شاہد آفریدی، عبدالرزاق سلیکشن کمیٹی کا حصہ اب حسن علی نمبر چار پر، آصف علی ٹیسٹ میچوں میں کھیلیں گے
ایک دہائی پہلے تک بولرز کے لیے دردِ سر بننے والے آلراؤنڈرز شاہد آفریدی اور عبدالرزاق اب پاکستان کی قومی ٹیم کی عبوری سیلیکشن کمیٹی کا حصہ ہیں۔
پاکستان میں کرکٹ کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد ان دونوں جارحانہ آلراؤنڈرز کو دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی اور دونوں نے ہی پاکستان کو کئی سنسنی خیز میچوں میں فتح دلوائی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پی سی بی کی مینیجمنٹ کمیٹی کی جانب سے کیے گئے اس فیصلے کے حوالے سے اکثر مداح خاصے پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔
سابق کپتان شاہد آفریدی اس سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی کریں گے جبکہ عبدالرزاق کے علاوہ کمیٹی کے دیگر اراکین میں راؤ افتخار انجم اور ہارون رشید شامل ہوں گے۔
ویسے تو یہ ایک عبوری سیلیکشن کمیٹی ہے لیکن حالیہ عرصے میں پاکستان کے کرکٹ کھیلنے کے انداز کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کے بعد اس فیصلے کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
نجم سیٹھی نے اس بارے میں اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں امید ہے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں محدود وقت کے باوجود عبوری سلیکشن کمیٹی ’دلیرانہ فیصلے کرے گی۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’شاہد آفریدی ایک جارحانہ کرکٹر رہے ہیں جنھوں نے اپنی تمام کرکٹ بغیر کسی خوف کے کھیلی، اور ہمیشہ نوجوان ٹیلنٹ کی حمایت کی ہے۔‘
یہاں استعمال ہونے والے الفاظ جیسے ’دلیرانہ‘، ’جارحانہ‘ اور ’بغیر کسی خوف کے‘ آنے والے دنوں میں پاکستانی ٹیم کی سیلیکشن پالیسی اور کھیل کے انداز کے بارے میں ایک جھلک ضرور فراہم کرتی ہے۔
تاہم شاہد آفریدی کو سیلیکشن کمیٹی کی سربراہی دینے کے فیصلے پر ناقدین کی یہ رائے ہے کہ یہ ذمہ داری کسی ایسے شخص کو دینی چاہیے تھی جو ڈومیسٹک کرکٹ پر گہری نظر رکھتا ہو اور محمد وسیم کی جانب سے اس ضمن میں اچھا کردار نبھایا جا رہا تھا۔
یاد رہے کہ نیوزی لینڈ کی ٹیم پاکستان پہنچ چکی ہے جہاں میزبان ٹیم کے ساتھ اس کے دو ٹیسٹ اور تین ایک روزہ میچوں کی سیریز ہو گی۔ پہلا ٹیسٹ 26 سے 30 دسمبر کے دوران کراچی جبکہ دوسرا ٹیسٹ میچ ملتان میں کھیلا جائے گا۔
ٹیسٹ میچوں کے لیے قومی ٹیم کا اعلان کیا جا چکا ہے اس لیے نئی سیلیکشن کمیٹی کا پہلا امتحان پاکستان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے لیے ٹیم کا انتخاب کرنا ہو گا۔
کرکٹ ٹیم کا جارحانہ انداز اپنانے کی طرف پہلا قدم؟
شاہد آفریدی کی جارحانہ بیٹنگ کے چرچے تو پوری دنیا میں مشہور ہیں لیکن آلراؤنڈر عبدالرزاق بھی کسی سے کم نہیں تھے۔
دونوں ہی کھلاڑی تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور دونوں نے پاکستان کی سنہ 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی جیت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
آج کل دنیائے کرکٹ میں ٹیسٹ میچوں میں بھی جارحانہ انداز اپنانے کا ٹرینڈ خاصا مقبول ہے۔ یہ ٹرینڈ دراصل حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والی انگلش ٹیم کے کوچ برینڈن مکلم اور کپتان بین سٹوکس کی جانب سے شروع کیا گیا ہے اور سٹوکس اس دوران اپنے پہلے نو میں آٹھ ٹیسٹ میچ جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پاکستان کی ہوم گراؤنڈ پر انگلینڈ کے ہاتھوں پہلی وائٹ واش شکست کے بعد یہ مطالبے زور پکڑنے لگے تھے کہ اب پاکستان کو بھی جارحانہ حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ نجم سیٹھی کی جانب سے شاہد آفریدی اور عبدالرزاق کو عبوری سیلیکشن کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے لیکن کیا صرف جارحانہ سیلیکشن ہی پاکستان ٹیم کے مسائل کا حل ہے؟
یہ ضرور ہے کہ برینڈن مکلم اور بین سٹوکس کی جانب سے ایسے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے جو جارحانہ کرکٹ کھیلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ہیری بروک کی ہے جنھوں نے پاکستان کے دورے پر ڈیبیو کیا اور تین میچوں میں تین سنچریاں اور ایک نصف سنچری سکور کی۔
اسی طرح بین ڈکٹ بھی ان کھلاڑیوں میں سے ہیں جنھوں نے پاکستان کے دورے پر ٹیسٹ ڈیبیو کیا اور جارحانہ انداز سے کھیلتے ہوئے سنچری سکور کی۔
اس بارے میں بات کرتے ہوئے کچھ صارفین کا خیال تھا کہ شاہد آفریدی اگر ڈومیسٹک کرکٹ دیکھتے ہی نہیں ہیں تو وہ کیسے بہتر فیصلے کر سکیں گے۔
ایک صارف نے لکھا کہ شاہد آفریدی کو ٹیم مینجمنٹ میں شامل کر دیتے لیکن انھیں سیلیکٹر بنانا حماقت ہے ان سے بہتر تو محمد وسیم تھے جو کم از کم ڈومیسٹک کرکٹ کے بارے میں جانتے تھے۔
اس حوالے سے سے بات کرتے ہوئے کچھ صارفین نے مزاح کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ ’اب بولر حسن علی نمبر چار پر اور آصف علی ٹیسٹ میچوں میں کھیلیں گے۔‘
اس طرح اکثر صارفین نے اسے پاکستان ٹیم میں اچھی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دیا۔ انس شبیر نے لکھا کہ کیا شاہد آفریدی اپنی فلاحی تنظیم کے کاموں سے وقت نکال پائیں گے اور گراؤنڈز میں جا کر میچ دیکھ سکیں گے؟
ہمانشو پاریک نے لکھا کہ ’آپ بیزبال کی بات کر رہے ہیں اب شاہد آفریدی پاکستان کرکٹ کے چیف سیلیکٹر ہیں ذرا سوچیے۔‘
ڈینس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’مجھے شاہد آفریدی بہت پسند ہیں لیکن انھیں چیف سیلیکٹر بنانا اچھا فیصلہ نہیں لگتا کیونکہ ان کا ڈومیسٹک کرکٹ دیکھنے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں عبدالرزاق ایک اچھی چوائس ہیں۔‘
کچھ صارفین اس بارے میں بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ سیلیکشن کمیٹی پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرے گی اور بہت سے ایسے کرکٹر جو کافی عرصے سے ٹیم سے باہر ہیں جن میں عماد وسیم، محمد عامر، عمر اکمل اور احمد شہزاد شامل ہیں، کیا وہ اب دوبارہ سے ٹیم کا حصہ بنیں گے؟