سیلاب سے سوات میں تباہی آخر دریا کے اندر یا دریا کے کنارے ہی ہوٹل کیوں؟
’سیلاب تو اپنی جگہ تھا لیکن ساتھ پانی کے ساتھ ایک بڑا پتھر بھی آیا جس نے ہوٹل کی عمارت کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا اس کے بعد عمارت اوپر سے گری ہے لیکن اب بھی انھیں امید ہے کہ ہوٹل کی عمارت کافی حد تک بچ گئی ہے۔‘
یہ کہنا ہے کالام میں نیو ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری کا جن کے ہوٹل کے گرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔
یہ ہوٹل دریا کے اندر ہی تعمیر کیا گیا تھا، اس ہوٹل کو پہلی مرتبہ نقصان نہیں پہنچا بلکہ 2010 کے سیلاب میں بھی اس ہوٹل کی عمارت کو سخت نقصان پہنچا تھا۔
- پاکستان میں جاری سیلابی صورتحال سے آپ کیسے متاثر ہو رہے ہیں، ہمیں بتانے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔
آخر دریا کے اندر یا دریا کے کنارے ہی ہوٹل کیوں؟
سوات کے بالائی علاقوں کالام، بحرین اور مدین میں جہاں بلند سرسبز پہاڑ ہیں وہاں ان علاقوں میں صاف شفاف ٹھاٹیں مارتا دریا بھی ہے جس کے کنارے بیٹھ کر لوگ پانی کی تیز لہروں کے مزے لیتے ہیں۔
اسی لیے آپ جہاں بھی جائیں ان علاقوں میں ہوٹل اور تفریحی مقامات کے علاوہ دکانیں بھی دریا کے کنارے تعمیر کی جاتی ہیں۔
نیو ہنی مون ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری نے بی بی سی کو بتایا کہ جو سیاح آتے ہیں وہ ایسے ہوٹل کو پسند کرتے ہیں جو دریا کے اندر ہو یا کم سے کم دریا کے قریب تر ہوں۔
ہمایوں شنواری نے یہ ہوٹل 1992میں قائم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت انھیں کسی نے نہیں کہا تھا کہ یہاں ہوٹل کی تعمیر منع ہے ہمیں باقاعدہ اس وقت قائم ملاکنڈ ڈویژن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے اجازت نامہ جاری ہوا تھا ۔ یہ وہ وقت تھا جب کالام میں کچھ نہیں تھا، سیاحت بہت کم تھی اور انھوں نے وہاں انوسٹمنٹ کی تھی۔
ان سے جب کہا گیا کہ دریا کے اندر ہوٹل تعمیر نہیں کیے جا سکتے یہ ماحولیات کے خلاف ہے اور پانی کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس کے لیے تمام اقدامات کیے تھے۔ اس جگہ دریا کا کافی وسیع رقبہ ہے اور انھوں نے پہلے نہیں سنا تھا کہ اتنا شدید سیلاب کبھی اس علاقے میں آیا ہو۔
کتنا نقصان کتنی تباہی؟
بنیادی طور پر سوات کے بالائی علاقے جیسے کالام، بحرین اور مدین میں پانی کے بہاؤ کے سامنے جو کچھ آیا اسے سیلاب بہا کر لے گیا ہے۔
حالیہ سیلاب کے بعد سرکاری سطح پر دو روز پہلے جو اعداد و شمار جاری کیے گئے ان کے مطابق صرف ضلع سوات میں پندرہ افراد ہلاک اور پندرہ زخمی ہوئے ہیں جبکہ 84 مکان مکمل تباہ ہوئے ہیں اور 128 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
اس میں ہوٹلوں کا ذکر نہیں لیکن اگر صرف بحرین کا ذکر کریں جو ایک چھوٹا سا علاقہ ہے یہاں دریا کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام ہوٹل دکانیں اور مکانات کو یا تو نقصان پہنچا ہے اور وہ یا مکمل طور پر تناہ ہو چکے ہیں۔
کالام تک سڑک کے ذریعے رسائی نہیں لیکن وہاں سے اطلاعات ہیں کہ بحرین سے زیادہ نقصان کالام میں ہوا ہے ۔ سوات میں 46 پُل اور 13 بجلی کے پول کو نقصان پہنچا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق نقصان اس سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔
سوات میں تباہی کے آثار نمایاں
جوں جوں سوات کے مختلف علاقوں میں دریاؤں میں پانی کی روانی معمول پر آ رہی ہے اور راستے کھولے جا رہے ہیں تباہی اور نقصانات بھی واضح ہو تے جا رہے ہیں۔
ان میں دریا کے کنارے قائم تقریباً چالیس ہوٹلز بھی متاثر ہوئے ہیں جن میں کچھ پوری طرح تباہ ہوگئے ہیں جن کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے جبکہ کچھ کو جزوی نقصان پہنچا ہے ۔
بحرین کا فاصلہ سوات سے تقریباً 40 کلومیٹر ہے یہ ایک سیاحتی مقام ہے اور یہاں لوگ دریا کی تیز روانی اور خوبصورت نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
بحرین میں دریا کے کنارے جو ہوٹل اور دوکانیں تھیں ان میں سے کچھ کا تو نام و نشان نہیں رہا وہاں صرف پتھر اور ریت تھی اور یا وہاں تیز پانی کی لہریں تھیں۔ بحرین کے مضافات میں پختون آباد اور جھیل کالونی میں متعدد مکانات گر چکے ہیں۔
عوام کا ردعمل
یہاں مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ سنہ 2002 سے پہلے اس بارے میں کوئی قانون نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
مقامی صحافی اور روزنامہ شمال سوات کے ایڈیٹر غلام فاروق نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر دریا کے کنارے تعمیرات کا جائزہ لیا جائے تو سوات کے قریب اوپر لنڈاکئی سے لے کر کالام اور اس سے بھی آگے دریا کے کنارے متعدد غیر قانونی تعمیرات بن چکی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریوینیو ریکارڈ 1950 کا ہے اور اس میں معلوم نہیں کتنی ترامیم ہوئی ہیں اور کتنا اسے اصل حالت میں رکھا گیا ہے۔
ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ ان کی تعمیرات دریا سے دور تھیں اس مرتبہ سیلاب کا ریلا ہی زیادہ تھا جس وجہ سے تباہی ہوئی ہے۔
بحرین میں ایک ہوٹل کے مالک وقار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہوٹل دریا کے اندر کیوں تعمیر کیا تھا تو انھوں نے یہی جواب دیا کہ ہوٹل تو دریا سے دور تھا ہوٹل اور دریا کے درمیان پارکنگ ایریا تھا اور ایک ریسٹورنٹ بھی تھا لیکن پانی تو ہوٹل کی تیسری منزل تک آیا۔
مقامی سطح پر یہ کہا جاتا ہے کہ دریا اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹ کو خود ہی ہٹا دیتا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہی دیکھا گیا ہے کہ جہاں تجاوزات کی گئی ہیں وہ سیلاب سے تباہ ہوئی ہیں۔
تباہی کے بعد بھی وہیں تعمیر
نیو ہنی مون ہوٹل کو پہلی مرتبہ نقصان نہیں پہنچا بلکہ سنہ 2010 کے سیلاب میں یہ ہوٹل بری طرح متاثر ہوا تھا۔
ہوٹل کے مالک ہمایوں شنواری نے بتایا کہ ان کا ہوٹل 2010 میں تباہ ہو گیا تھا لیکن تاثر یہ تھا کہ بس پھر یہاں اتنا سیلاب کبھی نہیں آئے گا اس کے علاوہ 2010 کا سلاب تاریخ کا ایک بڑا سیلاب تھا۔
انھوں نے بتایا کہ دوبارہ تعمیر کے بعد انھیں نے ہوٹل کی حفاظت کے لیے ایک سیفٹی وال بھی تعمیر کی تھی لیکن دو برس پہلے انتظامیہ نے تجاوزات کے تحت اسے ہٹا دیا تھا اگر وہ سیفٹی وال ہوتی تو شاید آج اتنا نقصان نہ ہوتا۔
وہ زیادہ پریشان نہیں تھے بس اسے اللہ کی رضا سمجھ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس ہوٹل پر 70سے 80 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تھی اور اسے مقامی انتطامیہ نے فور سٹار کا درجہ دیا تھا۔ نیو ہنی مون ہوٹل اس علاقے کا بڑا ہوٹل تھا جہاں غیر ملکی سیاح بھی رہتے تھے۔
ہمایوں شنواری نے بتایا کہ ان کے ہوٹل میں کل 138 کمرے تھے اور ان کے ہوٹل کے عملے کی تعداد 120 تک ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان کے اندازے کے مطابق ہوٹل پچاس سے ساٹھ فیصد ٹھیک ہے اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔
ان سے جب کہا گیا کہ ویڈیو سے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کی بنیادیں ہل گئی ہوں گی تو ان کا کہنا تھا کہ بنیادوں کے ساتھ بڑا پتھر ٹکرایا ہے جس سے نقصان ہوا لیکن انھوں نے کہا کہ اس کی مرمت ہو جائے گی اور جو نقصان پانی سے ہوا ہے وہ امید ہے زیادہ نہیں ہوگا۔
قانون کیا اور کون ذمہ دار ہے؟
اگرچہ اس بارے میں باتیں بہت ہو رہی ہیں اور سنہ 2010 کے سیلاب کے بعد تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب دریا کے کنارے تعمیرات کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اس کے باوجو بھی تعمیرات دھڑا دھڑ جاری تھیں اور صوبے میں سیاحت کے فروغ کے نام پر تو ایسا لگتا تھا کہ سب کچھ جائز قرار دیا جا رہا تھا۔
محکمہ آبپاشی کے افسر محمد بختیار نے بتایا کہ بنیادی طور پر اس علاقے کی تاریخ میں جو بڑے سیلاب آئے ہیں ان میں ایک سیلاب 1927 میں آیا تھا جس کی شدت 21000 کیوسک تھی جبکہ 2010 میں دوسرا سیلاب آیا اور اس کی شدت 175000 کیوسک تھی۔
26 اگست 2022 کا سیلاب سب سے شدید تھا جو لگ بھگ 247000 کیوسک تھا اس وجہ سے اس کے نقصانات بھی زیادہ ہوئے ہیں ۔
انھوں نے بتایا کہ اگر ریوینیو ریکارڈ کے مطابق دیکھا جائے تو اس دریا کا اپنا راستہ 50 سے 70 فٹ ہے جو کالام اور دیگر علاقوں سے گزرتا ہے لیکن اس کے اندر تعمیرات کی وجہ سے رکاوٹیں بہت آئی ہیں ۔
اس بارے میں سنہ 2002 میں قانون سازی کی گئی تھی جب ریور پروٹیکشن آرڈیننس جاری کیا گیا تھا اور یہ آرڈینینس اس وقت کے ملاکنڈ ڈویژن تک رائج تھا۔
اس آرڈینسنس کو پھر سال 2014 میں ایکٹ کا درجہ دیا گیا جس کے دریا کے اندر یا قریب تعمیرات کے لیے این او سی کا حصول ضروری ہوگا۔ اگر دریا کے اندر اور یا قریب تعمیرات ہو نگی تو اس کے تحت 7 دن کا نوٹس جاری کیا جائے گا تاکہ مالک خود عمارت منہدم کر دے وگرنہ انتطامیہ پھر کارروائی کرے گی۔
اس کے علاوہ اس قانون کے تحت دریا سے 200 فٹ کے اندر تعمیر نہیں ہوگی اور اگر ایسا کیا جائے گا تو پھر اس پر کارروائی ہوگی۔
بختیار خان نے بتایا کہ اس پر کارروائی کے لیے ابتدائی طور پر تحصیل میونسپل افسر کو ذمہ داری سونپی کی گئی لیکن اس پر بظاہر کوئی عمل درآمد نہیں کیا جا سکا اور تعمیرات کا سلسلہ جاری رہا۔
انھوں نے کہا سنہ 2018 میں پھر ترامیم کی گئیں اور اسسٹنٹ کمشنر کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ دریا کے اندر تعمیرات کا جائزہ لے اور اگر کہیں غیر قانونی تمعیرات ہو رہی ہیں تو ان پر وہ کارروائی کرے۔
ان سے جب پوچھا کہ کیا محکمہ آبپاشی کے حکام اس میں کوئی ایکشن نہیں لے سکتے تھے تو ان کا کہناتھا کہ محکمہ آبپاشی کا کردار اتنا ہے کہ وہ سیلاب کی سطح پر نظر رکھتے ہیں کہ اور یہ کہ کس حد تک پانی کی روانی جاری ہے ۔
اب آگے کیا کیا جا سکتا ہے ؟
حالیہ سیلاب میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے ہوٹلوں کی تباہی کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد اس بارے میں لوگ باتیں بھی کر رہے ہیں۔
ہمایوں شنواری نے کہا کہ سیاحت کے فروغ کے لیے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تباہی صرف ہوٹلوں کی نہیں ہوئی سرکاری سڑکوں کی بھی ہوئی ہے حکومت کو چاہیے تھا کہ سڑک دریا سے دور تعمیر کرتے جس پر اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اسی طرح دیگر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے جو دریا کے قریب واقع تھیں۔
محکمہ آبپاشی کے افسر بختیار خان نے بتایا کہ انھوں نے حکومت کو ایک خط لکھا ہے جس میں انھوں نے تجویز دی ہے کہ مقامی سطح پر کمیٹی قائم کی جائے جس میں تحصیل کمیٹی کے اہلکار جیسے پٹواری، ریونیو کے محکمے کے افسران، محکمہ آبپاشی اور دیگر متعلقہ عہدیدار شامل ہوں جو اس بات کا تعین کریں کہ حالیہ سیلاب سے پانی نے جہاں تک کٹاؤ کیا ہے اس کو مارک کریں اور اس کے اندر جو تعمیرات ہیں انھیں ختم کیا جائے اور آئندہ اس جگہ تعمیرات کی اجازت نہ دی جائے۔
مقامی سطح پر کہا جا رہا ہے کہ اس میں غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ کیا دریا کی حدود میں کوئی تجاوز کیا گیا ہے اور کیا انتظامیہ یا متعلقہ حکام نے اس بارے میں کوئی کارروائی کی ہے۔