلی جانے والی گیمز ہیں۔ تاہم پب جی، فری فائر جیسی گیمز کی خاصیت یہ ہے کہ یہ باآسانی فون پر کھیلی جا سکتی ہیں۔

امبر بتاتی ہی کہ ’پہلے آپ کو اچھا کمپیوٹر چاہیے ہوتا تھا، لیکن اب صورتحال مختلف ہے اب آپ کے پاس اچھا موبائل اور ہیڈفونز ہوں تب بھی آپ کا اچھا کام چل پڑتا ہے۔‘

تاہم اگر آپ دوسری ایسی گیمز کھیلتے ہیں جو کمپیوٹر یا کنسول پر ہی کھیلی جا سکتی ہیں تو ایسے میں صورتحال یکسر مختلف ہو جاتی ہے اور پھر آپ کو طاقتور پروسیسر اور گیمنگ کارڈ والا کمپیوٹر، ہیڈفونز، ویب کیم اور آرامدہ کرسی کی ضرورت پڑتی ہے۔

سنہ 2020 میں پاکستان میں پب جی پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کا زمانہ تھا، اور اس دوران جہاں سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے طالبعلم گھروں تک محدود تھے۔ امبر کہتی ہیں کہ وہ ایک مشکل وقت تھا اور ہم ایک ٹورنامنٹ کروانے والے تھے جو خاصے بڑے پیمانے پر منعقد ہو رہا تھا۔

قاسم میر نامی ایک ای سپورٹس پلیئر نے کہا کہ اگر آپ کو اچھی کمپنی سپانسر کرتی ہے تو ہم ان کمپنیوں کی تشہیر کرتے ہیں یوں ہمیں کمپنی کی جانب سے تو تنخواہ ملتی ہے لیکن ساتھ ہی اگر ہم ٹورنامنٹ جیتیں تو ہم اس سے بھی کماتے ہیں اور اگر کوئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ جیت لیں، تو یہ اچھے پیسے بن جاتے ہیں۔‘

تاہم ایک ای سپورٹس پلیئر داؤد سکندر نے بتایا کہ اگر کوئی کمپنی آپ کو سپانسر کر رہی ہے تو آپ کے لیے یہ خاصا آسان ہے، ورنہ خرچہ پورا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

گیمنگ

’کوچنگ کے ذریعے بھی پیسے کمائے جا سکتے ہیں‘

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ کسی بھی دوسرے کھیل کی طرح اس میں بھی کوچنگ کا خاصا اہم کردار ہے اور گیمرز اپنی گیم میں بہتری لانے کے لیے کوچنگ لیتے ہیں۔

پاکستان میں یوں تو ارسلان ایش کا خاصا نام ہے لیکن اب ان کے علاوہ بھی اچھے کھلاڑی گیمنگ انڈسٹری کا حصہ ہیں اور ان میں سے ایک بلال بھی ہیں جو گذشتہ سات برس سے ٹیکن 7 کھیل رہے ہیں اور بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ای سپورٹس کی صورتحال کافی سست ہے، لیکن باقی دنیا میں یہ خاصی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔

’پاکستان میں بھی اب آگاہی پیدا ہو رہی ہے اور نوجوان لوگ اس شعبے میں آ رہے ہیں۔‘

بلال ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جو نہ صرف ای سپورٹس کھیلتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کی کوچنگ بھی دیتے ہیں اور اس سے پیسے کماتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’میں نے جاپان کی ایک لڑکی کو کوچنگ کر کے اپنے کوچنگ کریئر کا آغاز کیا تھا، اس سے میں سیکھا بھی اور ساتھ ہی اس کو کوچنگ کی بھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گیم کے اندر ان کی خامیاں دیکھ کر ان کے بارے میں منصوبہ ترتیب دینا اس کا حصہ ہیں۔ میں امریکہ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں کوچنگ کرتا ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں کوچنگ کا رجحان کم ہے کیونکہ میں باہر کے ملکوں میں 35 ڈالر فی گھنٹہ چارج کرتا ہوں۔‘

بلال نے اس شعبے میں داخل ہونے والے نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ انھیں سب سے پہلے اپنی گیم کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا سب سے بہتر تجربہ ٹیکن کے ساتھ ہے، اور زیادہ لوگوں کو معلوم ہے کہ ٹیکن ہی زیادہ مشہور ہے کیونکہ باقی گیمز میں انٹرنیٹ درکار ہوتا ہے لیکن ٹیکن آف لائن کھیلی جاتی ہے اس لیے اس میں اس طرح کے مسائل نہیں ہیں۔‘

انھوں نے اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’ٹیکن میں ہر کردار کے کم سے کم 30 سے 40 مووز ہیں جو آپ کو یاد رکھنے ہوتے ہیں اس لیے ٹیکن تھوڑی سی مشکل ہے۔‘

بلال کے مطابق میچ دیکھتے رہنے چاہییں اور ان کا تجزیہ کرنے سے آپ اگلے پلیئر کی غلطیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں اس سے آپ کو خود اعتمادی ملتی ہے اور جب آپ کا مقابلہ ان کھلاڑیوں یا کسی ایسی صورتحال سے ہوتا ہے تو آپ کو آسانی ہوتی ہے۔

’یہ آپ سارا دن بھی کھیل سکتے ہیں‘

ایک اور ٹیکن کھلاڑی قاسم میر نے گیمنگ کرنے والوں کی روزمرہ کے کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ آپ سارا دن بھی کھیل سکتے ہیں، یہ آپ پر ہے کہ آپ نے خود کو کس طرح بہتر کرنا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ جیسے پڑھائی کرتے ہیں اور ہمیں پریشانی یا ہم پر دباؤ ہوتا ہے اسی طرح یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، ہمیں میچ سے ایک دن پہلے نیند نہیں آتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں کیونکہ آپ کھا پی کر گیمنگ پر بیٹھ جاتے ہو اور آپ کی کوئی حرکت نہیں ہوتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ موٹے ہو رہے ہو اس لیے پھر ہم ساتھ میں جم جوائن کر لیتے ہیں اور دوڑتے ہیں۔ کچھ کو عینک لگ جاتی ہے لیکن ہم فی الحال ٹھیک ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *